پاکستان کی تقریباً 60 فیصد آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہی ہے۔ یہاں کے عوام دو وقت کی روٹی کے لئے تڑپ رہے ہیں۔ گزشتہ کئی دنوں سے مفت آٹے کی تقسیم میں بدانتظامی کی وجہ سے کٸی شہری جان کی بازی ہار چکے ہیں اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ ایسے میں کیا پاکستان کے عوام ان خودساختہ لیڈرز کے آئے روز کے انتخابات کی عیاشیاں برداشت کر سکتے ہیں؟ ملک میں مہنگائی کی شرح 46 فیصد تک پہنچ چکی ہے۔ لوگ روزمرہ کی ضروریات زندگی کے لئے پریشان ہیں تو کیا ہم اربوں روپے کے الیکشن کی عیاشی کے متحمل ہو سکتے ہیں؟
ایک اندازے کے مطابق پورے ملک میں تمام انتخابات منعقد کروانے کے لئے تقریباً 50 ارب روپے درکار ہیں جبکہ پنجاب اور خیبر پختونخوا کی اسمبلیوں کے انتخابات کے لئے 25 ارب روپے کی ضرورت ہے۔ ہم اپنے شہریوں کو آٹا فراہم کریں یا الیکشن پہ الیکشن کراتے چلے جائیں؟
خیبر پختونخوا اور پنجاب میں الیکشن ملتوی کرنے سے متعلق پاکستان تحریک انصاف کی درخواست پر سماعت کرتے ہوئے چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطاء بندیال نے انتخابات کے اخراجات پورے کرنے کے لیے ججز کی تنخواہوں میں کٹوتی کی تجویز دے دی اور کہا کہ الیکشن کے لیے پورے بجٹ کی ضرورت ہی نہیں ہے، 20 ارب کے لیے کٹ ہماری تنخواہوں پر بھی لگایا جا سکتا ہے۔ حکومت اخراجات کم کر کے 20 ارب نکال سکتی ہے۔ چیف جسٹس صاحب کی جانب سے تنخواہوں میں کٹوتی کی تجویز اگرچہ نہایت خوش آئند ہے لیکن کیا کوئی یہ ضمانت بھی دے سکتا ہے کہ انتخابات ہونے کی صورت میں جو پارٹی بھی ہارے گی وہ آرام سے اپوزیشن میں بھی بیٹھ جائے گی اور وہ ایک اور الیکشن کا مطالبہ نہیں کرے گی؟
بحیثیتِ پاکستانی شہری میری بھی ایک تجویز ہے۔ ایک مرتبہ حکومت اپنے وقت پر عام انتخابات منعقد کرائے، اس کے بعد ہارنے والی جماعت اگر سڑکوں پر آ کر ایک اور الیکشن کا مطالبہ کرے تو ان سے کہا جائے کہ الیکشن کروایا جائے گا لیکن بھوکے ننگے عوام کے پیسوں سے نہیں بلکہ مطالبہ کرنے والی جماعت ہی انتخابی فنڈ فراہم کرے اور نیا الیکشن ان کے خرچے پر کروایا جائے گا۔ اس سے ایک تو سیاسی عدم استحکام میں کمی واقع ہو گی۔ دوسری طرف وہ سیاسی پارٹی بھی سکون سے بیٹھ جائے گی کیونکہ ان کو صرف عوام کے پیسوں پر 'الیکشن الیکشن' کھیلنے کا مزہ آتا ہے، اپنے پیسوں پر وہ یہ کھیل کبھی نہیں کھیلیں گے۔ ہم عوام ان مسلط کردہ سیاسی جماعتوں کی آئے روز کی انتخابی عیاشیاں برداشت کرنے کے قطعاً متحمل نہیں ہیں۔