"ٹاپ فور ججز تو آپس میں بات بھی نہیں کرتے"

سندھ ہائیکورٹ میں جب بھی ججز کی ترقیوں کے معاملات زیرِ غور آتے ہیں یہاں وفاداریوں کو ترجیح دینے کے لئےمیرٹ کو نظرانداز کیا جاتا ہے۔ ماضی کے کسی ایک جج کی جانب سے بوئے ہوئے غلط بیج کی وجہ سے، اپنوں کو نوازنے کے چکر نے عدلیہ کو تباہ کر دیا ہے۔ ٹاپ فور ججز تو آپس میں بات بھی نہیں کرتےہیں۔

صحافی اسد علی طور نے یوٹیوب پر اپنے وی-لاگ میں سندھ ہائیکورٹ کے صحافیوں سے ججز کی ترقیوں  کے معاملے پر بیٹھک کی۔ اے آر وائی نیوز کے کورٹ رپورٹر اصغر عمر کا کہنا ہے کہ ہم لسانی تضاد کو اتنی اہمیت نہیں دیتے ہماری بات صرف میرٹ کی ہے۔ 2007 اور 2008 کے بعد اس ادارےکی تباہی ہوئی ۔ جب  جسٹس افتخار چوہدری کی بحالی کی تحریک چلی تو 60 سے زائد ججز  یہاں سے مستعفی ہوئے تھے جس کے بعد یہاں مسائل پیدا ہوئے۔ افتخار چوہدری کی تحریک نے قانون کی بالا دستی کا نعرہ لگایا لیکن ایسا ہو انہیں۔ افتخار چوہدری کے وفادار ڈھونڈے گئے اور ان کی بحالی کے بعد قانون کی بالا دستی بھی کہیں پیچھے رہ گئی تاہم اس لہر کے اثرات سپریم کورٹ سے دیگر عدالتوں پر بھی ہوئے۔میرٹ کی بجائے تحریک کے وفاداروں کو آگے لانے کی کوشش کی گئی۔انہوں نے وفاداروں کو لانے کے لئے مختلف کوٹوں کا استعمال کیا۔جو ان کی تحریک چلاتے رہے ان تمام کو ججز کے صورت میں نوازا گیا۔  چیف جسٹس تمیزالدین یہاں سے سپریم کورٹ چلے گئے لیکن جب مشیر عالم کو سپریم کورٹ جانا تھا انہوں نے  وفاداری کے اصول کو ترجیح دیتے ہوئے چیف جسٹس گلزار صاحب کو منتخب کر لیا اور سینیارٹی کے اصول کی خلاف ورزی کی۔ یہاں یہ سندھی، اردو،  مسلم اور غیر مسلم جج والا مسئلہ نہیں ہے بلکہ میرٹ کا مسئلہ ہے۔

معزز جسٹس عقیل عباسی دیگر لوگوں سے بہتر "ٹیمپرامنٹ" کے جج ہیں لیکن جب بار بار ان کے بجائے دیگر لوگ سینیارٹی کے اصول کو توڑتے ہوئے آگے جاتے ہیں تو ممکن ہے ان کے مزاج پر منفی اثرات مرتب ہوئے ہوں۔  ان کا ٹیمپرامنٹ خراب ہونے کے الزامات غلط ہیں۔

شوکت کورائی جن کا تعلق نیوز ون  سے ہے اس موقع پر ان کا کہنا تھا کہ سینیئر ترین سندھ ہائیکورٹ جج  احمد علی شیخ ہیں ان کی تقرری کے حوالے سے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نےلکھا تھا کہ جس کو آپ سپریم کورٹ کی ترقی کے لئے مستقل بنیادوں پر اہل نہیں سمجھتے وہ ایڈہاک کی بنیادوں پر کیسے اہل ہو گا۔ اس پر سندھ عدلیہ اور وکلاء برادری دونوں ہی میں دکھ اور افسوس کی لہر ہے۔ سندھ کو پہلے بھی پاکستان حکومت سے شکایات رہی ہیں کہ وہ عدلیہ ہو، اسٹیبلشمنٹ ہو ، آرمی کی ٹاپ رینکنگ ہو،  یا بیوروکریسی ہو سندھ کو ویسا شیئر نہیں ملتا  جیسا کہ ایک صوبے کو ملنا چاہیے۔ عدلیہ میں یہ مسائل بڑھ گئے ہیں۔ یہاں چند سیمینارز ہوئے ہیں جن میں اس پر کھل کر بات بھی کی گئی ہیں کہ احمد علی شیخ کو اس لئے نہیں لیا جارہا کیونکہ ان کا تعلق سندھ سےہے۔ تاہم میں اس بات سے زیادہ اتفاق نہیں کرتا کیونکہ ہمارے ملک میں یہ روایت ہے کہ کسی کی کس پارٹی یا ادارے سے وابستگی ہے۔ جیسے یہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ہے یہ ہماری بات پر ردعمل کا اظہار کرے گا اور یہ ہماری بات کو قبول کرے گا۔ حالانکہ انہوں احمد علی شیخ نے بطور چیف جسٹس کبھی نہ نہیں کی اور جو بھی کہا گیا ہے قبول کیا ہے لیکن اس کا بھی ایک سیاسی پس منظر ہے۔

دوسری اہم بات یہ کہ اس ملک میں اسٹیبلشمنٹ کی جتنی مزاحمت سندھ نے کی ہے کسی دوسرے صوبے نے نہیں کیا۔ کبھی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ کھڑے نہیں ہوئے۔ کسی ایسے شخص کا ساتھ نہیں دیا  جو غیر جمہوری سوچ کا حامل ہو۔ ان کی بھی سوچ جمہوریت پسند اور پراگریسو ہے اسی لئے سپریم کورٹ کی جانب سے ہم خیال نہ ہونےکی وجہ سے ان پر اعتماد نہیں کیا جارہا۔

اب تک نیوز  کے رپورٹر ظفر سومرو  کا موقف تھا کہ ججز صاحبان کی ترقی کا میرٹ وفاداریوں کے گرد ہی گھوم رہا ہے۔ گزشتہ سات سالوں سے کوئی بھی سندھ ہائیکورٹ جج سینیارٹی کی بنیاد پر سپریم کورٹ نہیں گیا۔ منیب اختر فہرست میں چوتھے نمبر پر تھے۔ محمد علی مظہر  پانچویں نمبر پر تھے۔ اب سید حسن اظہر رضوی گئے۔ چیف جسٹس ، عرفان صادق،  عقیل عباسی سب  وہیں کے وہیں رہ گئے۔ تو کوئی بھی سینیارٹی میرٹ پر آگے نہیں گیا۔ ہم خیال اور "یس سر" والے لوگوں کو ترقی دی جاتی ہے۔ ابھی بھی 3 نام گئے تھے جن میں سے دو سندھی تھے۔ دو کو نہیں لے کر گئے جس پر بار کونسل کی جانب سے بہت شدید ردعمل آیا تھا۔

سندھ بار کونسل کے ممبر حیدر امام رضوی  نے کہا تھا "ان کو سندھی چیف جسٹس پسند نہیں ہیں۔ میں سندھی، مہاجر، پنجابی اس بات پر یقین نہیں کرتا۔ کسی کو اس بنیاد پر مسترد کر دینا غلط ہے۔ میرٹ ہونا چاہیے۔ میں سندھی نہیں ہوں اردو سپیکنگ ہوں لیکن میں یہ س بول رہا ہو اپنے بھائیوں کے لئے۔ آپ جس کو نہیں لے رہے اس کا چیف جسٹس کا ٹینور 3 سال کا ہو گا وہ بعد میں آپ کے گلے میں اٹکے گا۔"

سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس احمد علی شیخ مُلک میں ہائی کورٹ کے سب سے سینئر جج ہیں لیکن انہیں سپریم کورٹ میں ترقی کے لیے نامزد نہیں کیا گیا۔

جیو نیوز  کے رپورٹر امین انور  کا ججز کی تقرریوں میں وفاداریوں کے میرٹ پر کہنا تھا کہ جسٹس ریٹائرڈ مقبول باقر کے مطابق عدلیہ کے سسٹم میں ججز کے انتخاب کے معاملے میں "کورٹ پیکنگ" کی جارہی ہے۔ یہاں بھی ایسا ہی ہو رہا ہے اور خاصی فرسٹریشن بھی پائی جاتی ہے۔ اطلاعات ہیں کہ ٹاپ فور ججز تو آپس میں بات بھی نہیں کرتے ہیں ۔ ججز صاحبان کی ترقی کے معاملات کے بعد سے ان کی آپس میں بات نہیں ہوتی بلکہ بات تلخ کلامی تک گئی تھی کیونکہ نہ ہے ترقیاں ہو رہی ہیں اور نہ ہی چیف بن پا رہے ہیں۔ اگر کوئی پروگرام ہو اور جس میں چاروں کو مدعو کیا ہو تو  ان کے ایک ساتھ آنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ جس طرح عوام کےمفاد کے معاملات ہیں ان پر بھی اس طرح کارروائیں نہیں ہو رہی جس طرح ہونی چاہیے تھی۔ آپس کے جھگڑوں کی وجہ سے اہم معاملات نظرانداز ہورہے ہیں۔ لیٹیجنٹس اور وکلاء دونوں کو مشکلات کا سامنا ہے۔ اس وقت سندھ ہائیکورٹ میں دو سینئر ججز ایسے ہیں جو بہت خوش اخلاق اور نرم مزاج ہیں وہ عقیل عباسی اور جسٹس اقبال کلورو  ہیں۔ ان کی کارکردگی بھی اچھی ہے اور وہ ریلیف بھی دیتے ہیں۔  جج  احمد علی شیخ ہیں ان کی تقرری کے حوالے سے جو معاملات ہیں۔ اگر وہ اہل ہی نہیں تھے تو انہیں جج بھی نہ بناتے جیسا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نےلکھا تھا کہ جس کو آپ سپریم کورٹ کی ترقی کے لئے مستقل بنیادوں پر اہل نہیں سمجھتے وہ ایڈہاک کی بنیادوں پر کیسے اہل ہو گا۔

ڈان ٹی وی  کے لئے سندھ ہائیکورٹ کے رپورٹر شفیع بلوچ  سے پوچھا گیا کہ  یہ تمام مسئلہ سینیارٹی کا ہے یا سندھ کے ڈومیسائل کا؟ اس پر ان کا کہنا تھا کہ فیورٹ ازم ہے۔ 2008 میں افتخار چوہدری نے نیشنل جوڈیشری پالیسی بنائی تھی جس کے تحت جلد ٹرائل اور ججز کی سینیارٹی پر ترقی کا طریق کار واضح کیا گیا تھا۔ عدالتوں کی تعداد بڑھائی گئی، ججز کی تعداد 26 سے بڑھا کر 40 کی گئی۔ جب پالیسی نافذ ہوئی تو جتنےلوگوں کے ناموں کی تجویز گئی ہوئی تھی کسی ایک کا بھی نام منظور نہیں ہوا۔ اس کی کوریج پر افتخار چوہدری نے مشیر عالم سے کہا تو انہوں نے مجھے بلا لیا اور بہت تسلیاں اور تشفیاں دیں کہ ابھی صرف 6 ماہ ہوئے ہیں تمام معاملا سینیارٹی میرٹ پر ہوں گی۔ آپ بے فکر رہیں۔ تاہم اس کے باجود بھی ایسا نہیں ہو سکا اور ججز کی ترقیاں میرٹ پر نہیں ہوئیں۔ ججز میں، بینچز میں اختلافات پیدا ہوئے۔ اب جو بھی بنچ بنتا اس کی تشکیل میں یہ عنصر غالب ہوتا کہ ممبران میں اختلافات کم ہوں۔ اس ادارے میں فیورٹ ازم بہت ہے اور  دوسرا یہ بات بھی ہے کہ ان کو اعتماد کے مسائل ہیں کہ سندھ کے ججز مزاحمت کریں گے اور ایجنڈا ہے ہٹ جائیں گے۔

جسٹس عقیل عباسی کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ دوسرے چیف جسٹس کے مقابلے میں ان کا کنڈکٹ بہت اچھا ہے۔ معاملات کو اچھے سے سمجھتے ہیں اور ان کی کوشش ہوتی ہے کہ زیادہ سے زیادہ اچھے فیصلے کریں۔

عرفان الحق  جو سماء نیوز کے لئے عدالتی کارروائیوں کی کوریج کرتے ہیں ان کا کہنا تھا کہ

یہ اختلاف، غم و غصے کا اظہار بنچز کی تشکیل میں بھی نظر آتا ہے۔ مگر حالیہ تاریخ میں جسٹس منیب اختر کی ایلیویشن کے بعد کے وقت میں زیادہ دیکھی جاتی ہیں۔ سینیئر افسران میں سے اگر  جج  احمد علی شیخ کو آپ سمجھتے ہیں کہ قابل نہیں تو انہیں سرے سے ہی جج نہیں بنانا چاہیے تھا۔ ایڈہاک والی آفر بھی نہیں دینی چاہیے تھی۔

جسٹس عقیل عباسی بہت قابل جج ہیں۔ بہت اچھے ججز میں ان کا شمار ہوتا ہے۔ جہاں تک بات ہے ان کے کنڈکٹ کی تو ان کارویہ یا غصہ ایسا تو نہیں ہے جو دیگر ججز سے مختلف ہو۔ نارمل روٹین والا ہی رہا ہے۔ اگر ان کے رویے اور کنڈکٹ کو بنیادبنا کر ان کی ترقی نہیں ہونے دے رہے تو یہ تمام الزامات غلط ہیں۔

جب ایک جج 4 سال سے وہیں بیٹھا ہے وہ آگے نہیں جا پا رہا  لیکن اس سے کم سینئر جج ترقی پا کر آگے چلا جاتا ہے تو اس سے تناو تو پیدا ہوتا ہی ہے۔ بنچز کی تشکیل میں بعد ازاں یہ تناو نظر بھی آتا ہے۔ جیسے لاپتہ افراد وال بنچ بار بار تبدیل ہوتا رہا ہے۔

سندھی، اردو،  پنجابی ججز والا مسئلہ جو سپریم کورٹ سے نکلا ہے تو  یہ بہت بڑی زیادتی ہو گی کہ آپ جج  احمد علی شیخ کو نہیں ایلیویٹ کرہے کیونکہ وہ سندھی ہیں۔ حالیہ دنوں میں جسٹس اقبال کلورو کا نام بھی مسترد ہوا۔ جسٹس نعمت اللہ کا نام وہاں جا کر پچیس طرح کے اعتراضات لگا کر مسترد کیا گیا۔ آپ نے ایک سیگمنٹ کو سوچنے پر مجبور کر دیا کہ آپ سندھی ججز کو نہیں لیں گے۔

جیسا کہ حیدر امام رضوی  نے کہا تھا "آپ ملک میں آگ لگا رہے ہیں۔ ملک توڑنے کی طرف لے جانا چاہ رہے ہیں۔ عدلیہ کو کیا سمجھا ہوا ہے؟ اپنی مرضی سے چلانا چاہتے ہیں۔"

یہ درحقیقت ایک فیکٹ ہے کہ جب آپ اپنے مفاد اور مسائل کی وجہ سے کسی  کو سینئر ہونے کے باوجود  آگے نہیں لے کر جا رہے تو ایسے میں تناو اور غم و غصے کی فضا تو بنے گی۔