حکومت نئے انتخابات بلاوجہ اسمبلیاں تحلیل کرنے والوں کے پیسوں سے کروائے

حکومت نئے انتخابات بلاوجہ اسمبلیاں تحلیل کرنے والوں کے پیسوں سے کروائے
جب سے ہوش سنبھالا ہے تب سے پاکستان میں سیاسی عدم استحکام کا راج ہے۔ اس عدم استحکام کا براہ راست اثر ملکی معیشت پر پڑتا ہے اور معیشت کی زبوں حالی سب کے سامنے ہے۔ ملک دیوالیہ ہونے کے قریب پہنچ چکا ہے۔ خاص طور پر عمران خان صاحب کی سیاست میں انٹری کے جہاں بہت سارے فواٸد ہیں وہیں ان کے سیاست میں آنے سے اس ملک کی جمہوریت، میڈیا اور معاشرے کو بھی شدید نقصان پہنچا ہے اور قومی سلامتی کے لئے خطرناک ثابت ہونے والی پولراٸزیشن اور تقسیم معاشرے میں پیدا ہو چکی ہے۔ یعنی جو پارٹی اقتدار میں ہوتی ہے اس کے لئے ملک میں جمہوریت اور امن و سکون ہے جبکہ جو پارٹی اقتدار سے باہر ہے اس کے لئے فاشزم اور آمریت ہے۔ پاکستان میں تو خیر جمہوریت ہے ہی نہیں اور نواز شریف سے لے کر عمران خان تک سارے سیاست دانوں کی پرورش اسٹیبلشمنٹ کے گملوں میں ہوئی ہے۔ یوں پاکستانیوں کے پاس ان پر مسلط کردہ آرٹیفیشل لیڈرز میں سے انتخاب کرنے کے علاوہ کوئی راستہ بچتا ہی نہیں۔ بہرحال جو بھی نظام یہاں موجود ہے کم ازکم اس میں تو جمہوری رویہ اپنایا جانا چاہئیے۔

پاکستان کی تقریباً 60 فیصد آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہی ہے۔ یہاں کے عوام دو وقت کی روٹی کے لئے تڑپ رہے ہیں۔ گزشتہ کئی دنوں سے مفت آٹے کی تقسیم میں بدانتظامی کی وجہ سے کٸی شہری جان کی بازی ہار چکے ہیں اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ ایسے میں کیا پاکستان کے عوام ان خودساختہ لیڈرز کے آئے روز کے انتخابات کی عیاشیاں برداشت کر سکتے ہیں؟ ملک میں مہنگائی کی شرح 46 فیصد تک پہنچ چکی ہے۔ لوگ روزمرہ کی ضروریات زندگی کے لئے پریشان ہیں تو کیا ہم اربوں روپے کے الیکشن کی عیاشی کے متحمل ہو سکتے ہیں؟

ایک اندازے کے مطابق پورے ملک میں تمام انتخابات منعقد کروانے کے لئے تقریباً 50 ارب روپے درکار ہیں جبکہ پنجاب اور خیبر پختونخوا کی اسمبلیوں کے انتخابات کے لئے 25 ارب روپے کی ضرورت ہے۔ ہم اپنے شہریوں کو آٹا فراہم کریں یا الیکشن پہ الیکشن کراتے چلے جائیں؟

خیبر پختونخوا اور پنجاب میں الیکشن ملتوی کرنے سے متعلق پاکستان تحریک انصاف کی درخواست پر سماعت کرتے ہوئے چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطاء بندیال نے انتخابات کے اخراجات پورے کرنے کے لیے ججز کی تنخواہوں میں کٹوتی کی تجویز دے دی اور کہا کہ الیکشن کے لیے پورے بجٹ کی ضرورت ہی نہیں ہے، 20 ارب کے لیے کٹ ہماری تنخواہوں پر بھی لگایا جا سکتا ہے۔ حکومت اخراجات کم کر کے 20 ارب نکال سکتی ہے۔ چیف جسٹس صاحب کی جانب سے تنخواہوں میں کٹوتی کی تجویز اگرچہ نہایت خوش آئند ہے لیکن کیا کوئی یہ ضمانت بھی دے سکتا ہے کہ انتخابات ہونے کی صورت میں جو پارٹی بھی ہارے گی وہ آرام سے اپوزیشن میں بھی بیٹھ جائے گی اور وہ ایک اور الیکشن کا مطالبہ نہیں کرے گی؟

بحیثیتِ پاکستانی شہری میری بھی ایک تجویز ہے۔ ایک مرتبہ حکومت اپنے وقت پر عام انتخابات منعقد کرائے، اس کے بعد ہارنے والی جماعت اگر سڑکوں پر آ کر ایک اور الیکشن کا مطالبہ کرے تو ان سے کہا جائے کہ الیکشن کروایا جائے گا لیکن بھوکے ننگے عوام کے پیسوں سے نہیں بلکہ مطالبہ کرنے والی جماعت ہی انتخابی فنڈ فراہم کرے اور نیا الیکشن ان کے خرچے پر کروایا جائے گا۔ اس سے ایک تو سیاسی عدم استحکام میں کمی واقع ہو گی۔ دوسری طرف وہ سیاسی پارٹی بھی سکون سے بیٹھ جائے گی کیونکہ ان کو صرف عوام کے پیسوں پر 'الیکشن الیکشن' کھیلنے کا مزہ آتا ہے، اپنے پیسوں پر وہ یہ کھیل کبھی نہیں کھیلیں گے۔ ہم عوام ان مسلط کردہ سیاسی جماعتوں کی آئے روز کی انتخابی عیاشیاں برداشت کرنے کے قطعاً متحمل نہیں ہیں۔