ورلڈ کپ کے بعد پاکستانی کرکٹ میں بہت کچھ بدلنے کی ضرورت ہے

ورلڈ کپ کے بعد پاکستانی کرکٹ میں بہت کچھ بدلنے کی ضرورت ہے
پاکستان ایک اور ورلڈ کپ ہار گیا۔ 1992 کی نشانیاں یاد کرانے والے یہ بھول جاتے ہیں کہ اس ٹیم کا کپتان عمران خان تھا، نائب کپتان جاوید میانداد جیسا آل ٹائم گریٹ مچ ونر تھا، سوئنگ بالنگ کا سلطان وسیم اکرم بھی تھا۔ 92 کے ورلڈ کپ کے بعد پاکستان نے دو عالمی اعزاز جیتے ہیں جن میں 2009 کا ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ اور 2017 کی چیمپیئنز ٹرافی شامل ہیں مگر جو یادگار اور شاندار ناقابل فراموش کارکردگی بانوے کے ورلڈکپ کی تھی وہ دوبارہ نہیں دکھائی جا سکی۔ اس ورلڈ کپ کے ایک ایک مچ کی یادیں دل پر نقش ہو چکی ہیں۔ جب بھی کوئی عالمی کپ شروع ہوتا ہے تو احباب پاکستانی ٹیم کا موازنہ بانوے والی ٹیم سے کرنے لگ جاتے ہیں۔ خیر اس ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کا فائنل بہتر ٹیم جیت گئی ہے۔

پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین رمیز راجہ کو ٹیم انتظامیہ کے ساتھ بیٹھ کر بہت کچھ سوچنے کی ضرورت ہے۔ اگلے سال ون ڈے کرکٹ ورلڈ کپ بھارت میں منعقد ہونا ہے۔ ابھی ایک سال کا وقت ہے۔ اس دروان وائیٹ بال کرکٹ ٹیم میں بہت کچھ تبدیل ہونے والا ہے۔ کپتان بابر اعظم بطور کپتان متاثر کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ وہ ایک خود غرض کپتان ہیں جو ٹیم مین بالکل نہیں ہیں۔ صرف اپنی ذات کا سوچتے ہیں۔ میں بطور بلے باز ان کی ٹیم میں شمولیت کا حامی ہوں مگر بطور کپتان تبدیلی کا خواہش مند ہوں۔ تمام سابق کرکٹروں کے کہنے کے باوجود بابر اعظم اور رضوان نے افتتاحی بلے بازی نہیں چھوڑی جس کے باعث باقاعدہ اوپننگ بلے بازوں فخر زمان اور شان مسعود کو ضائع کیا گیا۔ ایک بہت ہی جارحانہ انداز والے اوپنر شرجیل خان کو صرف اسی وجہ سے ٹیم میں شامل نہیں کیا گیا کیونکہ بابر اعظم اور رضوان خود مڈل آرڈر پہ نہیں کھیلنا چاہتے۔

چیئرمین پی سی بی رمیز راجہ کو ان نکات پر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔ سب سے پہلے تو وائیٹ بال کرکٹ اور ریڈ بال کرکٹ کے کپتان الگ الگ کریں۔ پھر واٹس ایپ چیف سلیکٹر محمد وسیم کی جگہ وہ سابق کرکٹر اس عہدے پر کام کرے جس نے کم از کم تیس سے زائد ٹیسٹ میچ کھیلے ہوں۔ کوچنگ سٹاف پر بھی نظر ثانی کی ضرورت ہے۔ ثقلین مشتاق اور محمد یوسف کی جگہ دوسرے کرکٹرز کو موقع فراہم کرنا چاہئیے۔ اس کے لیے عاقب جاوید، یونس خان یا کسی غیر ملکی کوچ پر غور کریں۔ فاسٹ باؤلنگ پر شاہین شاہ آفریدی، حارث رؤف، نسیم شاہ، محمد وسیم، محمد حسنین اور شاہ نواز دھانی کو باری باری موقع دیں تاکہ کسی ایک فاسٹ باؤلر پر بوجھ نہ پڑے۔ سپن باؤلنگ میں شاداب خان کے ساتھ عماد وسیم، ابرار احمد، عثمان قادر، زاہد محمود، محمد نواز، نعمان علی اور ساجد خان کو باری باری آزماتے رہیں۔ وکٹ کیپر محمد رضوان کے ساتھ ساتھ حارث اور سابق کپتان جو 2017 میں چیمپیئنز ٹرافی کے فاتح بھی تھے سرفراز احمد، ان کو بھی موقع فراہم کریں۔

مڈل آرڈر پر بہت زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ بابر اعظم خود مڈل آرڈر بلے باز ہیں۔ وہاں ان کے ساتھ ایک تجربے کار بلے باز کی ضرورت ہے۔ ڈومیسٹک کرکٹ میں بہترین کارکردگی دکھانے والے بلے بازوں کو موقع فراہم کرنا چاہئیے۔ آنے والے ایک سال میں شرجیل خان، فخر زمان، شان مسعود اور دیگر بلے بازوں کی واپسی ضروری ہے۔ توقع ہے کہ چیئرمین رمیز راجہ اب پلیئرز پاور کے سامنے سرنگوں نہیں ہوں گے۔

حسنین جمیل 17 سال سے صحافت سے وابستہ ہیں۔ وہ افسانوں کی تین کتابوں؛ 'کون لوگ'، 'امرتسر 30 کلومیٹر' اور 'ہجرت' کے مصنف ہیں۔