پاکستان میں 16 سٹیڈیم مگر کرکٹ میچ محض چند شہروں تک محدود

پاکستان میں 16 سٹیڈیم مگر کرکٹ میچ محض چند شہروں تک محدود
پاکستان کرکٹ بورڈ کے عبوری چیئرمین نجم سیٹھی نے اعلان کیا ہے کہ اس سال پی ایس ایل سے پہلے کوئٹہ کے بگٹی کرکٹ سٹیڈیم میں ایک نمائشی میچ کھیلا جائے گا۔ یہ ایک خوش آئند بات ہے۔ بدقسمتی سے وطن عزیز میں کرکٹ کو صرف کراچی، لاہور اور راولپنڈی جیسے چند ہی شہروں تک محدود کر دیا گیا ہے جبکہ ہمارے پاس دوسرے بھی کئی شہروں میں بین الاقوامی سطح کے کرکٹ سٹیڈیم موجود ہیں۔ ماضی میں ان شہروں میں کئی بین الاقوامی کرکٹ میچ ہو چکے ہیں۔

23 کروڈ کی آبادی والے اس ملک میں کرکٹ سب سے پسندیدہ کھیل ہے۔ اس کو چند شہروں تک محدود کرنا باقی پاکستان کے کرکٹ شائقین کے ساتھ زیادتی ہے۔ ماضی میں پاکستان میں حیدر آباد، فیصل آباد، گوجرانوالہ، سرگودھا، سیالکوٹ، شیخوپورہ، پشاور اور کوئٹہ میں بین الاقوامی کرکٹ میچ منعقد ہو چکے ہیں مگر پچھلے 20 سالوں سے ان شہروں میں کرکٹ میچ نہیں کروائے گئے۔

ہونا تو یہ چاہئیے تھا کہ ان شہروں کے ساتھ ساتھ دیگر شہروں میں بھی بین الاقوامی سطح کے کرکٹ سٹیڈیم تعمیر کیے جاتے جیسے سندھ میں سکھر اور لاڑکانہ، خیبر پختونخوا میں مردان اور ایبٹ آباد جبکہ بلوچستان میں گوادر میں سٹیڈیم تعمیر ہونے چاہئیے تھے مگر ہوا اس کے برعکس۔ جن شہروں میں بین الاقوامی کرکٹ سٹیڈیم موجود تھے وہاں بھی میچز نہیں کروائے گئے جو کرکٹ بورڈ اور تمام وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی نااہلی ہے۔ اب مظفر آباد میں بھی ایک کرکٹ سٹیڈیم ہے جہاں دو بار کشمیر کرکٹ لیگ منعقد ہو چکی ہے۔ وہاں بھی اب بین الاقوامی کرکٹ میچ ہونے چاہئیں۔

اس وقت دنیا بھر میں بھارت 50 بین الاقوامی کرکٹ سٹیڈیم کے ساتھ پہلے نمبر پر ہے۔ اس کے بعد برطانیہ 22 کے ساتھ دوسرے نمبر پر اور آسٹریلیا 19 کے ساتھ تیسرے نمبر پر ہے۔ پھر نیوزی لینڈ اور پاکستان میں 16، 16، ویسٹ انڈیز میں 15، جنوبی افریقہ میں 12، سری لنکا میں 9، بنگلہ دیش میں 8، کینیا میں 7، زمبابوے میں 4، آئرلنیڈ میں 3 اور متحدہ عرب امارات میں 3 کرکٹ سٹیڈیم موجود ہیں۔

اگر اس فہرست پر نظر ڈالیں تو یہ بات قابل غور ہے کہ صرف بھارت ہم سے آبادی میں بڑا ہے جہاں 50 کرکٹ سٹیڈیم موجود ہیں۔ برطانیہ 7 کروڑ آبادی کے ساتھ ہم سے چھوٹا ملک ہے مگر وہاں 22 کرکٹ سٹیڈیم موجود ہیں۔ آسٹریلیا 2 کروڑ آبادی کا ملک ہے وہاں 19 کرکٹ سٹیڈیم موجود ہیں۔ نیوزی لینڈ کی آبادی ایک کروڑ کے لگ بھگ ہے اور وہاں ہمارے برابر 16 کرکٹ سٹیڈیم موجود ہیں۔ پاکستان کی وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو اپنی اس نااہلی پر شرمندگی ہونی چاہئیے۔

اب جبکہ وطن عزیز میں بین الاقوامی کرکٹ بحال ہو چکی ہے اور ماضی میں جو کرکٹ میچ ہمارے 16 شہروں میں کھیلے جاتے تھے ان کو اب چند شہروں تک محدود کیوں کر دیا گیا ہے؟ قومی اسمبلی اور سینیٹ کی کھیلوں کی قائمہ کمیٹیوں کو اس پر ایکشن لینا چاہئیے اور پاکستان کرکٹ بورڈ کو پابند کیا جائے کہ کرکٹ کو صرف کراچی، لاہور اور راولپنڈی تک محدود نہ کریں بلکہ دیگر شہروں میں جہاں ماضی میں بین الاقوامی کرکٹ میچ منعقد ہوتے تھے وہاں دوبارہ میچ شروع کروائے جائیں۔ اس کے ساتھ ساتھ سکھر، لاڑکانہ، ایبٹ آباد اور مردان جیسے بڑے شہروں میں نئے کرکٹ سٹیڈیم بھی بنائے جانے چاہئیں۔

حسنین جمیل 17 سال سے صحافت سے وابستہ ہیں۔ وہ افسانوں کی تین کتابوں؛ 'کون لوگ'، 'امرتسر 30 کلومیٹر' اور 'ہجرت' کے مصنف ہیں۔