'سکندر مرزا سے اب تک اتنی ڈبل گیمیں نہیں ہوئیں جتنی صرف 2022 میں ہوئی ہیں'

'سکندر مرزا سے اب تک اتنی ڈبل گیمیں نہیں ہوئیں جتنی صرف 2022 میں ہوئی ہیں'
یہ ہمارے نظام کے مجموعی طور پر ڈس فکشنل اور کمزور ہونے کی دلیل ہے کہ کہ جب تک سپریم کورٹ کسی چیز میں مداخلت نہیں کرتی تو کوئی کام ڈھنگ سے نہیں ہو سکتا۔ ہر معاملے میں عدلیہ کو ہیرو اور انتظامیہ کو ولن بنا کر پیش کرنا اچھی بات نہیں کیونکہ اگر عدلیہ ایسا کرے گی تو سارا بوجھ اس پر آ جائے گا۔ پہلے ہی عدالت میں کیسوں کا اتنا بوجھ ہے تو عدلیہ کو چاہئیے کہ انتظامیہ کو کام کرنے دیں خود بوجھ نہ ہی اٹھائیں تو اچھا ہے۔ ہمارے ہاں قانون سازی صرف اسمبلیوں ہی میں نہیں ہوتی عدالتیں بھی یہ کام کر جاتی ہیں۔ یہ کہنا ہے پلڈاٹ کے سربراہ احمد بلال محبوب کا۔

نیا دور ٹی وی کے ٹاک شو 'خبر سے آگے' میں گفتگو کرتے ہوئے احمد بلال محبوب کا کہنا تھا کہ عمران خان جس طرح فیصلہ کرتے ہیں وہ طریقہ ٹھیک نہیں ہے۔ ان کے اعلان سے لگتا تھا کہ ہر جگہ سے الگ ہو جائیں گے۔ تمام ممبران اسمبلی جن کا ایک سال رہتا ہے وہ اس فیصلے سے خوش نہیں ہوں گے۔ سیاست دان اتنی محنت کر کے، اتنا سرمایہ لگا کر منتخب ہوتے ہیں تو وہ اتنی آسانی سے سیٹ نہیں چھوڑیں گے۔ عمران خان نے سمجھا تھا کہ جب وہ اسمبلیوں کو تحلیل کرنے کا اعلان کریں گے تو پھر پورے پاکستان میں الیکشن ہو جائے گا مگر ایسا نہیں ہو سکا۔

پرویز الہیٰ اگرچہ عمران خان کے اتحادی تو ہیں مگر سب سے زیادہ نقصان پرویزالہیٰ کو ہی ہوگا کیونکہ دوبارہ انتخابات کے بعد ان کے وزیراعلیٰ بننے کے چانسز بہت کم ہیں۔ اسی لیے وہ دھڑا دھڑ ترقیاتی کام کروا رہے ہیں۔ بجائے اس کے کہ پرویز الہیٰ پر اسمبلیاں نہ توڑنے پر طنز کیا جائے، عمران خان کو یہ ماننا چاہئیے کہ ان کا یہ فیصلہ غلط تھا۔ الیکشن کمیشن کے پاس لامحدود اختیارات ہیں، شفاف انتخابات کروانے کے لیے انہیں بلینک چیک ملا ہوا ہے۔ توہین عدالت کے بھی اختیارات ہیں ان کے پاس مگر عدالتیں ان کے فیصلوں کے خلاف سٹے آرڈر دے دیتی ہیں، اس سے الیکشن کمیشن کمزور ہو جاتا ہے۔

اینکر پرسن نادیہ نقی کا کہنا تھا کہ آخر اتنے دن کیوں لگ گئے سپریم کورٹ کو ارشد شریف کے قتل پر سو موٹو لینے میں، کیا انہیں کسی کے جانے کا انتظار تھا؟ سپریم کورٹ کو کسی عام آدمی نے خط نہیں لکھا تھا بلکہ ملک کے چیف ایگزیکٹیو نے خط لکھا تھا۔ کے پی کے والے ہرگز حکومت ختم نہیں کرنا چاہتے، میری وہاں کے لوگوں سے بات ہوئی ہے۔ پرویزا لہیٰ کو پتہ ہے کہ اگر اسمبلی تحلیل کرتے ہیں تو ان کا دوبارہ وزیراعلیٰ بننا بالکل ناممکن ہے تو کیا وہ اتنی ہی تھوڑی سی مدت کے لیے وزیراعلیٰ بننے کے لیے مٹھائیاں بانٹنے کے بعد بھی عمران خان کی طرف چلے گئے تھے۔

مرتضیٰ سولنگی کا کہنا تھا کہ ارشد شریف کی ہلاکت کے45 دن بعد نوٹس لیا جا رہا ہے، بڑی دیر کی مہرباں آتے آتے۔ مجھے اس میں انصاف کا تاثر کم مل رہا ہے۔ ایسا لگ رہا ہے کہ کوئی اور عوامل ہیں جس کی وجہ سے یہ نوٹس لیا گیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ عمران خان ایک ایسی ٹرین کا انجن ہے جو خود بھاگ رہا ہے مگر بوگیاں اس کے ساتھ نہیں جڑی ہوئیں۔

میزبان رضا رومی کا کہنا تھا کہ ارشد شریف کی ہلاکت پہ سبھی نے سیاست کی اور اسے اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کی۔ حکومت اے آر وائی کے مالک سلمان اقبال کو تفتیش میں شامل کروانا چاہتی تھی، لندن میں ایک بندہ سامنے آ کر نواز شریف پر الزام لگا دیتا ہے، جنرل باجوہ کے ایما پر دو اعلیٰ عہدیدار پریس کانفرنس داغ دیتے ہیں اور اب سپریم کورٹ بھی آ گئی ہے میدان میں۔ ہمارے ملک کا نظام اتنا کرپٹ ہے کہ ترقیاتی فنڈز کا کم از کم تیسرا حصہ کرپشن کی نذر ضرور ہو جاتا ہے تو ایسی صورت میں کون چاہے گا اس گنگا کا رخ ہی موڑ دیا جائے کیونکہ یہیں سے پیسے کما کے ممبران اسمبلی نے دوبارہ الیکشن میں جانا ہے اور انہیں پیسوں کی ضرورت ہے۔

الیکشن کمیشن کو مضبوط کرنا آئین کی پاس داری ہے۔ آج تک کسی نے 2018 کے انتخابات میں دھاندلی سے متعلق کسی انکوائری کی بات نہیں کی۔ اب جبکہ دو بڑے کردار جو ایڈونچر کے شوقین تھے وہ گھر چلے گئے ہیں تو اب اعلان کر دینا چاہئیے۔ سکندر مرزا سے لے کر آج تک اتنی گھٹیا اور ڈبل گیمیں کبھی نہیں ہوئیں جتنی پچھلے کچھ عرصے میں ہو گئی ہیں، 2022 میں سب کچھ بے نقاب ہو گیا ہے، یہ سال ایکسپوزے کا سال ہے۔ پی ڈی ایم کی حکومت ہو، عمران خان ہوں، جنرل باجوہ ہوں یا جنرل فیض ہوں، سبھی نے ایک دوسرے کو دھوکے میں رکھا ہے۔