• آن لائن اشتہاری ٹیرف
  • رابطہ کریں
  • ہمارے بارے میں
  • ہمارے لئے لکھیں
  • نیا دور انگریزی میں
بدھ, فروری 1, 2023
نیا دور
  • صفحۂ اول
  • تازہ ترین
  • خبریں
  • ویڈیوز
  • تجزیہ
  • فیچر
  • میگزین
  • عوام کی آواز
  • Click here for English
No Result
View All Result
  • صفحۂ اول
  • تازہ ترین
  • خبریں
  • ویڈیوز
  • تجزیہ
  • فیچر
  • میگزین
  • عوام کی آواز
  • Click here for English
No Result
View All Result
نیا دور
No Result
View All Result

“ٹاپ فور ججز تو آپس میں بات بھی نہیں کرتے”

حیدر امام رضوی  نے کہا تھا "آپ ملک میں آگ لگا رہے ہیں۔ ملک توڑنے کی طرف لے جانا چاہ رہے ہیں۔ عدلیہ کو کیا سمجھا ہوا ہے؟ اپنی مرضی سے چلانا چاہتے ہیں۔ میں سندھی، مہاجر، پنجابی اس بات پر یقین نہیں کرتا۔ کسی کو اس بنیاد پر مسترد کر دینا غلط ہے۔ میرٹ ہونا چاہیے۔"

نیا دور by نیا دور
دسمبر 5, 2022
in ایڈیٹر کی پسند, خبریں
90 1
0
“ٹاپ فور ججز تو آپس میں بات بھی نہیں کرتے”
106
SHARES
504
VIEWS
Share on FacebookShare on TwitterShare on Whatsapp

سندھ ہائیکورٹ میں جب بھی ججز کی ترقیوں کے معاملات زیرِ غور آتے ہیں یہاں وفاداریوں کو ترجیح دینے کے لئےمیرٹ کو نظرانداز کیا جاتا ہے۔ ماضی کے کسی ایک جج کی جانب سے بوئے ہوئے غلط بیج کی وجہ سے، اپنوں کو نوازنے کے چکر نے عدلیہ کو تباہ کر دیا ہے۔ ٹاپ فور ججز تو آپس میں بات بھی نہیں کرتےہیں۔

صحافی اسد علی طور نے یوٹیوب پر اپنے وی-لاگ میں سندھ ہائیکورٹ کے صحافیوں سے ججز کی ترقیوں  کے معاملے پر بیٹھک کی۔ اے آر وائی نیوز کے کورٹ رپورٹر اصغر عمر کا کہنا ہے کہ ہم لسانی تضاد کو اتنی اہمیت نہیں دیتے ہماری بات صرف میرٹ کی ہے۔ 2007 اور 2008 کے بعد اس ادارےکی تباہی ہوئی ۔ جب  جسٹس افتخار چوہدری کی بحالی کی تحریک چلی تو 60 سے زائد ججز  یہاں سے مستعفی ہوئے تھے جس کے بعد یہاں مسائل پیدا ہوئے۔ افتخار چوہدری کی تحریک نے قانون کی بالا دستی کا نعرہ لگایا لیکن ایسا ہو انہیں۔ افتخار چوہدری کے وفادار ڈھونڈے گئے اور ان کی بحالی کے بعد قانون کی بالا دستی بھی کہیں پیچھے رہ گئی تاہم اس لہر کے اثرات سپریم کورٹ سے دیگر عدالتوں پر بھی ہوئے۔میرٹ کی بجائے تحریک کے وفاداروں کو آگے لانے کی کوشش کی گئی۔انہوں نے وفاداروں کو لانے کے لئے مختلف کوٹوں کا استعمال کیا۔جو ان کی تحریک چلاتے رہے ان تمام کو ججز کے صورت میں نوازا گیا۔  چیف جسٹس تمیزالدین یہاں سے سپریم کورٹ چلے گئے لیکن جب مشیر عالم کو سپریم کورٹ جانا تھا انہوں نے  وفاداری کے اصول کو ترجیح دیتے ہوئے چیف جسٹس گلزار صاحب کو منتخب کر لیا اور سینیارٹی کے اصول کی خلاف ورزی کی۔ یہاں یہ سندھی، اردو،  مسلم اور غیر مسلم جج والا مسئلہ نہیں ہے بلکہ میرٹ کا مسئلہ ہے۔

RelatedPosts

نگران وزیر اعلیٰ پنجاب کی تعیناتی کے خلاف پی ٹی آئی کی درخواست واپس

سائفر کی تحقیقات، سپریم کورٹ جسٹس طارق مسعود کی دائر اپیلیں سننے سے معذرت

Load More

معزز جسٹس عقیل عباسی دیگر لوگوں سے بہتر “ٹیمپرامنٹ” کے جج ہیں لیکن جب بار بار ان کے بجائے دیگر لوگ سینیارٹی کے اصول کو توڑتے ہوئے آگے جاتے ہیں تو ممکن ہے ان کے مزاج پر منفی اثرات مرتب ہوئے ہوں۔  ان کا ٹیمپرامنٹ خراب ہونے کے الزامات غلط ہیں۔

شوکت کورائی جن کا تعلق نیوز ون  سے ہے اس موقع پر ان کا کہنا تھا کہ سینیئر ترین سندھ ہائیکورٹ جج  احمد علی شیخ ہیں ان کی تقرری کے حوالے سے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نےلکھا تھا کہ جس کو آپ سپریم کورٹ کی ترقی کے لئے مستقل بنیادوں پر اہل نہیں سمجھتے وہ ایڈہاک کی بنیادوں پر کیسے اہل ہو گا۔ اس پر سندھ عدلیہ اور وکلاء برادری دونوں ہی میں دکھ اور افسوس کی لہر ہے۔ سندھ کو پہلے بھی پاکستان حکومت سے شکایات رہی ہیں کہ وہ عدلیہ ہو، اسٹیبلشمنٹ ہو ، آرمی کی ٹاپ رینکنگ ہو،  یا بیوروکریسی ہو سندھ کو ویسا شیئر نہیں ملتا  جیسا کہ ایک صوبے کو ملنا چاہیے۔ عدلیہ میں یہ مسائل بڑھ گئے ہیں۔ یہاں چند سیمینارز ہوئے ہیں جن میں اس پر کھل کر بات بھی کی گئی ہیں کہ احمد علی شیخ کو اس لئے نہیں لیا جارہا کیونکہ ان کا تعلق سندھ سےہے۔ تاہم میں اس بات سے زیادہ اتفاق نہیں کرتا کیونکہ ہمارے ملک میں یہ روایت ہے کہ کسی کی کس پارٹی یا ادارے سے وابستگی ہے۔ جیسے یہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ہے یہ ہماری بات پر ردعمل کا اظہار کرے گا اور یہ ہماری بات کو قبول کرے گا۔ حالانکہ انہوں احمد علی شیخ نے بطور چیف جسٹس کبھی نہ نہیں کی اور جو بھی کہا گیا ہے قبول کیا ہے لیکن اس کا بھی ایک سیاسی پس منظر ہے۔

دوسری اہم بات یہ کہ اس ملک میں اسٹیبلشمنٹ کی جتنی مزاحمت سندھ نے کی ہے کسی دوسرے صوبے نے نہیں کیا۔ کبھی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ کھڑے نہیں ہوئے۔ کسی ایسے شخص کا ساتھ نہیں دیا  جو غیر جمہوری سوچ کا حامل ہو۔ ان کی بھی سوچ جمہوریت پسند اور پراگریسو ہے اسی لئے سپریم کورٹ کی جانب سے ہم خیال نہ ہونےکی وجہ سے ان پر اعتماد نہیں کیا جارہا۔

اب تک نیوز  کے رپورٹر ظفر سومرو  کا موقف تھا کہ ججز صاحبان کی ترقی کا میرٹ وفاداریوں کے گرد ہی گھوم رہا ہے۔ گزشتہ سات سالوں سے کوئی بھی سندھ ہائیکورٹ جج سینیارٹی کی بنیاد پر سپریم کورٹ نہیں گیا۔ منیب اختر فہرست میں چوتھے نمبر پر تھے۔ محمد علی مظہر  پانچویں نمبر پر تھے۔ اب سید حسن اظہر رضوی گئے۔ چیف جسٹس ، عرفان صادق،  عقیل عباسی سب  وہیں کے وہیں رہ گئے۔ تو کوئی بھی سینیارٹی میرٹ پر آگے نہیں گیا۔ ہم خیال اور “یس سر” والے لوگوں کو ترقی دی جاتی ہے۔ ابھی بھی 3 نام گئے تھے جن میں سے دو سندھی تھے۔ دو کو نہیں لے کر گئے جس پر بار کونسل کی جانب سے بہت شدید ردعمل آیا تھا۔

سندھ بار کونسل کے ممبر حیدر امام رضوی  نے کہا تھا “ان کو سندھی چیف جسٹس پسند نہیں ہیں۔ میں سندھی، مہاجر، پنجابی اس بات پر یقین نہیں کرتا۔ کسی کو اس بنیاد پر مسترد کر دینا غلط ہے۔ میرٹ ہونا چاہیے۔ میں سندھی نہیں ہوں اردو سپیکنگ ہوں لیکن میں یہ س بول رہا ہو اپنے بھائیوں کے لئے۔ آپ جس کو نہیں لے رہے اس کا چیف جسٹس کا ٹینور 3 سال کا ہو گا وہ بعد میں آپ کے گلے میں اٹکے گا۔”

سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس احمد علی شیخ مُلک میں ہائی کورٹ کے سب سے سینئر جج ہیں لیکن انہیں سپریم کورٹ میں ترقی کے لیے نامزد نہیں کیا گیا۔

جیو نیوز  کے رپورٹر امین انور  کا ججز کی تقرریوں میں وفاداریوں کے میرٹ پر کہنا تھا کہ جسٹس ریٹائرڈ مقبول باقر کے مطابق عدلیہ کے سسٹم میں ججز کے انتخاب کے معاملے میں “کورٹ پیکنگ” کی جارہی ہے۔ یہاں بھی ایسا ہی ہو رہا ہے اور خاصی فرسٹریشن بھی پائی جاتی ہے۔ اطلاعات ہیں کہ ٹاپ فور ججز تو آپس میں بات بھی نہیں کرتے ہیں ۔ ججز صاحبان کی ترقی کے معاملات کے بعد سے ان کی آپس میں بات نہیں ہوتی بلکہ بات تلخ کلامی تک گئی تھی کیونکہ نہ ہے ترقیاں ہو رہی ہیں اور نہ ہی چیف بن پا رہے ہیں۔ اگر کوئی پروگرام ہو اور جس میں چاروں کو مدعو کیا ہو تو  ان کے ایک ساتھ آنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ جس طرح عوام کےمفاد کے معاملات ہیں ان پر بھی اس طرح کارروائیں نہیں ہو رہی جس طرح ہونی چاہیے تھی۔ آپس کے جھگڑوں کی وجہ سے اہم معاملات نظرانداز ہورہے ہیں۔ لیٹیجنٹس اور وکلاء دونوں کو مشکلات کا سامنا ہے۔ اس وقت سندھ ہائیکورٹ میں دو سینئر ججز ایسے ہیں جو بہت خوش اخلاق اور نرم مزاج ہیں وہ عقیل عباسی اور جسٹس اقبال کلورو  ہیں۔ ان کی کارکردگی بھی اچھی ہے اور وہ ریلیف بھی دیتے ہیں۔  جج  احمد علی شیخ ہیں ان کی تقرری کے حوالے سے جو معاملات ہیں۔ اگر وہ اہل ہی نہیں تھے تو انہیں جج بھی نہ بناتے جیسا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نےلکھا تھا کہ جس کو آپ سپریم کورٹ کی ترقی کے لئے مستقل بنیادوں پر اہل نہیں سمجھتے وہ ایڈہاک کی بنیادوں پر کیسے اہل ہو گا۔

ڈان ٹی وی  کے لئے سندھ ہائیکورٹ کے رپورٹر شفیع بلوچ  سے پوچھا گیا کہ  یہ تمام مسئلہ سینیارٹی کا ہے یا سندھ کے ڈومیسائل کا؟ اس پر ان کا کہنا تھا کہ فیورٹ ازم ہے۔ 2008 میں افتخار چوہدری نے نیشنل جوڈیشری پالیسی بنائی تھی جس کے تحت جلد ٹرائل اور ججز کی سینیارٹی پر ترقی کا طریق کار واضح کیا گیا تھا۔ عدالتوں کی تعداد بڑھائی گئی، ججز کی تعداد 26 سے بڑھا کر 40 کی گئی۔ جب پالیسی نافذ ہوئی تو جتنےلوگوں کے ناموں کی تجویز گئی ہوئی تھی کسی ایک کا بھی نام منظور نہیں ہوا۔ اس کی کوریج پر افتخار چوہدری نے مشیر عالم سے کہا تو انہوں نے مجھے بلا لیا اور بہت تسلیاں اور تشفیاں دیں کہ ابھی صرف 6 ماہ ہوئے ہیں تمام معاملا سینیارٹی میرٹ پر ہوں گی۔ آپ بے فکر رہیں۔ تاہم اس کے باجود بھی ایسا نہیں ہو سکا اور ججز کی ترقیاں میرٹ پر نہیں ہوئیں۔ ججز میں، بینچز میں اختلافات پیدا ہوئے۔ اب جو بھی بنچ بنتا اس کی تشکیل میں یہ عنصر غالب ہوتا کہ ممبران میں اختلافات کم ہوں۔ اس ادارے میں فیورٹ ازم بہت ہے اور  دوسرا یہ بات بھی ہے کہ ان کو اعتماد کے مسائل ہیں کہ سندھ کے ججز مزاحمت کریں گے اور ایجنڈا ہے ہٹ جائیں گے۔

جسٹس عقیل عباسی کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ دوسرے چیف جسٹس کے مقابلے میں ان کا کنڈکٹ بہت اچھا ہے۔ معاملات کو اچھے سے سمجھتے ہیں اور ان کی کوشش ہوتی ہے کہ زیادہ سے زیادہ اچھے فیصلے کریں۔

عرفان الحق  جو سماء نیوز کے لئے عدالتی کارروائیوں کی کوریج کرتے ہیں ان کا کہنا تھا کہ

یہ اختلاف، غم و غصے کا اظہار بنچز کی تشکیل میں بھی نظر آتا ہے۔ مگر حالیہ تاریخ میں جسٹس منیب اختر کی ایلیویشن کے بعد کے وقت میں زیادہ دیکھی جاتی ہیں۔ سینیئر افسران میں سے اگر  جج  احمد علی شیخ کو آپ سمجھتے ہیں کہ قابل نہیں تو انہیں سرے سے ہی جج نہیں بنانا چاہیے تھا۔ ایڈہاک والی آفر بھی نہیں دینی چاہیے تھی۔

جسٹس عقیل عباسی بہت قابل جج ہیں۔ بہت اچھے ججز میں ان کا شمار ہوتا ہے۔ جہاں تک بات ہے ان کے کنڈکٹ کی تو ان کارویہ یا غصہ ایسا تو نہیں ہے جو دیگر ججز سے مختلف ہو۔ نارمل روٹین والا ہی رہا ہے۔ اگر ان کے رویے اور کنڈکٹ کو بنیادبنا کر ان کی ترقی نہیں ہونے دے رہے تو یہ تمام الزامات غلط ہیں۔

جب ایک جج 4 سال سے وہیں بیٹھا ہے وہ آگے نہیں جا پا رہا  لیکن اس سے کم سینئر جج ترقی پا کر آگے چلا جاتا ہے تو اس سے تناو تو پیدا ہوتا ہی ہے۔ بنچز کی تشکیل میں بعد ازاں یہ تناو نظر بھی آتا ہے۔ جیسے لاپتہ افراد وال بنچ بار بار تبدیل ہوتا رہا ہے۔

سندھی، اردو،  پنجابی ججز والا مسئلہ جو سپریم کورٹ سے نکلا ہے تو  یہ بہت بڑی زیادتی ہو گی کہ آپ جج  احمد علی شیخ کو نہیں ایلیویٹ کرہے کیونکہ وہ سندھی ہیں۔ حالیہ دنوں میں جسٹس اقبال کلورو کا نام بھی مسترد ہوا۔ جسٹس نعمت اللہ کا نام وہاں جا کر پچیس طرح کے اعتراضات لگا کر مسترد کیا گیا۔ آپ نے ایک سیگمنٹ کو سوچنے پر مجبور کر دیا کہ آپ سندھی ججز کو نہیں لیں گے۔

جیسا کہ حیدر امام رضوی  نے کہا تھا “آپ ملک میں آگ لگا رہے ہیں۔ ملک توڑنے کی طرف لے جانا چاہ رہے ہیں۔ عدلیہ کو کیا سمجھا ہوا ہے؟ اپنی مرضی سے چلانا چاہتے ہیں۔”

یہ درحقیقت ایک فیکٹ ہے کہ جب آپ اپنے مفاد اور مسائل کی وجہ سے کسی  کو سینئر ہونے کے باوجود  آگے نہیں لے کر جا رہے تو ایسے میں تناو اور غم و غصے کی فضا تو بنے گی۔

Tags: Asad Ali Toorcourt reportersJournalistjudgesscSHCSindh High courtSupreme Court
Previous Post

کتنے سائنسدان پیدا کیے اب تلک لازمی دینی تعلیم نے؟

Next Post

نیشنل ہائی وے اتھارٹی کے ڈیلی ویجز ملازمین کی رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر قادر خان مندوخیل کے نام اپیل

نیا دور

نیا دور

Related Posts

پی ٹی آئی رہنما بیرسٹر سیف کی لائیو پروگرام میں اینکر سے بدزبانی

پی ٹی آئی رہنما بیرسٹر سیف کی لائیو پروگرام میں اینکر سے بدزبانی

by نیا دور
فروری 1, 2023
0

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما بیرسٹر سیف نے لائیو پروگرام میں اینکر بینش سلیم سے بدزبانی کی اور غیر...

پی ٹی آئی رہنما فواد چوہدری کی ضمانت منظور

پی ٹی آئی رہنما فواد چوہدری کی ضمانت منظور

by نیا دور
فروری 1, 2023
0

اسلام آباد کی مقامی عدالت نے الیکشن کمیشن کے خلاف نفرت پھیلانے کے الزام میں گرفتار پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی)...

Load More
Next Post
نیشنل ہائی وے اتھارٹی کے ڈیلی ویجز ملازمین کی رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر قادر خان مندوخیل کے نام اپیل

نیشنل ہائی وے اتھارٹی کے ڈیلی ویجز ملازمین کی رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر قادر خان مندوخیل کے نام اپیل

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

تلاش کریں

No Result
View All Result

ایڈیٹر کی پسند

فیض حمید صاحب، سب اچھا نہیں ہے!

فیض حمید صاحب، سب اچھا نہیں ہے!

by عاصم علی
جنوری 31, 2023
0

...

Aamir Ghauri Nawaz Sharif

نواز شریف چوتھی مرتبہ وزیر اعظم بن سکتے ہیں؟

by عامر غوری
جنوری 30, 2023
0

...

عمران خان اسٹیبلشمنٹ کی ٹھکرائی ہوئی محبوبہ ہیں

عمران خان اسٹیبلشمنٹ کی ٹھکرائی ہوئی محبوبہ ہیں

by عاصم علی
جنوری 18, 2023
0

...

جنرل یحییٰ خان اور جنرل قمر باجوہ ایک ہی سکے کے دو رخ ثابت ہوئے

جنرل یحییٰ خان اور جنرل قمر باجوہ ایک ہی سکے کے دو رخ ثابت ہوئے

by طارق بشیر
جنوری 18, 2023
0

...

ایک اقلیتی حقوق کے کمیشن کی تشکیل کیسے بارآور ثابت ہو سکتی ہے؟

ایک اقلیتی حقوق کے کمیشن کی تشکیل کیسے بارآور ثابت ہو سکتی ہے؟

by پیٹر جیکب
جنوری 14, 2023
0

...

Newsletter

ہماری مدد کریں

ٹویٹس - NayaDaur Urdu

نیا دور کے صفِ اوّل کے مصنفین

پیٹر جیکب
پیٹر جیکب
View Posts →
حسن مجتبیٰ
حسن مجتبیٰ
View Posts →
عرفان صدیقی
عرفان صدیقی
View Posts →
نجم سیٹھی
نجم سیٹھی
View Posts →
نبیلہ فیروز
نبیلہ فیروز
View Posts →
محمد شہزاد
محمد شہزاد
View Posts →
توصیف احمد خان
توصیف احمد خان
View Posts →
رفعت اللہ اورکزئی
رفعت اللہ اورکزئی
View Posts →
فوزیہ یزدانی
فوزیہ یزدانی
View Posts →
حسنین جمیل
حسنین جمیل
View Posts →
مرتضیٰ سولنگی
مرتضیٰ سولنگی
View Posts →
اسد علی طور
اسد علی طور
View Posts →
ادریس بابر
ادریس بابر
View Posts →
رضا رومی
رضا رومی
View Posts →
علی وارثی
علی وارثی
View Posts →

Cover for Naya Daur Urdu
64,514
Naya Daur Urdu

Naya Daur Urdu

پاکستان کی ثقافت اور تاریخ کو دیکھنے کا ایک نیا زاویہ

This message is only visible to admins.
Problem displaying Facebook posts.
Click to show error
Error: Server configuration issue

خبریں، تازہ خبریں

  • All
  • انٹرٹینمنٹ
  • سیاست
  • ثقافت
کم از کم اجرت 20 ہزار، سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 10 فیصد اضافہ: بجٹ 2021 پیش کر دیا گیا

اقتدار کے ایوانوں سے جلد کسی ‘بڑی چھٹی’ کا امکان ہے؟

اکتوبر 31, 2021
ہمیں نفرت اور مذہب کے بیوپاریوں کی نہیں، دھانی اور دھونی جیسے ہیروز کی ضرورت ہے

ہمیں نفرت اور مذہب کے بیوپاریوں کی نہیں، دھانی اور دھونی جیسے ہیروز کی ضرورت ہے

اکتوبر 27, 2021
بد ترین کارکردگی پر الیکشن نہیں جیتا جاسکتا، صرف ای وی ایم کے ذریعے جیتا جاسکتا ہے

ای وی ایم اور انتخابات: ‘خان صاحب سمندر پار پاکستانیوں کے ووٹ لینے کے لیئے بے تاب ہیں’

اکتوبر 24, 2021

Naya Daur © All Rights Reserved

No Result
View All Result
  • صفحۂ اول
  • تازہ ترین
  • خبریں
  • ویڈیوز
  • تجزیہ
  • فیچر
  • میگزین
  • عوام کی آواز
  • Click here for English

Naya Daur © All Rights Reserved

Welcome Back!

Login to your account below

Forgotten Password?

Retrieve your password

Please enter your username or email address to reset your password.

Log In