خان صاحب اسمبلیاں تحلیل کرنے پر مصر، پارٹی ممبران کی جان شکنجے میں

خان صاحب اسمبلیاں تحلیل کرنے پر مصر، پارٹی ممبران کی جان شکنجے میں
سابق وزیراعظم عمران خان نے پنجاب اور خیبر پختنخوا اسمبلیوں کو تحلیل کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے، لیکن ان کے اس فیصلے کے خلاف انکی پارٹی میں کافی تشویش پائی جاتی ہے۔

پی ٹی آئی کے ایک سابق وفاقی وزیر نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر نیا دور کو بتایا کہ 'نہ صرف پنجاب کے ممبران صوبائی اسمبلی بلکہ خیبر پختونخوا میں بھی خان صاحب کے اس فیصلے کو زیادہ پذیرائی نہیں مل سکی۔' ان کا کہنا تھا کہ پارٹی کے سینیئر رہنما اس ضمن میں عمران خان کو بارہا آگاہ کر چکے ہیں کہ فوری طور پر اسمبلیاں تحلیل کر کے وہ خود کو اور اپنی جماعت کو سسٹم سے بالکل باہر کر لیں گے، جس کا فائدہ وفاقی حکومت اٹھانے کی کوشش کرئے گی۔ خیبر پختونخوا کے ایک سینئر رہنما نے ایک میٹنگ میں عمران خان کو کہا کہ 'اسٹیبلشمنٹ سے ہمارے تعلقات آجکل جس قدر کشیدہ ہیں، ان حالات میں فوری الیکشن کی طرف جانا بہت بڑا جوا ہو گا'۔ ماضی میں یہ سینئر رہنما پاکستان تحریک انصاف اور اسٹیبلشمنٹ کے مابین پل کا کردار بھی ادا کرتے رہے ہیں۔

پی ٹی آئی کے پنجاب سے ایک رہنما نے نیا دور کو بتایا کہ 'ہم نے آپس میں اس بات پر گفتگو کی ہے کہ کوئی ایسا راستہ نکالا جائے کہ عمران خان کو بھی سبکی کا سامنا نہ کرنا پڑے، اور پنجاب اور خیبرپختنخوا کی اسمبلیاں بھی تحلیل نہ کرنی پڑیں'۔ اس رہنما کا کہنا تھا کہ ایک حل جس پر بہت سے لوگوں کا اتفاق ہوا وہ یہ ہے کہ کسی نہ کسی طرح اسمبلیوں کو دسمبر تک بچا لیا جائے، اس رہنما کے مطابق 'اگر ہم ایسا کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو پھر اسمبلی کم از کم جون کے آخر تک تحلیل نہیں ہو گی۔'

اس پر مزید بات کرتے ہو انہوں نے کہا کہ چونکہ آئین پاکستان کی شق 242(2) کے تحت وقت سے پہلے تحلیل کی جانے والی اسمبلی کے انتخاب نوے دن میں ہونا ضروری ہیں، اگر اسمبلی دسمبر میں بچ جاتی ہے تو پھر  مارچ میں الیکشن کا انعقاد بہت مشکل ہے، پھر مارچ کی آخری تاریخوں میں رمضان کا آغاز ہو جائے گا، اور رمضان میں الیکشن ہونا تقریبا ناممکن ہے۔

اس رہنما کے مطابق اپریل کا مہینہ بھی اسی طرح رمضان اور عیدالفطر کی وجہ سے الیکشن کے لئے موزوں نہیں ہے۔ اور پھر مئی میں الیکشن ہو گئے تو آنے والی نئی اسمبلی جون میں بجٹ نہیں پیش کر پائے گی۔

پنجاب کے ہی پی ٹی آئی کے ایک سینئر رہنما نے بتایا کہ آنے والے دنوں میں الیکشن کمیشن کی طرف سے خان صاحب کے کیسز میں فیصلے اس بات کا حتمی تعین کریں گے کہ اسمبلیاں کب تحلیل کی جائیں گی۔ اگر تو الیکشن کمیشن عمران خان صاحب کے کیسز کو عمومی سست روی سے سنتا ہے تو پھر اسمبلیاں تحلیل کرنے کا ارادہ ترک کیا جا سکتا ہے، لیکن اگر اس میں تیزی نظر آئی تو پھر اسمبلیاں تحلیل کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہے گا۔ 'ہم مسلم لیگ نون کے 2018  والے الیکشن کی طرح بندھے ہاتھوں سے الیکشن میں نہیں جانا چاہتے، عمران خان اگر نا اہل ہو جاتے ہیں تو اسکا ہماری الیکشن پرفارمنس پر بہت برا اثر پڑے گا۔'