Get Alerts

بڑے شہروں میں محلہ کمیٹیوں کا قیام عوام دوست منصوبہ بندی کی بنیاد بن سکتا ہے

محلہ کمیٹیاں شہری منصوبہ بندی، بنیادی سہولیات کی فراہمی اور مقامی حکومتوں کے ساتھ شراکت داری کے لیے دنیا بھر میں ایک کامیاب ماڈل ثابت ہوئی ہیں۔ یہ کمیٹیاں ناصرف مقامی مسائل کے حل میں مدد دیتی ہے بلکہ کمیونٹی کو بااختیار بناتے ہوئے شہری زندگی کے معیار کو بھی بہتر بناتی ہے۔

بڑے شہروں میں محلہ کمیٹیوں کا قیام عوام دوست منصوبہ بندی کی بنیاد بن سکتا ہے

شہری پائیداری کی مسلسل ارتقا پذیر داستان میں ایک تصور اس طرح سامنے آتا ہے جو وقت کے ساتھ بدلا نہیں مگر بتدریج تبدیل بھی ہوا ہے۔ جی ہاں اور وہ ہے شراکتی منصوبہ بندی۔ جون 2024 میں انٹرنیشنل وزیٹر لیڈرشپ پروگرام (IVLP) جو کہ پائیدار شہروں پر تھا، اس کے تحت مجھے امریکہ کے مختلف شہروں میں وقت گزارنے اور انہیں سمجھنے کا موقع ملا اور 6 مختلف امریکی شہروں میں گھوم کر یہ کافی حد تک واضح ہو گیا کہ شہر کے انتظام اور منصوبہ بندی میں نچلی سطح پر کمیونٹیز کو شامل کرنا صرف فائدہ مند ہی نہیں بلکہ ضروری بھی ہے۔ میں نے دیکھا کہ ہلچل مچا دینے والے امریکی شہروں سے لے کر خاموش عالمی ہم منصبوں تک، کمیونٹی کی شمولیت کے کردار (جو اکثر محلہ کمیٹیوں جیسے نچلی سطح کے انداز میں مجسم ہوتے ہیں) نے شہری منصوبہ بندی کی نئی تعریف بیان کی ہے۔

یہ کہنا بے جا نہیں کہ امریکہ میں شہر کے معاملات میں کمیونٹی کی شرکت محض ایک مثال نہیں بلکہ ایک عملی معمول ہے کہ رہائشی اکٹھے ہوتے ہیں، مقامی اور محلوں کی سطح کے چیلنجوں کی نشاندہی کرتے ہیں اور ساتھ ہی ان کا حل تجویز کرتے ہیں، جنہیں شہر کے محکمے اکثر اپناتے ہیں۔ تو نتیجہ کیا نکلتا ہے؟ ناصرف فعال شہر بلکہ ایسی کمیونٹیز وجود میں آتی ہیں جو کہ مشکل حالات سے جلد بازیابی کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ امریکہ میں موجود یہ مقامی کمیٹیاں ہمارے جنوبی ایشیا میں موجود محلہ کمیٹیوں کے طرز پر کام کرتی ہیں اور یہ ثابت کرتی ہیں کہ پڑوس اور علاقے کی سطح پر لوگوں کی شمولیت انہیں ادارہ جاتی فیصلوں سے ناصرف آگاہ کرتی ہے بلکہ ان کی رائے کو شامل کرتے ہوئے ترقیاتی اہداف کو کمیونٹی کی ضروریات کے ساتھ ہم آہنگ کر سکتی ہے۔ اور یوں پائیدار شہری مستقبل کو یقینی بنایا جا سکتا ہے۔

اس کے واضح ثبوت ہمیں نیویارک کے علاقائی و پڑوس کے بحالی کے منصوبوں سے لے کر نیو اورلینز کے ماحول دوست اقدامات تک نظر آتے ہیں کیونکہ ان شہروں میں نچلی سطح کی مصروفیت و شمولیت نے بلدیاتی محکموں اور رہائشیوں کے درمیان خلیج کو مستقل طور پر ختم کیا ہے۔ جب ہم ان کامیابیوں کو دیکھتے ہیں، تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دنیا بھر کے شہروں، خاص طور پر جنوبی ایشیا جیسے خطوں میں، ہم اس ماڈل کو اپنی شہری حقیقتوں کے مطابق کیسے بنا سکتے ہیں اور اسے اپنے شہری حکمرانی کے نظام کے طرز پر کیسے ڈھال سکتے ہیں کہ ہم اپنے شہروں، علاقوں، محلوں اور پڑوس کو بہتر کر سکیں؟

پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی کو ہی دیکھ لیں۔ کون سا مسئلہ ایسا ہوگا جو یہاں موجود نہیں، صاف اور محفوظ پانی کی کمی، رہائش کی کمی، کچرا اٹھانے کا ناقص انتظام، برساتی نالوں کی صفائی نہ ہونا، پبلک ٹرانسپورٹ کی عدم دستیابی، ٹوٹ پھوٹ کا شکار سڑکیں، صحت و تعلیم کی سہولیات کی کمی، بجلی کی کمی، شہر کا بے ہنگم پھیلاؤ، شہر میں کھلی جگہوں اور کچی زمین کی کمی اور ساتھ ہی، شہری سیلاب کا مسئلہ اور نشیبی مقامات اور نکاسی آب مسدود کرنے والے مقامات کی نشاندہی وغیرہ۔ یعنی ایک طویل فہرست بنتی ہے اور سرکار کی تلاش بہت مشکل ہو جاتی ہے تو ایسے حالات میں جب شہر لاوارث ہوں تو شہر کے رہائشیوں کو آگے بڑھنا پڑتا ہے اور یوں محلہ کمیٹیوں کا قیام عمل میں آتا ہے۔

محلہ کمیٹیاں شہری منصوبہ بندی، بنیادی سہولیات کی فراہمی اور مقامی حکومتوں کے ساتھ شراکت داری کے لیے دنیا بھر میں ایک کامیاب ماڈل ثابت ہوئی ہیں۔ ان کی شمولیت ناصرف مقامی مسائل کے حل میں مدد دیتی ہے بلکہ کمیونٹی کو بااختیار بناتے ہوئے مجموعی طور پر شہری زندگی کے معیار کو بہتر بناتی ہے۔ محلہ کمیٹیاں شہری منصوبہ بندی میں اہم کردار ادا کر سکتی ہیں کیونکہ وہ شہری مسائل کی نچلی سطح پر تفہیم، شراکت داری، اور مؤثر حل فراہم کرنے میں مددگار ہوتی ہیں۔

یوں کہا جا سکتا ہے کہ محلہ کمیٹیوں کا قیام شہروں کے مسائل کے حل کے لیے ایک مؤثر اور ضروری طریقہ کار ہے کیونکہ یہ نچلی سطح پر رہائشیوں کو ایک پلیٹ فارم مہیا کرتی ہیں جہاں وہ اپنے مسائل پر بات کر سکتے ہیں اور ان کا حل تلاش کر سکتے ہیں۔ محلہ کمیٹی میں مقامی رہائشی شامل ہوتے ہیں، جو اپنے علاقے کے حالات اور ضروریات سے بخوبی واقف ہوتے ہیں۔ ان کی شمولیت سے فیصلے زیادہ مؤثر اور عملی ہو جاتے ہیں اور اپنے علاقے کے مسائل کو قریب سے جاننے کی بنیاد کمیٹی ان مسائل کی شناخت اور ترجیحات کا تعین کرتے ہوئے اداروں کے ساتھ مل کر مسائل کے حل کرنے میں مدد فراہم کرتی ہے۔ لیکن اس کے لئے ذمہ داریوں کا تعین بہت ضروری ہے کہ کمیٹی اراکین مختلف ذمہ داریوں کو تقسیم کر لیں، جیسے سرکاری اداروں سے رابطہ کرنا، صفائی مہم کا انتظام کرنا، یا وسائل اکٹھے کرنا تو اس سے مسائل کو منظم طریقے سے حل کرنے میں آسانی ہو جائے گی۔ بلکہ فوری مسائل کے حل کے ساتھ ہی ایسے اقدامات بھی کیے جا سکتے ہیں جن کی بدولت مستقبل میں ان مسائل کو دوبارہ پیدا ہونے سے روکا جا سکے۔

اگر ہم بمبئی (ممبئی) کی بات کریں تو وہاں محلہ کمیٹیوں نے کئی حوالوں سے شہر میں بہتری لانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ چاہے وہ جرائم کی روک تھام اور شہریوں کے تحفظ میں اضافہ ہو یا صفائی اور کچرے کے انتظام میں بہتری ہو، یا پھر پانی اور نکاسی کے مسائل کا حل ہو، اسی طرح ماحولیاتی بہتری و سماجی ہم آہنگی، مقامی مسائل کی ترجیح، فنڈز کا مؤثر استعمال، تعلیم اور صحت کی سہولیات میں اضافہ الغرض یہ کمیٹیاں مقامی رہائشیوں اور سرکاری اداروں کے درمیان رابطے کا ایک مؤثر ذریعہ ثابت ہوئی ہیں، اور ان کی کامیابیاں مختلف سماجی، اقتصادی، اور ماحولیاتی پہلوؤں میں نمایاں نظر آئی ہیں۔

آپ انٹرنیٹ پر 'میں بھی دلی' لکھیں تو پتہ چلتا ہے کہ میں بھی دلی 2041 کے ماسٹر پلان کے عمل میں شہریوں کو شامل کر کے دہلی میں منصوبہ بندی کو مزید نمائندہ اور جامع بنانے کے لیے ایک عوامی مہم ہے۔ انہوں نے محتلف ماہرین و رہائشیوں کی ٹیم کو اکٹھا کیا اور سرکاری اداروں کو بتایا کہ ہم کیسا شہر چاہتے ہیں اور اس حوالے سے جو پالیسی دستاویزات و تجاویز لکھی گئیں ان کا مختلف زبانوں میں ترجمہ کیا گیا تاکہ دلی کے عام رہائشیوں تک اسے پہنچایا جا سکے اور دلچسپ بات یہ کہ ان کا اردو ترجمہ کراچی اربن لیب کی ٹیم نے کراچی سے کر کے دیا تھا۔

کراچی میں بھی محلہ کمیٹیوں کی بہت سی مثالیں ملتی ہیں جو یہ ظاہر کرتی ہیں کہ نچلی سطح پر عوامی شرکت اور خود انحصاری کے ذریعے بڑے مسائل حل کیے جا سکتے ہیں۔ یہ کمیٹیاں شہری زندگی کو بہتر بنانے، مسائل کو ترجیحی بنیادوں پر حل کرنے، اور سرکاری اداروں کے ساتھ مؤثر رابطے قائم کرنے کا ایک مؤثر ذریعہ ثابت ہوئی ہیں۔ اس کی سب سے بڑی مثال اورنگی پائلٹ پروجیکٹ (OPP) ہے۔ ہم نے دیکھا کہ اورنگی ٹاؤن میں محلہ کمیٹیوں نے اورنگی پائلٹ پروجیکٹ کے تحت صفائی، نکاسی، اور دیگر شہری مسائل کو حل کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ ناصرف یہ بلکہ اورنگی کے رہائشیوں نے اپنی مدد آپ کے تحت نکاسی کا نظام بنایا، جس میں محلہ کمیٹیوں نے مقامی لوگوں سے تعاون لیا اور کم لاگت کے ساتھ مسائل حل کیے۔ OPP کے تحت کمیونٹیز نے خود فنڈز جمع کیے اور منصوبے مکمل کیے، جس سے حکومت پر انحصار کم ہوا۔ یہ ماڈل ناصرف پاکستان بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی تسلیم کیا گیا۔

اسی انداز میں کراچی کے علاقے شاہ فیصل کالونی میں بھی علاقہ مکینوں نے اپنے مسائل کے حل کے لئے وائس آف کراچی محلہ کمیٹی قائم کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ علاقے میں پانی اور سیوریج کے دیرینہ مسائل موجود ہیں۔ اس کے ساتھ ہی صفائی ستھرائی، بجلی کی بندش، کھیل کے میدان و پارک کی کمی سے لے کر تعلیم و صحت عامہ کے مسائل کے حل کے لئے مکین اپنی مدد آپ کے ساتھ ساتھ مختلف اداروں کے ساتھ مل کر کام کرنے کی ضرورت پر زور دے رہے ہیں تاکہ اپنے علاقے، محلے اور گلیوں کو بہتر کیا جا سکے اور یہی 'عوام دوست منصوبہ بندی کی بنیاد' ہے۔

اربن پلانر، ریسرچر کراچی اربن لیب آئی بی اے