تھکاوٹ یا نیند کا شکار ہونے پر جمائی کیوں آتی ہے؟

تھکاوٹ یا نیند کا شکار ہونے پر جمائی کیوں آتی ہے؟

جمائی ایک متعدی عمل ہے۔ اگر آپ کسی کو جماہی لیتے ہوئے دیکھیں گے تو آپ کو خود بخود جماہی آنے لگے گی۔ لیکن کیا آپ نے کبھی سوچا کہ ہمیں جماہی کیوں آتی ہے؟


محققین کا کہنا ہے کہ دماغ کے جس حصے میں اعصابی افعال کو منظم کرنے کی صلاحیت ہوتی ہے وہیں سے جمائی کا عمل بھی وقوع پذیر ہوتا ہے۔


سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ متعدی جمائی ’’ایکوفینومینا‘‘ یا گونج کے عمل جیسا ہی ہے جس میں انسان خود بخود ہی کسی دوسرے کی آواز یا عمل کی نقل کرنے لگتا ہے۔


یہ جاننے کیلئے کہ ایکوفینومینا جیسی صورت حال میں آخر دماغ میں کیا چل رہا ہوتا ہے، سائنسدانوں نے رضاکاروں کا اس وقت معائنہ کیا جب وہ دوسروں کو جماہی لیتے ہوئے دیکھ رہے تھے۔


تحقیق کے دوران کچھ رضاکاروں سے کہا گيا تھا کہ اگر انہیں جمائی آئے تو وہ جمائی لیں جبکہ کچھ سے کہا گیا کہ اگر انہیں جمائی آئے تو وہ اس پر کنٹرول کریں اور اس سے گریز کریں۔


اس کے مطابق کسی شخص میں جمائی لینے کی خواہش میں کمی اسی مناسبت سے تھی کہ اس کے دماغ کا وہ حصہ کس طرح سے کام کر رہا ہے۔ اس کے ذریعے سائنسدانوں کو یہ جاننا تھا کہ ایکسائیبیلٹی یعنی تحریک پذیری کا عمل کیسے ہوتا ہے۔


نیورولوجی کے ماہر پروفیسر جیورجیئن جیکسن کا کہنا ہے کہ اس تحقیق سے ہونے والی دریافت کا استعمال بہت سی دیگر خامیوں میں کیا جا سکتا ہے۔ اس تحقیق پر کام کرنے والے پروفیسر اسٹیفین جیکسن کا کہنا ہے کہ ’’اگر ہم یہ سمجھ جائیں کہ دماغ کے اس حصے میں ہونے والی تحریک پذیری کو، جو کئی قدرتی خرابیوں کی وجہ بنتی ہے، کیسے بدلا جاسکتا ہے تو ممکن ہے کہ ہم اسے ہونے سے روک سکیں ۔‘‘


نیویارک اسٹیٹ یونیورسٹی میں نفسیات کے ماہر ڈاکٹر اینڈریو گیلپ کا کہنا ہے کہ ہمیں ابھی بھی نہیں پتا ہے کہ آخر ہم جمائی کیوں لیتے ہیں، البتہ بہت سی تحقیقات سے لوگوں کی حرکات وسکنات اور متعدی جمائی کے درمیان رابطے کا پتا چلا ہے۔


ایک تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ جب ہم تھکے ہوتے ہیں یا اکتاہٹ کا شکار ہوتے ہیں تو عام طریقے سے سانس نہیں لیتے۔ اس دوران ہمارے جسم میں آکسیجن کی کمی ہو جاتی ہے جسے ختم کرنے کیلئے قدرتی طور پر ہمارا منہ کھل جاتا ہے یعنی جمائی آ جاتی ہے اور ہم زیادہ سے زیادہ آکسیجن اپنے اندر لینے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس طرح ہمارے خون سے کاربن ڈائی آکسائیڈ نکل جاتا ہے۔