جنرل باجوہ کے بغیر تحریک عدم اعتماد کی کامیابی ممکن نہیں تھی؛ نجم سیٹھی

جنرل باجوہ کے بغیر تحریک عدم اعتماد کی کامیابی ممکن نہیں تھی؛ نجم سیٹھی
عمران خان پہلے دن سے حکومت کو کہہ رہے ہیں کہ مجھے فیس سیونگ دیں تا کہ میں پارلیمنٹ میں آ کر اگلے الیکشن کی آپ سے بات چیت کر سکوں۔ میرا خیال ہے اسمبلیوں سے استعفیٰ دینے کا اعلان بھی ان کی یہی کوشش ہے کہ حکومت ان کے ساتھ بات چیت کرے۔ میں سمجھتا ہوں کہ جلد یا بدیر حکومت اور عمران خان کے مابین الیکشن سے متعلق بات چیت ضرور ہوگی اور عدالتیں اس میں اہم کردار ادا کریں گی۔ یہ کہنا ہے فرائیڈے ٹائمز کے چیف ایڈیٹر نجم سیٹھی کا۔

نیا دور ٹی وی کے پروگرام 'خبر سے آگے' میں گفتگو کرتے ہوئے نجم سیٹھی نے کہا کہ عمران خان کو یقین ہے کہ عدم اعتماد کبھی نہ آتی اگر باجوہ صاحب کی طرف سے اشارہ نہ ہوتا کہ آپ عدم اعتماد لائیں ہم اس میں رکاوٹ نہیں بنیں گے۔ جنرل باجوہ ایکسٹینشن لے کر اپنا ریکارڈ صاف کرنا چاہتے تھے۔ ان کی کوشش تھی کہ کسی طریقے سے الیکشن ہو جائیں۔ عمران خان نے بھی جاتے جاتے آخری کوشش کی کہ اسمبلی تحلیل کر دیں لیکن پی ڈی ایم ڈٹ گئی کہ نہیں اس کو اب نکالنا ہے اور خود آنا ہے، ایکسٹٰنشن نہیں دینی، خود الیکشن کا اعلان کرنا ہے۔ جنرل باجوہ کو بچانے اور عمران خان کو خوش کرنے کے لیے آخری وقت تک کوشش ہوتی رہی کہ ساحر شمشاد یا اظہر عباس کو چیف بنا دیا جائے اور دوسری یہ کہ عاصم منیر کو بنانا ہی ہے تو جوائنٹ چیف بنا دیں، ساحر کو آرمی چیف بنائیں۔

اس وقت باجوہ صاحب کی سب سے بڑی ضرورت یہ ہے کہ ان پر زبانی حملے نہ ہوں۔ وہ سیاسی طور پر ہی نہیں بلکہ اور طرح سے بھی ایکسپوژ ہو گئے ہیں، وہ اس وقت بہت کمزور پوزیشن میں ہیں۔ اب باجوہ صاحب کی جانب سے یہ پیغام دیا جا رہا ہے کہ میں تو آخر تک پی ٹی آئی کی سائیڈ پہ رہا ہوں، مونس الہیٰ کا بیان اسی تناظر میں آیا ہے۔ اسی لیے خود انہوں نے انٹرویو دیا ہے تاکہ جنرل باجوہ کو فیس سیونگ دی جا سکے۔ نئی اسٹیبلشمنٹ نے بھی باجوہ صاحب کو جاتے ہوئے یقین دہانی کروائی ہے کہ ہم آپ کی حفاظت کریں گے اور (ن) لیگ بھی باجوہ صاحب پر اٹیک نہ کرنے پر رضامند ہو چکی ہے۔ باجوہ صاحب کو اس وقت سب سے زیادہ خطرہ پی ٹی آئی سے ہے، ان کو پی ڈی ایم یا ن لیگ سے کوئی خطرہ نہیں ہے۔

باجوہ صاحب نے براہ راست نہیں کہا کہ تحریک عدم اعتماد میں عمران خان کو سپورٹ کریں، مونس الہیٰ کا یہ دعویٰ غلط ہے۔ جنرل باجوہ نے پرویز الہیٰ سے یہ کہا تھا کہ آپ کے مفاد میں جو فیصلہ ہے آپ وہ کریں۔ انہوں نے براہ راست اس لیے نہیں کہا کیونکہ کور کمانڈرز کانفرنس میں فیصلہ ہو چکا تھا کہ سیاست میں نہیں جانا۔ اسی لیے بات دوسری فون کال تک گئی جو پرویز الہیٰ نے کی نہیں تھی بلکہ انہیں فون آیا تھا ایک ریٹائرڈ جرنیل کا (جنرل فیض کے قریب ہیں وہ) انہوں نے کہا کہ آپ عمران خان کا ساتھ دیں کہ مجھے اوپر سے کہا گیا ہے۔ چونکہ جنرل باجوہ یا جنرل فیض ڈائریکٹ یہ بات نہیں کر سکتے تھے لہٰذا یہ چینل استعمال کیا گیا۔ میرا خیال ہے کہ یہ انتظام باجوہ صاحب نہیں بلکہ جنرل فیض کر رہے تھے۔

جیسے ہی جنرل فیض گئے ہیں طالبان پرانی پوزیشن پر واپس آ گئے ہیں، پتہ نہیں انہوں نے کیا وعدے کیے تھے طالبان سے مگر جو بھی وعدے ہوئے تھے وہ پورے نہیں ہوئے۔ اب جنرل عاصم منیر خود اس معاملے کو دیکھیں گے۔ اس کے لیے فوج حکومت سے اضافی بجٹ بھی مانگے گی اور انہوں نے اسحاق ڈار صاحب سے ایک ملاقات کر بھی لی ہے کہ اب جنگ کرنے جا رہے ہیں۔ جب تک ان سے لڑیں گے نہیں وہ مذاکرات کی طرف نہیں آئیں گے۔ یہ ایشو اب صرف اندرونی معاملہ نہیں رہا بلکہ اس کا تعلق پاکستان کے افغانستان، بھارت اور امریکہ کے ساتھ تعلقات سے جڑا ہے۔

پروگرام کے میزبان رضا رومی اور مرتضیٰ سولنگی تھے۔ 'خبر سے آگے' اتوار کے علاوہ ہر روز رات کو 9 بج کر 5 منٹ پر نیا دور ٹی وی سے براہ راست پیش کیا جاتا ہے۔ فرائیڈے ٹائمز کے ایڈیٹر نجم سیٹھی ہر جمعہ کی شب پروگرام میں شامل ہوتے ہیں۔