Get Alerts

2025: ترقی اور خوشحالی کے لیے ٹیکس پالیسی کیسی ہو؟

اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے پالیسی ریٹ کو 22 فیصد سے کم کرکے 13 فیصد کرنے کے اثرات حکومت کے قرضوں سے متعلق واجبات کی ادائیگی میں کمی کی صورت میں مثبت نتائج دکھانا شروع ہوگئے ہیں

2025: ترقی اور خوشحالی کے لیے ٹیکس پالیسی کیسی ہو؟

فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) اور صوبائی ٹیکس ایجنسیوں  نے مالی سال 2024  کے اختتام  پر  ، نظام محصولات    میں تسلیم شدہ بھیانک  کھربوں روپے کے  خلا   (gap) کو ختم کرنے میں  انتہائی قابل رحم اور مایوس کن کارکردگی کا   مظاہرہ  کیا ۔ اس کی بنیادی وجہ مستقل ڈھانچہ جاتی رکاوٹیں، بنیادی  سہولیات اور تربیت یافتہ انسانی وسائل کی کمی، نااہلی، بدعنوانی  وغیرہ  ہیں ۔ معاملات کو مزید خراب کرتے ہوئے، وفاقی حکومت مالی سال2023- 24   میں  قرضوں  اور ان پر سود کی ادائیگی ، فضول   خرچی اور   غیر ضروری اخراجات کو کم کرنے میں بری طرح ناکام رہی ۔
اسٹیٹ بینک آف پاکستان  کی جانب سے پالیسی ریٹ کو 22 فیصد سے کم کرکے 13 فیصد کرنے کے اثرات حکومت کے قرضوں سے متعلق واجبات  کی ادائیگی میں کمی کی صورت میں   مثبت نتائج دکھانا شروع ہوگئے ہیں۔  رواں  مالی سال  کے پہلے چارمہینوں (جولائی تا اکتوبر  2024 ) کے  دوران  سود کے اخراجات میں 5.3 فیصد کی کمی واقع ہوئی ہے۔ ایک  اخباری خبر کے مطابق: "حکومت نے  رواں مالی سال   کی پہلی ششماہی کے دوران 2.03 ٹریلین روپے کا قرضہ  واپس کیا، جو قومی خزانے میں بہتر لیکویڈیٹی کی عکاسی کرتا ہے باوجود اس حقیقت کہ  ایف بی آر  نے  مالی سال 2025 کے پہلے پانچ مہینوں کے دوران وصولی کے ہدف سے   کم ٹیکس وصول کیا ۔ توقع ہے کہ حکومت مالی سال کی دوسری ششماہی میں  اس کمی کو پورا کرنے اور مالیاتی نظم و ضبط کو برقرار رکھنے کے لیے  مزید قرضاجات   کا سہارا لے گی“۔
حکومتی اعدادو  شمار کے مطابق افراط زر کی شرح   دسمبر 2024    کے اختتام تک محض 4.1 فیصد رہ گئی جو کہ جنوری2025  کے آخر میں مزید کم ہو  جائے گی ۔ اس لحاظ سے اسٹیٹ بینک  کی مالیاتی کمیٹی کو اگلی   میٹنگ میں  شرح  سود میں مزید کمی کرنی چاہیے۔ یہ 7 فیصد سے زیادہ نہیں ہونی چاہیے۔اس کا فائدہ  نہ صرف کاروباری اداروں کو ہو گا بلکہ حکومت کے سود کے اخراجات میں نمایاں کمی ہو گی اور مالیاتی خسارہ جو ایف بی آر  کی ناقص کارکردگی کی وجہ سے بڑھ رہا ہے بہت حد تک کم ہو سکے گا   ۔ 
تازہ ترین غیر سرکاری اور غیر حتمی  اعداد و  شمار کے مطابق،  ایف بی آر نے 31 دسمبر 2024 تک  5.6 ٹریلین روپے اکٹھے کیے جب کہ  عالمی مالیاتی ادرے ( آئی ایم ایف) نے  6 ٹریلین روپے  کا ہدف دیا گیا تھا۔  ایک تخمینہ کے  مطابق ٹیکس کی وصولی میں کمی کا حجم  رواں مالی سال کے پہلے چھ ماہ میں   386ارب روپے ہے،  جس سے صوبوں کو  بجٹ میں  مختض رقوم سے کم ادائیگی  ہو گی۔
 یہ انتہائی افسوس کا مقام ہے کہ    پاکستان کی ریاستی اشرافیہ  آئی ایم ایف  کی غلامی میں رہ کر ایک طرف تو ظالمانہ ٹیکسز سے عوام  ،خاص طور پر متوسط تنخواہ دار طبقے اورخط غربت سے نیچے افراد، کی زندگی  روز بروز اجیرن بنا رہی ہے، اور دوسری جانب معیشت   کی نمو کو تباہ کرنے کی ہر ممکن کوشش کر رہی ہے، جو   رواں مالی سال کی پہلی سہ ماہی   میں محض  0.92 فیصد تھی ۔ ظالمانہ اور بلند شرح کے ٹیکسز  کے باوجود ہدف بھی پورے نہیں ہو پا  رہے، اور  ترقی کی شرح نمو  بھی تشویش ناک سطح پر گر گئی ہے  !
  اس صورت حال میں بھی  وفاقی اور صوبائی حکومتیں اپنے شاہانہ خرچوں میں کمی اور نا اہل /بدعنوان  حکومتی مشینری کے حجم کو کم کرنے سے گریزاں ہیں۔  
وفاقی حکومت آنے والے مہینوں میں  عوام کو”اڑان پاکستان“   اور ترقی کے خواب دیکھانے کے  باوجود قرضوں میں  بےدریغ  اضافہ کرنے میں  مگن رہے گی ۔اس پروگرام میں قرضوں سے نجات حاصل کرنے کا کوئی ٹھوس اور قابل عمل  منصوبہ شامل نہیں۔
 لوگوں  کی زندگیوں کو بہتر کرنے کی بجائے اور  طرز حکمرانی میں بنیادی  اصلاحات  کیے بغیر  ' پاکستان اڑان'  جیسے  خیالی پلاؤ  پیش کرنے سے  عوام کی حالت بہتر ہو گی اور نہ ہی پاکستان آبادی کے لحاظ سے دنیا کا    پانچواں   بڑا ملک  ہونے کے باوجود اقوام عالم میں کوئی قابل قدر مقام حاصل کر پائے گا۔ان کالموں میں بار ہا عملی تجاویز پیش کرنے کے باوجود  ریاستی اشرافیہ کے      نا اہل  حکمران، طفیلی   سیاستدان  اور اعلی  عہدوں پر فیض  بدعنوان سرکاری افسران  عوام دوست  نظام  کے قیام اور  ترقی کے لئے ضروری اصلاحات اور اقدامات سے گریزاں ہیں۔
  ہم باآسانی  معیشت کی  ترقی کی نمو 8 فیصد تک  لے  جا  کر  اس  کو  ایک لمبے عرصے  تک جاری رکھ سکتے ہیں، اگر عوام دوست  اصلاحاتی ایجنڈا  اور ریاستی اشرفیہ کی وسائل سے اجاداری کو  ختم کیا  جائے،  مگر جن کے ہاتھ میں طاقت اور بندوق ہے وہ اس کی راہ میں اصل  رکاوٹ ہیں ، جس کو عوامی طاقت سے ہی ہٹانا  ممکن ہو گا۔ مگر پاکستان کی تین بڑی  سیاسی  جماعتیں اور  ان کی حواری جماعتیں ان کے بل پر حکومت حاصل کرتی ہیں اور  اقتدار چھین  لئے جانے کے بعد مذکرات کی متمنی  رہتی ہیں !
اگر پاکستان نے معاشی اڑان بھرنی ہے تو تمام سیاسی جماعتوں کو 2025 میں یہ عہد کرنا ہو گا کہ حصول اقتدار اور منتقل اقتدار میں فوج کا کوئی کردار نہیں ہو گا اور یہ  عمل محض لوگوں کے ووٹ سے دستور پاکستان کے مطابق ہو گا جس کو تمام  سیاستدان قبول کریں  گے۔
 ریاست پر اشرافیہ کی اجاداری کی وجہ سے  ایک طرف تو  وفاقی حکومت قرضوں کے  جال میں پھنستی ہی جا  رہی ہے، اور دوسری طرف صوبوں کو-- جو ساتویں قومی مالیاتی کمیشن (این ایف سی) ایوارڈ کے تحت  وفاقی منتقلی پر بہت زیادہ انحصار کرتے ہیں--  مالی سال 2024 میں بجٹ  میں مختص  کردہ رقوم سے کم  حصہ وصول ہوا ۔  
صوبے بھی ہر سال کی طرح امیر غیر حاضر زمینداروں سے واجب الادا زرعی انکم ٹیکس وصول کرنے میں ناکام رہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ 2008 سے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی مالی بدانتظامی ملک کے معاشی  نظام کو بری طرح متاثر کر رہی ہے، جس کی  وضاحت اور اس صورت حال سے نجات حاصل کرنے کے عملی اقدامات کا   تفضیلی بیان   مختلف مضامین میں  کیا گیاہے۔
صوبے امیر غیر حاضر زمینداروں سے واجب الادا  زرعی انکم ٹیکس  اور درست  شہری  پراپرٹی ٹیکس وصول کرکے اپنے مالی  وسائل کو متحرک کرنے میں مایوس حد تک  ناکام رہے ہیں۔وہ  آئینی  (اٹھارویں ترمیم) ایکٹ، 2010،   جس  کا اطلاق صدر پاکستان کی منظوری کے بعد 19 اپریل 2010  کو ہوا  ، کے نتیجے میں پر تفویض کردہ ترقی پسند ٹیکسز  (wealth tax and capital gain tax on immovable property،gift tax and inheritence tax etc) نافذ کرنے میں 14 سال سے زائد عرصے سے ناکام ہیں۔ اس  ضمن میں ان کی عدم فعالیت انتہائی افسوسناک ہے۔  حال ہی میں دستخط کیے گئے قومی مالیاتی معاہدے کی روشنی میں اس سلسلے میں فوری اصلاح کی ضرورت ہے۔
کسی بھی ملک  کا مالی استحکام اس کی  مناسب  آمدنی پیدا کرنے کی صلاحیت اور محتاط اخراجات پر منحصر ہے۔ حکومتیں مختلف ذرائع سے محصولات جمع کرتی ہیں جیسے کہ آمدنی اور/یا اثاثوں پر ٹیکس، قدرتی اور مصنوعی افراد سے کھپت اور منتقلی کی رسیدیں۔ تاہم، براہ راست ٹیکسوں کی وصولی کو خاص اہمیت دی جاتی ہے کیونکہ یہ”ادائیگی کی صلاحیت“کے اصول سے منسلک ہے۔
 بدقسمتی سے، پاکستان میں یکے بعد دیگرے آنے والی حکومتیں- سویلین اور ملٹری یکساں طور پر- ٹیکس ریونیو کے اہداف کو رجعتی بالواسطہ ٹیکسوں کے نفاذ کے ذریعے حاصل کر تی رہی ہیں، یہاں تک کہ انکم ٹیکس کی آڑ میں کئی  withholdingٹیکسز نافذ کیے گئے ہیں جو اصل میں دوسروں پر منتقل کر دیے جاتے ہیں۔ ہمارا ٹیکس کا نظام  پیچیدہ اور معاشی  ترقی کی راہ میں روکاوٹوں کا مظہر ہے۔  نتیجتاً، پاکستان  میں کاروبار اور پیداوار کی لاگت اتنی زیادہ ہے کہ سرمایاکاری  کے لئے کوئی رحجان  ممکن ہی نہیں۔ اس خراب ٹیکس پالیسی اور نظام کی بدولت ملک میں  بلند افراط زر اور دولت/آمدنی کی عدم مساوات کی بڑھتی ہوئی لہر میں بے لگام اضافہ  ہو رہاہے۔
اسٹیٹ بینک کے جاری کردہ تازہ ترین اعدادوشمار کے مطابق، 30 ستمبر 2024 تک حکومت کا  کل قرض اور واجبات 72.13 ٹریلین روپے تھے، جس میں سے غیر ملکی قرضے اور واجبات37 ٹریلین روپے تھے۔ ۔
رواں مالی سال 2025کے وفاقی بجٹ کی تفصیلات کے مطابق، صرف قرض پر سود  کی ادائیگی    کا تخمینہ 9.775 ٹریلین روپے (8.7 ٹریلین روپے ملکی اور 1 ٹریلین روپے غیر ملکی) ہے، جبکہ دفاع کا تخمینہ 2.12  ٹریلین روپے اور پنشن کا  1014 ارب روپے (فوجی 662 ارب روپے اور سول 220 ارب روپے) ہے۔ اس طرح، 18.877 ٹریلین روپے کے تمام تخمینی اخراجات مزید  قرضوں سے پورا کیے جائیں گے۔
مندرجہ بالا حقائق کی روشنی میں  اس سے کوئی خاص فرق  نہیں پڑتا ہے کہ جابرانہ ٹیکسوں،  غیر قانونی  ہتھکنڈوں اور غیر ضروری ایڈوانسز کے ذریعے، ایف بی آر  12.970 ٹریلین روپے، جس میں سے 7ویں این ایف سی ایوارڈ کے مطابق صوبوں کا حصہ 57.5 فیصد ہے، کے ٹیکس ہدف کو پورا کرنے  میں کامیاب ہوتا ہے  یا نہیں ۔   وفاقی حکومت کو ہر حال میں مزید مہنگے قرضے لینا ہی ہوں  گے اور مالیاتی خسارے کو پورا کرنے کے لئے   مزید ظالمانہ ٹیکسز  لگانا ہوں گے۔
مندرجہ بالا اعدادوشمار سے کسی شک و شبہ سے بالاتر ثابت ہوتا ہے کہ پاکستان کا اصل مالی مسئلہ  مسلسل بےدریغ  قرضے اور  غیر ضروری اخراجات ہیں، جو ملک کو قرضوں کے مہلک جال میں مزید گہرے دھکیل رہے ہیں۔ پچھلے کئی سالوں کے بجٹ میں بڑے پیمانے پر کم بیان کیے گئے اخراجات اور مبالغہ آمیز آمدن، جان بوجھ کر یا دوسری صورت میں، نااہلی اور/یا  دھوکہ دہی کی تصدیق    کرتے ہیں۔ 
پاکستان کو ایک مئوثر ٹیکس پالیسی فریم ورک کے قیام میں  revenuecracy کی طرف سے زبردست مزاحمت کے چیلنج کا سامنا ہے۔ ایک آزاد ٹیکس پالیسی  بورڈ کے قیام، ٹیکس کی شرحوں میں کمی، قوانین  اور  طریقہ کار کو آسان بنانے اور  غیر رسمی معیشت کی دستاویزات کو ترغیب دینے ،  اور ٹیکس نیٹ میں وسیع تر ممکنہ بنیاد کو  لانے کے لئے  عملی  ٹیکس پالیسی وضع کرنے  کی بجائے، حکومت نے 18 دسمبر 2024 کو قومی اسمبلی میں عوام  اور کاروبار دشمن  اور بڑے پیمانے پر غیر آئینی ٹیکس قوانین (ترمیمی) بل،  2024  پیش کیا۔ 
مذکورہ بالا بل کی کچھ دفعات واضح طور پر جان و مال کی  حفاظت،  رازداری اور انسانی وقار کے تحفظ  اورجائیدادکے  حاصل  کرنے کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کرتی ہیں، جیسے  کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین  کے آرٹیکلز     4،  12،9،8 اور23۔ جیسا کہ پچھلے ہفتے کے کالم میں  واضح کیا جا چکا ہے، اس سے ٹیکس کی وصولی  کی حقیقی صلاحیت کو بروئے کار لانے میں مدد نہیں ملے گی، بلکہ ٹیکس  کی  مشینری  کی  اندرموجود    کالی بھیڑوں    کے لیے  بدعنوانی کے نئے راستے کھلیں گے!
حکومتوں کی جانب سے ملک کی ضروریات کو پورا کرنے  کے لئےایک مئوثر اور منصفانہ ٹیکس نظام متعارف کرانے میں ناکامی اکثر قرضوں کے جال و وبال  کا باعث بنتی ہے، جہاں آمدنی اور اخراجات کے درمیان فرق کو قرضوں کے ذریعے پر کیا جاتا ہے، جس سے ریاست کی اپنی فلاح و بہبود پر خرچ کرنے کی صلاحیت پر سمجھوتہ کیا جاتا ہے۔ یہ ہر  شہری کی  صحت، تعلیم اور انفراسٹرکچر جیسی بنیادی سہولیات کی فراہمی میں بھی رکاوٹ ہے۔ پاکستان کے قیام سے لے کر اب تک بالکل یہی ریاست  کا  مخمصہ رہا  ہے، خاص طور پر 7 اکتوبر 1958 کی پہلی فوجی بغاوت اور مارشل لاء کے بعد سے ۔
حالیہ برسوں میں ہمارے ٹیکس  جی ڈی پی کا تناسب  10 فیصد سے بھی کم متعدد وجوہات کی بناء پر1996-97 کی  سطح     11.5%سے  بھی    نیچے چلا گیا ہے۔  اس  گراوٹ  کے اہم عوامل  معاشی  ترقی کی  سُست  روی  اور غیر رسمی معیشت  کی  حوصلہ  افزائی  اور  اس  کاغیر  معمولی  بڑھتا   ہوا  سائز  ہیں۔ 
ایف بی آر  کی ٹیکس کی بنیاد کو وسیع  نہ کرنے کی نااہلی میں ٹیکس پالیسی ڈیزائن کا   بنیادی ہاتھ ہے،  جس  کا  محور ٹیکس کی شرحوں پر نظرثانی یا موجودہ ٹیکس دہندگان سے مزید بھتہ وصولی، ودہولڈنگ ٹیکس کی شرح میں اضافہ، سپر ٹیکس  جیسے   غیر مناسب اقدامات کا سہارا لینا ہے۔ انکم ٹیکس آرڈیننس، 2001 کے سیکشن E7 کے تحت  غیر آئینی ٹیکس، اور یہاں تک کہ بینک اکاؤنٹس کو منجمد کرنے کے لیے سخت اقدامات کا استعمال جبکہ قانونی چارہ جوئی ابھی تک زیر التوا  ہوتی  ہے،  پھر بھی موبائل، بجلی اور گیس کے رابطے کو منقطع کر کے آزاد کاروبار، تجارت اور جائیداد رکھنے، یہاں تک کہ زندگی کے حق  کی  پامالی پر  مبنی پارلیمنٹ سے مزید تباہ کن اختیارات مانگنا انتہائی قابل مذمت عمل ہیں۔
 معاشی ترقی اور سماجی انصاف کی راہ میں ایک اور رکاوٹ مقننہ اور ملک کی طاقتور اشرافیہ کے درمیان گٹھ جوڑ ہے جس نے پاکستان کی مالی ترقی کی صلاحیت کو روک  رکھاہے۔ امیروں پر ٹیکس لگانے اور کم/مقررہ آمدنی والے افراد یا گرین فیلڈ انڈسٹریز کو سہولت فراہم کرنے کی ہمیشہ طاقتور اشرافیہ  ملیٹرو جوڈیشل سول کمپلیکس اور بے ایمان تاجروں کی طرف سے مزاحمت کی جاتی ہے کیونکہ اس سے ان کے ٹیکس کے بوجھ میں اضافہ ہوتا ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق ہمیشہ کی طرح ایف بی آر کو اپنے ششماہی ہدف میں بہت زیادہ کمی کا سامنا  کرنا  پڑا ہے۔ ایف بی آر کی جانب سے جمع کیے جانے والے ٹیکسز  کا  نوے  فیصد  انحصار ودہولڈنگ ٹیکس  پر  ہے۔ ایک خبر کے مطابق:۔
”حکومت کو اس ماہ (دسمبر 2024) میں ایک بڑے ریونیو شارٹ فال کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے کیونکہ اب تک 450 بلین روپے کی وصولی ہو چکی ہے۔ صرف 10 دن رہ گئے ہیں جس کے دوران ایف بی آر کو ماہانہ ہدف حاصل کرنے کے لیے مزید 920 ارب روپے کمانے کی ضرورت ہے۔ایف بی آر نے  مالی   سال  کے  پہلے   پانچ ماہ  میں ٹیکس وصولی کے ہدف سے  341 ارب روپے کم   وصول کیے اور  اب دسمبر کے آخر تک شارٹ فال341 ارب روپے   تک بڑھ سکتا ہے۔ اس  صورت  حال  میں  آئی ایم ایف نیا   منی  بجٹ لانے کا   مطالبہ  کر  سکتا  ہے“۔  
حکومت  اور   چیئرمین ایف بی آر نے  بلند بانگ  دعوے کیے  تھے کہ  وہ  بہتر  حکمت  عملی  اور  جدید  آلات  اور  ڈیٹا  mining   سے  ہدف  سے  زیادہ  ٹیکس  وصولی  کر  لیں گے۔ اب  وہ  اپنی  نا اہلی کا  الزام  معاشی سست روی  اور افراط  زر  میں  کمی  پر  منتقل  کر  رہے  ہیں،  جب کہ  حقیت یہ ہے کہ 6 ماہ میں  ٹیکس کا شارٹ فال  386  بلین روپے تک بڑھ گیا ہے،  باوجود  29 دسمبر 2024 کو انتہائی عجلت میں انکم ٹیکس (ترمیمی) آرڈیننس 2024  کا اجراء کرکے  کمرشل بینکوں پر 2024 کے مالی سال پر ٹیکس ریٹ  44 فیصد اور اس پر 10 فیصد سپر ٹیکس   نافذ کرکے،  ایک اندازے کے مطابق 75 بلین  روپے کی اضافی رقم  31 دسمبر 2024کے اندر وصول کی گئی  تا کہ وصولیوں کے خلا کو کم کیا جا سکے۔
بہت سے مصنفین ، ادارے اور تھنک ٹینکس جیسے  پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس (PIDE) اور پرائم انسٹی ٹیوٹ ،  نے مختلف رپورٹس/مضامین/ریسرچ پیپرز/کتابوں میں غیر  معقول ٹیکسز  اور  غیر  منطقی  ٹیکس  پالیسی،   جو  معاشی  ترقی  کی  راہ   میں  رکاوٹ  ہیں ، کو اجاگر کیا  ہے  اور  اسے منصفانہ اور وسیع البنیاد بنانے کے لیے قابل عمل حل بھی پیش کیے  ، لیکن وزارت خزانہ، ایف بی آر اور غیر ملکی قرض دہندگان اور ڈونرز نے کبھی ان کی طرف  کوئی توجہ نہیں دی۔
  وقت آ  گیا   کے  صاحب  اقتدارٹیکس  کے نظام  میں  دورس مثبت  نتائج   حاصل  کرنے  کے  لئے   درج ذیل پر عوامی  بحث  کا  آغاز   کریں تا کہ”پاکستان اڑان“ کےاہداف حاصل کیے جا سکیں:
• کارپوریٹ ٹیکس کی شرح %20 سے زیادہ نہیں ہونی چاہیے، بشمول سپر ٹیکس وغیرہ۔ 
• انکم ٹیکس کی شرح کو %10 کر دیا جائے،  مگر 100 ملین روپے سے زیادہ کی خالص دولت (net wealth) پر% 2 کے متبادل ٹیکس کے ساتھ  ، دونوں  میں  سے جو بھی  زیادہ ہو۔ 
• تمام افراد کو ایک صفحہ (single page) پر  مشتمل   سادہ انکم ٹیکس ریٹرن فائل کرنے کی سہولت فراہم کی جانی چاہیے (کوئی ویلتھ سٹیٹمنٹ نہیں)۔ 
قابل ٹیکس حد سے کم آمدنی والوں کو انکم سپورٹ (منفی ٹیکس)ادا کیا جانا چاہیے۔
• سنگل پیج  ریٹرن فارم  آن  لائن  انگریزی/اردو/تمام علاقائی زبانوں میں ہونا چاہیے۔ اس کے ذریعہ ہر  بالغ  شہری سے  حقیقی آمدنی کی  معلومات حاصل کرنے سے تمام گھرانوں کا قومی سطح پر ڈیٹا بینک بنانے میں مدد ملے گی۔    ہر  فرد  اور  خاندان  کی کمائی کی سطح اس بات کا تعین کرے گی کہ کس کو ریاست  کی  طرف  سے منفی ٹیکس کی  ادائیگی کرنے کی ضرورت ہے،  کس کو سماجی فوائد کا حقدار ہونا چاہیے،  اور غربت  کو ختم کرنے  کے لئےسماجی/اقتصادی نقل و حرکت کو کیسے بہتر بنایا جائے۔
• ریاست کو  ٹیکس  چوری  کے کلچر کی  حوصلہ افزائی اور  اہانت  کو ختم کرنا چاہیے۔ دو  ٹوک  اعلان  کیا  جائے  کہ مزید  کوئی  ٹیکس  امنیسٹی(amnesty) نہیں دی جائے گی،   جو بے ایمانوں  کو مراعات دیتی ہے اور ایماندارٹیکس  گزروں کو سزا ۔
 وہ لوگ جنہوں نے  ریٹرن  تو فائل کی لیکن کم ادائیگی کی انہیں بغیر کسی تعزیری کارروائی/آڈٹ کے واجب الادا ٹیکس کی ادائیگی کی کمی کو پورا کرنے کی ایک دفعہ (one time) پیشکش کی جائے ۔ یہ ایف بی آر کے لیے مقرر کردہ ہدف 12.970 ٹریلین روپے  کی  حصول  میں مددگار ہو  گی۔
• مالیاتی خسارے کو GDP کے% 4 کی سطح تک کم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ (i) غیر پیداواری اور فضول خرچوں کو %30 تک کم کیا جائے، (ii) قیمتی سرکاری زمینوں اور اثاثوں، جیسے محل نما سرکاری رہاش گاہیں وغیرہ، کو عوامی نیلامی کے ذریعے اور مخصوص سرگرمیوں کے لیے روزگار پیدا کرنے اور معاشی سرگرمیوں کو فروغ دینے کے لیے لیز پر دے کر غیر ٹیکس محصولات میں اضافہ کیا جائے، اور (iii) ہر سطح پر وفاقی، صوبائی اور مقامی ٹیکسوں کو آسان، کم شرح، وسیع البنیاد اور آسانی کے ساتھ قابل ادائیگی بنایا جائے۔
• ایڈوانس ٹیکس/بھاری ٹیکسوں/ڈیوٹیوں/دیگر چارجز کے بوجھ  کی بجائے کاروبار کو’Ease of Doing Business‘ کے تمام اشاریہ جات کو بہتر بنا کر اور ’Cost of Doing Business‘کو کم کر کے سہولت دی جانی چاہیے۔اس سے معاشی ترقی اور سرمایاکاری میں مدد ملے گی اور اس کے نتیجے میں  محصولات میں بھی قابل قدر اضافہ ہو گا ۔ٹیکسز میں اضافہ کرنے سے معاشی ترقی اور سرمایاکاری کو نقصان ہوتا ہے اور  محصولات میں نمایاں کمی جیسا کے اب ہو رہا ہے۔
 ہیومن ریسورس ڈویلپمنٹ (HDR) اور ریسرچ اینڈ ڈیولپمنٹ (R&D) میں سرمایہ کاری کے لیے ٹیکس کریڈٹس/ مراعات تمام شعبوں میں اہل افرادی قوت رکھنے کے لیے ملنی  چاہیے  اس سے روزگار فراہم  کرنے میں نجی شعبہ کی حوصلہ افزائی ہو  گی۔ آئین کے آرٹیکل 3 کے مطابق ہر فرد کو  روزگار فراہم کرنا  ریاست  کی  اولین ذمہ   داری  ہے ۔
• تمام قسم کے کاروباریوں/ اختراع کرنے والوں کو تمام ممکنہ سہولیات اور مراعات، خاص طور پر چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباری اداروں (SMEs) کو اختراعات، ترقی اور پیداوار پر توجہ دینے کے لیے ٹیکس  کریڈٹ  ملنا  چاہیے۔ بینکنگ سیکٹر کو SMEs اور  دوسرے کاروباروں کو قرض دینے کے لیے فعال ہونا چاہیے۔ بینک حکومتی  قرضوں کو  محفوظ ترین   سرمایہ  کاری سمجھتے ہوئے   اسی میں اضافہ کر رہے ہیں۔اس آمدنی پر 70 فیصد ٹیکس نافذ کر کے حکومت ضروری شعبوں میں بینکوں کو قرضہ دینے کی طرف راغب کر سکتی ہے۔بینکوں کے نجی شعبوں سے قرضاجات کے   تنازعات کو جلد نمٹانے کے لیے بینکنگ قوانین میں ترمیم کی ضرورت ہے، جیسا کہ بہت سے ممالک میں کیا جاتا ہے۔
• غیر ملکی سرمایہ کاروں کے لیے سہولیات بشمول طویل مدتی ویزا اور/یا قومیت کی فراہمی۔ بہت سے افغان اور ایرانی  اس شرط پر پاکستان میں سرمایہ کاری کے خواہشمند ہیں۔
• تمام شہریوں کی اقتصادی حیثیت کا تعین کرنے کے لیے مرکزی ڈیٹا کی تخلیق/انتظام۔ ضرورت مندوں کے لیے یونیورسل پنشن، سماجی تحفظ/فوڈ اسٹامپس (food stamps) ہونے چاہئیں، ساتھ ہی  ان کو غربت کے جال سے نکالنے کے لیے  ہنرمند  بنانا ہو گا۔
• نیشنل ٹیکس ایجنسی (NTA) اور تمام متعلقہ شعبوں میں پیشہ ورانہ مہارت رکھنے والی آل پاکستان یونیفائیڈ ٹیکس سروسز کا قیام۔  
نیشنل ٹیکس ایجنسی  تمام شہریوں کو بتائے  گی کہ ان کی آمدنی/خرچ کی سطح کیا ہے۔   یہ درست ٹیکس کی ذمہ داریوں اور ریاست کی طرف سے سماجی مدد کے حقیقی حقدار کا تعین کرے گی۔
• قومی/صوبائی قانون سازوں کو سادہ، متوقع اور کم شرح پر ٹیکس لگانا چاہیے  زرعی آمدنی سمیت تمام آمدنیوں پر انکم ٹیکس وفاقی حکومت کے  اختیار  میں ہونا چاہیے اور سامان/خدمات پر ہم آہنگ سیلز ٹیکس  وفاق /صوبوں کے لیے ۔ یہ ملک   کے مالیاتی استحکام اور خود انحصاری  کو یقینی بنائے  گا ۔ 
• ہمیں متعدد ٹیکسوں کو ختم کرنا چاہیے اور مقامی  ٹیکسز جمع کرنا چاہیے  جن سے صحت، تعلیم، ہر قسم کی شہری سہولیات اور تفریح وغیرہ کی خدمات فراہم کرنے کے لیے مقامی حکومتوں کو فنڈز مختص کیے جا سکیں۔ مقامی  منتخب حکومتیں اپنے   رہاشیوں کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے  جائیداد ٹیکس ، گاڑیوں کے ٹیکس وغیرہ خود وصول کریں۔
• تعلیم کے لیے جی ڈی پی کا کم از کم% 4 اور وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی طرف سے ریسرچ اینڈ ڈیولپمنٹ  کے لیے اضافی% 2 مختص کرنا چاہیے۔
• تمام شہریوں کو ایک موقع دیا جانا چاہیے کہ وہ کسی بھی گزشتہ سال کے لیے، اندرون یا بیرون ملک تمام غیر ٹیکس شدہ اثاثوں کا اعلان کریں، ٹیکس کی واجب الادا ادائیگی مکمل طور پر یا قسطوں میں،  کیش لیکویڈیٹی کے مسائل پر قابو پانے کے لیے،  دینی  ہوگی ۔  یہ ہر گز  ٹیکس ایمنسٹی نہیں ہونی  چاہیے اور پورا  واجب الادا  ٹیکس ادا کیا جانا ہو گا    یکمشت یا قسطوں۔ یقیناً   قسطوں  کی شکل میں  رعایتی مدت کے لیے اضافی ٹیکس ادا کرنا۔  ڈیڈ لائن کے بعد غیر ٹیکس شدہ اثاثوں کا اعلان  نہ کرنے والوں کے خلاف، قانون کے تحت سخت کارروائی کی جانی چاہیے، جس میں جائیداد کی ضبطی، جرمانہ اور/یا قید شامل ہے۔
چونکا دینے والی بات یہ ہے مندرجہ بالا    اصلاحات   اور خود کفالت کا ایجنڈا  میں دی گئی تجاویز  کو آئی ایم ایف اور ایف بی آر دونوں نے نظر انداز  کیا  ،جن کو نافذ کرنے سے صرف وفاقی سطح  پر  30 ٹریلین  روپے اکٹھا  ہو سکتا ہےاگر تمام ٹیکس استثنات (exemptions)  ختم کر دی جائیں۔ اس سے  پاکستان کو مالیاتی خسارے پر قابو پانے، تازہ قرضوں سے نجات حاصل کرنے، تیز رفتار اقتصادی ترقی اور تمام شہریوں کو سماجی خدمات فراہم کرنے کے قابل  بنا  سکتا ہے ۔
پاکستان کےٹیکس نظام میں بنیادی اصلاحات کرنے میں ناکامی، جیسا کہ اوپر بتایا گیا ہے، اصل مسئلہ ہے۔ وفاق باآسانی   30 ٹریلین  روپے(جی ڈی پی کا% 15 اگر غیر رسمی معیشت کو بھی شامل کیا جائے)  کا ٹیکس وصول کر سکتا ہے۔  موجودہ معاشی بحران سے نکلنے کے لیے مناسب مالیاتی جگہ پیدا کرنے اور تمام شہریوں کو انتہائی ضروری اور طویل التواء کے فوائد/حقوق فراہم کرنے اور تجارت اور صنعت کو ریلیف فراہم کرنے کے لیے   مربوط  اصلاحات  نا   گُزیر  ہیں ۔
ٹیکسوں کی مندرجہ بالا سطحوں کو حاصل کرنے کے لیے، ہماری توجہ تیز/پائیدار  نمو پر ہونی چاہیے جو ٹیکسوں میں خود  بخود   اضافہ کرے گی— غیر  منصفانہ  اور  اونچی  شرح کےٹیکسز    موجودہ اور نئے کاروباروں میں سرمایہ کاری کو    روکتے  ہیں، جس  کی  ہم  کو  اشد  ضرورت  ہے۔ کیا  اس وقت اقتدار میں سیاستدان مندرجہ بالا  اصلاحی اقدامات کریں  گے؟
 آئیے دعا کریں کہ نیا  سال  2025 پاکستان کے لیے خوشحالی لائے اور تمام شہریوں  کو یکساں مواقع اور  بنیادی حقوق کی ضمانت  حاصل  ہو  سکے   جس کی  آئین میں  ضمانت   دی  گئی ہے۔

مضمون نگار وکالت کے شعبے سے وابستہ ہیں اور متعدد کتابوں کے مصنف ہیں۔ وہ لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز (LUMS) میں ایڈجنکٹ فیکلٹی، ممبر ایڈوائزری بورڈ اور پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس (PIDE) کے سینیئر وزٹنگ فیلو ہیں۔