'سپریم کورٹ بہت مداخلتیں کر چکی، اب اسے پیچھے ہٹ جانا چاہئیے'

'سپریم کورٹ بہت مداخلتیں کر چکی، اب اسے پیچھے ہٹ جانا چاہئیے'
سپریم کورٹ اس نہج پر ہے جہاں انہوں نے بہت ساری انوویشنز کر لی ہیں مثلاً پرویز الہیٰ کو پارٹی لیڈر سے بھی بڑا بنا دیا اور اسی طرح کے کچھ دیگر فیصلے تو اب ضرورت ہے کہ وہ پیچھے ہٹ جائیں اور مزید خرابیاں نہ پیدا کریں۔ ضلعی عدالتیں متضاد فیصلے دیں تو اتنی حیرانی نہیں ہوگی لیکن سپریم کورٹ اس کنفیوژن کا شکار ہوتی ہے تو میں ضرور حیران ہوں گا۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ والا مقدمہ اتنی دیر تک کیوں چلا۔ جسٹس شوکت صدیقی نے فوج کے ایک حاضر سروس جنرل کی مداخلت کے بارے میں بتایا مگر آپ سے یہ بھی نہ ہو سکا کہ اس سے متعلق دو چار سوال فیض حمید سے بھی پوچھ لیتے۔ سوال تو صحافی بھی کر لیتا ہے مگر آپ نے الٹا شوکت صدیقی کو نکال دیا۔ یہ کہنا ہے عبدالمعز جعفری کا۔

نیا دور ٹی وی کے ٹاک شو 'خبر سے آگے' میں گفتگو کرتے ہوئے معروف قانون دان عبدالمعز جعفری کا کہنا تھا کہ احمد نورانی نے جنرل باجوہ کے اثاثوں سے متعلق خبر دی، اس پر اتنی بات ہی نہیں ہو رہی کیونکہ ہر جنرل اثاثے بنانے کو اپنا حق سمجھتا ہے۔ انصار عباسی جیسے سینیئر صحافی احمد نورانی کی خبر کے بعد وضاحت پیش کرتے ہیں کہ نہیں باجوہ صاحب پر کرپشن کے الزامات نہیں ہیں۔ عاصم سلیم باجوہ نے ایک پیپر پر لکھ کر اپنے اثاثوں کی وضاحت کی تھی اور خان صاحب نے کہا تھا کہ مجھے قبول ہے۔ میں سمجھتا ہوں یہ ساری لڑائی کارنر پلاٹوں کی لڑائی ہے۔

انہوں نے کہا کہ اسمبلی کا اجلاس چل رہا ہو تو عدم اعتماد کی تحریک نہیں پیش کی جا سکتی، یہ بات منطق اور کامن سینس کے خلاف ہے۔ جب لیڈر آف دی ہاؤس کو ہٹانے کی ضرورت پیش آتی ہے تو یقیناً یہ غیر معمولی بات ہوتی ہے اور یہ کام فوراً ہونے والا ہوتا ہے۔ اب جسے فوری طور پر ہٹانا مقصود ہو اسے پورا سیشن دینا ہے تو یہ بات بہت بے تکی لگتی ہے۔

تجزیہ نگار تمکنت فاطمہ کا کہنا تھا کہ پنجاب میں کچھ نہیں ہونے والا، عدالت کے فیصلے کے بعد پی ٹی آئی والے لوگ اب پی ڈی ایم اتحاد کی جانب نہیں جا سکتے، ایک ہی صورت ہے کہ پرویز الہیٰ کو پی ڈی ایم اپنی طرف کر لے۔ پروجیکٹ عمران اسٹیبلشمنٹ میں ختم ہو چکا ہے، میڈیا میں بس دو تین ہی چینل اب رہ گئے ہیں ورنہ میڈیا میں بھی یہ پروجیکٹ ختم ہو چکا ہے۔ پراجیکٹ عمران جیسا پراجیکٹ پاکستان کی تاریخ میں پہلے کبھی نہیں آیا۔ پہلے سیاست دان مہرے ضرور ہوتے تھے جن کو چلایا جاتا تھا مگر جس طرح سے پراجیکٹ عمران لانچ کیا گیا، پاکستان کی تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی۔

مرتضیٰ سولنگی کا کہنا تھا کہ عمران خان کی مثال اس دکان دار جیسی ہے جس کی دکان لٹ چکی ہے، اس پہ کوئی رونق نہیں رہی اور ان کے پکوان بھی پھیکے ہیں۔ وہ اسمبلیوں سے نکلنے والا بیان دے کر پھنس گئے ہیں۔ انہوں نے بہت بھی کوشش کر لی تو وہ صرف کے پی کے اسمبلی تحلیل کروا لیں گے مگر اس فیصلے کے بعد بھی ان کی پارٹی میں اندرونی توڑ پھوڑ ہوگی۔

میزبان رضا رومی کا کہنا تھا کہ پچھلے 6 سالوں میں عدلیہ نے اتنی مداخلت کی ہے کہ خود ہی اپنے آپ کو ایکسپوژ کر دیا ہے۔ ملک میں اس وقت اسٹیبلشمنٹ پیچھے ہٹ رہی ہے تو اس موقعے کا فائدہ اٹھا کر سیاسی رہنماؤں کو معاملات اپنے ہاتھوں میں لے لینے چاہئیں اور دوبارہ معاملات آبپارہ نہیں بھجوانے چاہئیں۔ پروگرام ہر پیر سے ہفتے کی رات 9 بج کر 5 منٹ پر نیا دور ٹی وی سے براہ راست پیش کیا جاتا ہے۔