عمران خان کو پی ڈی ایم حکومت کے ساتھ مذاکرات کی میز پر کون لایا؟

عمران خان کو پی ڈی ایم حکومت کے ساتھ مذاکرات کی میز پر کون لایا؟
اپنے مخالفین سے کبھی مذاکرات نہ کرنے کے دعویدار سابق وزیرِ اعظم پاکستان عمران خان کی جماعت وفاقی حکومت کے اس وزیر خزانہ اسحاق ڈار سے مذاکرات جاری رکھے ہوئے ہے جسے ان کی طرف سے ماضی میں سنگین الزامات کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔

پاکستان تحریک انصاف کے متعدد رہنماؤں نے وفاقی حکومت کے ساتھ اپنے مذاکرات کی تصدیق کی ہے۔ وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے حال ہی میں پاکستان تحریک انصاف کے ووٹوں سے منتخب ہونے والے صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی سے متعدد ملاقاتیں کی ہیں۔ ان ملاقاتوں کے بعد دونوں طرف سے خوشگوار تاثرات کا اظہار بھی کیا گیا ہے۔ ماحول میں ایسی سازگار تبدیلی آ رہی ہے کہ چودھری شجاعت حسین نے فریقین کی رضامندی کی صورت میں شہباز شریف اور عمران خان کی ملاقات کروانے کی پیشکش بھی کر دی ہے۔

عمران خان حکومت کے ساتھ بات چیت پر کیوں مجبور ہوئے؟

اس سوال کے جواب میں کئی مبصرین کا خیال ہے کہ عمران خان کے پاس بات چیت کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں بچا تھا۔ پاکستان کے ممتاز تجزیہ نگار رضا رومی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ عمران خان عوامی دباؤ کے تحت اسٹیبلشمنٹ میں اپنی مرضی کی تبدیلیاں کروا سکے اور نہ ہی الیکشن کی تاریخ لے سکے۔ پنجاب میں ان کے حمایت یافتہ وزیراعلیٰ چودھری پرویز الہیٰ بھی ان کے کنٹرول میں نہیں رہے اور اسمبلیوں سے نکلنے کے اعلان کو ان کی اپنی جماعت کی طرف سے تحفظات کا سامنا ہے۔ رضا رومی کے بقول ان حالات میں ان کے پاس آپشنز بہت کم رہ گئے تھے۔ 'عمران خان نے اپنے پتے جلدی جلدی کھیل کر ختم کر دیے، لانگ مارچ آخری حربہ ہونا چاہئیے تھا لیکن انہوں نے اپنے سرگرم احتجاج کا آغاز ہی لانگ مارچ سے کیا۔ اب اگر وہ مذاکرات کی طرف نہ جاتے تو وہ اگلے الیکشن کے لیے کی جانے والی مشاورت سے باہر ہو جاتے'۔

سینیئر صحافی سجاد میر نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ عمران خان سکینڈلز کی زد میں ہیں۔ جمعرات کو منظر عام پر آنے والی زلفی بخاری اور عمران کی اہلیہ بشریٰ بی بی کی آڈیو لیک نے عمران خان کے تاثر کو بہت بری طرح مجروح کیا ہے۔ اب یہ معاملات عدالتوں میں جائیں گے اور عمران خان کے خلاف کیسز میں تیزی آئے گی۔ ان حالات میں عمران خان کی 'میں نہ مانوں' کی پالیسی ان کی مشکلات میں اضافے کا باعث بنے گی۔

کیا عمران خان کسی کے اشارے پر حکومت کے ساتھ بات چیت پر آمادہ ہوئے؟

اس سوال کے جواب میں سجاد میر کہتے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے واضح طور پر عمران خان کو بتا دیا گیا تھا کہ وہ انہیں نہ تو الیکشن کی تاریخ لے کر دینے میں کوئی مدد کر سکتے ہیں اور نہ ہی دیگر سیاسی امور میں ان کی کوئی مدد کر سکتے ہیں۔ انہیں اپنے سیاسی معاملات کو خود ہی حل کرنا ہے اور فوج کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں۔ 'اب اگر آپ اس کو اشارہ سمجھتے ہیں تو پھر یہی اشارہ ہو سکتا ہے۔' بعض مبصرین کا خیال ہے کہ عمران خان کسی کے اشارے پر مذاکرات کی میز کی طرف نہیں آئے بلکہ کسی کی طرف سے اشارہ نہ مل سکنے کی وجہ سے ان مذاکرات پر مجبور ہوئے ہیں۔

عمران خان کا مذاکرات کی طرف آنا خوش آئند ہے

معروف صحافی اور کالم نگار سید ارشاد احمد عارف نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ماضی میں پارلیمنٹ میں موجود سیاسی مخالفین کو چور ڈٓاکو قرار دے کر مذاکرات سے انکار کرنا عمران خان کا غیر جمہوری رویہ تھا۔ اب اگر وہ جس کسی کے کہنے پر بھی مذاکرات پر آمادہ ہو گئے ہیں تو اس کا خیر مقدم کرنا چاہئیے کیونکہ یہ جمہوری نظام کے لیے نیک شگون ہے۔ ارشاد احمد عارف کے بقول اگر سیاسی قوتیں خود مذاکرات نہیں کریں گی تو پھر تیسری قوت مذاکرات کرانے کے لیے آئے گی اور وہ ایسی صورت میں اپنے مفادات بھی پیش نظر رکھے گی۔ اس لیے اس کے جمہوریت پر اچھے اثرات نہیں ہوں گے۔ 'بھٹو صاحب مذاکرات کو طول دیتے رہے اور مذاکرات بیچ میں چھوڑ کر ملک سے باہر چلے گئے اور ہم نے اس کا نتیجہ ضیاء الحق کی صورت میں دیکھا۔'

کیا حکومت اور پی ٹی آئی کے مذاکرات نتیجہ خیز ہوں گے؟

رضا رومی کہتے ہیں کہ ان مذاکرات کا نتیجہ خیز ہونا اتنا آسان نہیں ہوگا کیونکہ اس میں کافی مشکلات آئیں گی۔ ان مذاکرات کی کامیابی کے لیے دونوں فریقوں کو ضد چھوڑ کر اپنی اپنی پوزیشنز سے کچھ پیچھے ہٹنا پڑے گا۔ 'ملک کی ابتر معاشی صورت حال کا بھی یہی تقاضا ہے کہ سیاسی لوگ اس بُحرانی کیفیت سے نکلنے کے لیے کوئی درمیانی راہ نکالیں۔'

اس سوال کے جواب میں کہ کیا پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ بھی سیاسی بحران کا خاتمہ چاہتی ہے، رضا رومی کا کہنا تھا کہ اسٹیبلشمنٹ نے تو اپنے آپ کو سیاست سے دور رکھنے کا اعلان کر رکھا ہے۔ اب حالیہ انکشافات کے بعد معلوم ہوا ہے کہ چودھری پرویز الہیٰ اسٹیبلشمنٹ کے نامزد کردہ تھے اور اس بات کی ابھی تک کوئی تردید بھی سامنے نہیں آئی۔ 'اب اگر چوہدری پرویز الہیٰ اسمبلیاں توڑنے سے گریز کرتے ہوئے سسٹم کو آگے لے جانے کی کوشش کر رہے ہیں تو آپ اس سے کوئی بھی مطلب اخذ کر سکتے ہیں۔'

ان کی رائے میں اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ دونوں چاہتے ہیں کہ سیاسی معاملات پارلیمنٹ میں طے ہوں اور ملک میں استحکام آئے۔

سینیئر تجزیہ کار سجاد میر نے بتایا کہ ہو سکتا ہے کہ ان مذاکرات کے ذریعے اسمبلیوں کو تحلیل ہونے سے بچانے کے لیے عمران خان کو 'انگیج' کیا جا رہا ہو تا کہ جمہوری نظام چلتا رہے۔ ان کے خیال میں اصل مشکل یہ ہے کہ اگر ان مذاکرات میں اگلے الیکشنز کے حوالے سے عمران خان سے معاملات طے پا بھی جائیں تو اس بات کی ضمانت کون دے گا کہ وہ اپنی بات پر ثابت قدم رہیں گے؟

حکومت اور پی ٹی آئی کے مذاکرات میں فائدہ کس کا ہے؟

سجاد میر کہتے ہیں کہ جمہوری سیاست میں مذاکرات کو ہار جیت کے تناظر میں نہیں دیکھنا چاہئیے۔ بعض اوقات سیاسی جماعتوں کو الٹی میٹ اہداف کے حصول کے لیے اپنی طے شدہ پوزیشن سے پیچھے بھی ہٹنا پڑتا ہے۔

سید ارشاد عارف کے خیال میں اس بات چیت کا زیادہ تر فائدہ حکومت کو ہوگا۔ مذاکرات کے نہ ہونے سے غیر یقینی صورت حال میں اضافہ ہوگا، عدم استحکام رہے گا اور معیشت بہتر نہیں ہو سکے گی۔ ان حالات میں حکومت اپنی کیا کارکردگی دکھا سکے گی؟ اگر مذاکرات سے ماحول میں بہتری آتی ہے تو اس کے زیادہ ثمرات حکومت کو ہی ملیں گے۔ "سیاسی لیڈروں کے تند وتیز بیانات سے گھبرانا نہیں چاہئیے، یہ صرف ووٹروں کو متاثر کرنے اور اپنی بارگیننگ کی صلاحیت بڑھانے کے لیے ہوتے ہیں۔ آخر میں فیصلے 'کچھ لو اور کچھ دو' کی بنیاد پر ہی ہوتے ہیں۔"




سینیئر صحافی تنویر شہزاد کی یہ نیوز رپورٹ ڈی ڈبلیو اردو پہ شائع ہوئی ہے جسے نیا دور قارئین کے لیے یہاں نقل کیا گیا ہے۔

سینیئر صحافی تنویر شہزاد ڈی ڈبلیو اردو کے ساتھ وابستہ ہیں۔