'شہباز کی میثاقِ معیشت کی پیشکش تاریخی تھی، عمران کی موجودگی میں اتفاقِ رائے ممکن نہیں'

'شہباز کی میثاقِ معیشت کی پیشکش تاریخی تھی، عمران کی موجودگی میں اتفاقِ رائے ممکن نہیں'
عمران خان کا خیال تھا کہ جنرل باجوہ عمران خان کے 10 سال پورے کروائیں گے۔ اس دس سالہ منصوبے میں جنرل فیض نے آرمی چیف ہونا تھا۔ جب ایسا نہیں ہوا تو جنرل باجوہ پر غصہ آنا فطری بات تھی۔ 2018 کے انتخابات میں جیت دلانے سے لے کر آخر تک کون سا کام ہے جو باجوہ نے عمران کے لیے نہیں کیا۔ جنرل باجوہ اب صفائیاں پیش کر رہے ہیں کہ ہم سے غلطی ہوئی۔ یہ غلطی نہیں، سوچا سمجھا پروجیکٹ تھا اور تین ڈی جی آئی ایس آئی نے اس پروجیکٹ پہ کام کیا۔ یہ کہنا ہے معروف صحافی افتخار احمد کا۔

نیا دور ٹی وی کے ٹاک شو 'خبر سے آگے' میں اظہار خیال کرتے ہوئے افتخار احمد نے کہا کہ عمران خان کی خواہش تھی کہ مجھے چین اور سعودی عرب کے حکمرانوں جیسے وسیع اختیارات مل جائیں تاکہ میں اختلاف رائے اور تنقید کا گلہ گھونٹ دوں۔ شہباز شریف نے انہیں میثاق معیشت کی پیش کش کی تھی مگر انہوں نے کہا تھا چوروں کے ساتھ مذاکرات نہیں ہو سکتے۔ جنرل مشرف اور جنرل فیض میں فرق یہ ہے کہ جنرل مشرف کے پاس چکوال نہیں تھا، جنرل فیض نے اپنے حلقے میں فنڈز بھی تقسیم کروا دیے ہیں۔ جنرل فیض دو سال انتظار نہیں کریں گے، ڈرائنگ روم میں بیٹھ کر اپنے گیارہ سالہ تجربے کو استعمال کرکے اگلے الیکشن کے لیے بھرپور کمپین لانچ کریں گے۔

عمر پنسوٹا کی دلیل کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ آفرین ہے ججوں، سسٹم اور عدلیہ کے بارے میں آج ان کو احساس ہو رہا ہے کہ یہاں خامیاں ہیں۔ جب نواز شریف کو نااہل کیا گیا، ان کی پارٹی کو انڈر پریشر رکھا گیا، ان کی عمر کا بہترین حصہ ضائع کیا گیا، اس وقت انہیں یہ احساس کیوں نہیں ہوا۔ جب پارلیمنٹ کے فلور پہ کہا جائے کہ ساری اپوزیشن چوروں پر مشتمل ہے اور میں ان سے بات نہیں کر سکتا تو آج انہی کی جانب سے یہ پیشکش آ رہی ہے کہ اتفاق رائے پیدا کیا جائے، مل کر بیٹھا جائے تو عجیب لگ رہا ہے۔ عمران کی موجودگی میں اتفاق رائے ہونا ممکن نہیں۔

اینکر پرسن عنبر شمسی کا کہنا تھا کہ عمران خان کو جنرل باجوہ پر غصہ بھی ہے اور وہ آسان ہدف بھی ہیں، عمران خان کے باقی سارے بیانیے فیل ہو چکے ہیں تو اب انہوں نے یہ آسان ہدف پکڑ لیا ہے۔ لیکن وہ جنرل فیض کے خلاف بات نہیں کرتے کیونکہ وہ یہی سمجھتے ہیں کہ جو میرے ساتھ ہے وہ ٹھیک ہے۔ جنرل مشرف نے بھی ریٹائرمنٹ کے بعد اپنی پارٹی بنا کر سیاست میں آنے کی کوشش کی تھی مگر وہ ناکام ہو گئے تھے۔

انہوں نے کہا کہ سیاسی جماعتیں جب تک مل بیٹھ کر یونائیٹڈ فرنٹ نہیں بنائیں گی، ان کے خلاف یہ انتقامی کارروائیاں جاری رہیں گی۔ عمران خان طالبان سے بات کر لیں گے مگر نوازشریف اور شہباز شریف سے بات نہیں کریں گے، انہی کی وجہ سے اس وقت ملک میں سیاسی مفاہمت پیدا نہیں ہو رہی۔ تین چار سال میں عمران خان نے کچھ نہیں سیکھا تو کیا انہیں تین بار وزیراعظم بننے کے بعد پتہ چلے گا؟

معروف وکیل احمد پنسوٹا نے کہا کہ پچھلے دس پندرہ سالوں میں مقدمات کا انحصار اس بات پر ہوتا ہے کہ انہیں چلا کون رہا ہے، میرٹ کو دیکھا ہی نہیں جا رہا۔ فارن فنڈنگ والے کیس میں کرپشن ثابت کرنا اتنا آسان نہیں ہوگا مگر چانسز یہی ہیں کہ انہیں نااہل کر دیا جائے گا۔ توشہ خانہ کیس کے فیصلے میں تعصب نظر آتا ہے، یہ فیصلہ اس سے بہت بہتر طریقے سے لکھا جا سکتا تھا۔ چاہے پاناما ہو، چاہے عمران خان سے متعلق کیس ہو یا آصف زرداری سے متعلق، ہمارے ملک کے قانون میں اتنی لچک ہے کہ جب بھی پولیٹیکل انجینیئرنگ کے لیے ان کیسز کو استعمال کرنا ہو تو آسانی سے استعمال ہو سکتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ کسی کامن گراؤنڈ پہ پی ٹی آئی ان پی ڈی ایم جماعتوں کے ساتھ بیٹھ جائیں تو تیسری طاقت کا دروازہ بند ہو جائے گا مگر سیاست دان بھی وہیں کی پنیری ہیں تو یہ ممکن نہیں ہو پائے گا۔ نواز شریف کو بھی تین مرتبہ وزیراعظم بننے کے بعد احساس ہوا اور عمران خان کو بھی الگ ہونے کے بعد احساس ہو جائے تو کیا خرابی ہے۔

پروگرام کے میزبان رضا رومی نے کہا کہ جنرل فیض کی آج وائرل ہونے والی ویڈیو میں انہیں سیاست میں خوش آمدید کہا جا رہا ہے تو اس سے 'نیا دور' پر کچھ روز قبل چھپنے والی مزمل سہروردی کی خبر کی تصدیق ہو گئی ہے۔