امریکہ بھارت سٹریٹجک شراکت داری اور نئی سرد جنگ کا خدشہ

امریکہ بھارت سٹریٹجک شراکت داری اور نئی سرد جنگ کا خدشہ
بلاشبہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کا دورہ امریکہ انتہائی کامیاب رہا۔ بھارتی وزیر اعظم اس دورہ کے علاوہ بھی تقریباً پانچ مرتبہ اپنے نجی دورے پر امریکہ جا چکے ہیں۔ لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ اِس سے پہلے جب وہ بھارتی ریاست گجرات کے وزیر اعلیٰ تھے تب امریکی انتظامیہ نے انسانی حقوق کی شدید پامالیوں پر انہیں ویزا دینے سے انکار کر دیا تھا۔ لیکن اِس دفعہ انہوں نے چار روزہ امریکہ کا کامیاب سرکاری دورہ کیا اور اس دفعہ امریکی انتظامیہ کا رویہ ان کے ساتھ انتہائی والہانہ اور پر جوش تھا۔ اس سرکاری دورے کے دوران بھارتی وزیر اعظم کا ریڈ کارپٹ استقبال کیا گیا اور دورے کے دوران بھارتی وزیر اعظم کو21 توپوں کی سلامی بھی دی گئی۔

بھارتی وزیر اعظم نے اپنے دورے کے دوران جان ایف کینیڈی سنٹر واشنگٹن اور رانلڈ ریگن سنٹر میں بھارتی نژاد امریکیوں سے بھی خطاب کیا۔ بھارتی وزیر اعظم ان چند بین الاقوامی لیڈروں میں شامل ہیں جنہیں دو دفعہ امریکی کانگریس سے خطاب کرنے کا موقع ملا۔ اس سے پہلے نیلسن منڈیلا اور برطانوی وزیر اعظم سر ونسٹن چرچل بھی دو دفعہ امریکی کانگریس سے خطاب کر چکے ہیں۔

بھارتی وزیر اعظم امریکی کانگریس سے خطاب کے دوران بار بار نام نہاد بھارتی جمہوریت کو امریکی جمہوریت کے ساتھ جوڑتے رہے اور بھارت کو جمہوریت کی ماں قرار دیتے رہے۔ امریکی کانگریس کے اراکین بار بار اپنی تالیوں کے ذریعے نریندر مودی کے افکار و نظریات کی تائید کرتے دکھائی دیے۔

تاہم یہ بات بھی ایک حقیقت ہے کہ تقریباً 70 سے زائد اراکین کانگریس نے مودی سرکار کے دورِ حکومت میں اقلیتوں اور خصوصاً انسانی حقوق کی شدید پامالیوں کا ذکر کیا جس کے ردعمل میں بھارتی حلقوں میں شدید تشویش پیدا ہوئی۔ اس کے جواب میں بھارتی کابینہ کے متعدد اراکین نے اوباما کو 6 مسلم ممالک پر حملوں کا ذمہ دار ٹھہرایا جس کے نتیجے میں کئی مسلمان شہری شہید ہو گئے تھے۔ دوسری جانب کئی بین الاقوامی جریدوں بشمول نیو یارک ٹائمز نے بھی بھارت میں اقلیتوں اور انسانی حقوق کی شدید پامالیوں پر متعدد اداریے لکھے۔ وائٹ ہاؤس میں اس وقت انتہائی دلچسپ صورت حال پیدا ہوئی جب وال سٹریٹ جرنل کی صحافی نے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی سے اقلیتوں اور انسانی حقوق کی پامالیوں سے متعلق سوال پوچھا۔ اس سوال کے جواب میں بھی بھارتی وزیر اعظم صرف اور صرف بھارتی نام نہاد جمہوریت کا ہی راگ الاپتے رہے اور صحافی کے سوال کا کوئی حقیقت پسندانہ جواب نہ دے سکے۔ حال ہی میں بھارتی ریاست منی پور میں 100 سے زیادہ مسیحیوں کے قتلِ عام پر عالمی برادری کی مجرمانہ خاموشی بھی انتہائی شرمناک ہے۔

وائٹ ہاؤس میں شاندار استقبال کے بعد بھارتی وزیر اعظم کو سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے بھی شاندار استقبالیہ دیا گیا۔ بھارتی وزیر اعظم کے اس دورے کے دوران بھارت اور امریکہ کے درمیان کئی شعبوں میں تعاون کے معاہدوں کو حتمی شکل دی گئی۔ بھارتی وزیر اعظم کے دورے کے دوران سب سے اہم پیش رفت جنرل الیکٹرکس کی جانب سے دیکھنے کو ملی جنہوں نے یہ فیصلہ کیا کہ بھارت میں بہت جلد جنگی طیاروں کے انجن بنائے جائیں گے۔ اس سے روزگار کے کئی مواقع پیدا ہوں گے۔ اس کے علاوہ بوئنگ کمپنی بھارت میں 100 ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کرے گی۔ نیز بھارتی پائلٹس کو ترتیب بھی فراہم کر ے گی۔ اس کے علاوہ امریکہ بھارت کو جدید M-Q, 09 ڈرون بھی فراہم کرے گا۔ یہ وہی ڈرونز ہیں جن کی مدد سے امریکہ نے افغانستان میں ایمن الظواہری کو نشانہ بنایا تھا۔ اس کے علاوہ سوفٹ ویئر کے میدان میں گوگل بھی کئی مقامی بھارت زبانوں پر کام کرے گا جس سے مقامی بھارتی طلبہ کو ان کی مادری زبان میں سیکھنے کے مواقع ملیں گے۔

اس کے علاوہ بھارتی وزیر اعظم کے ٹیسلا کے مالک ایلون مسک کے ساتھ بھی انتہائی اہم ملاقات ہوئی اور اس ملاقات میں انہوں نے بھارت میں بھاری سرمایہ کاری کی یقین دہائی کرائی۔ اس کے علاوہ مائیکرون بھی بھارتی گجرات میں سیمی کنڈکٹر کے میدان میں 2.5 ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کرے گا۔ اس کے علاوہ گوگل بھارت میں ایک تھنک ٹینک سنٹر بھی بنائے گا۔

دوسری جانب بھارت اور امریکہ کے درمیان آرٹیمس اکارڈ انتہائی اہمیت کا حامل ہے جس کی بدولت ناسا اب بھارتی خلابازوں کو بھی چاند سے لے کر دوسرے سیاروں کے تجرباتی سفر اور تحقیق میں معاونت و تربیت فراہم کرے گا۔ اس کے علاوہ ایپل بھی بھارت میں بڑی سرمایہ کاری کرنے جا رہا ہے۔ نیز مصنوعی ذہانت کے شعبوں میں دونوں ممالک کے درمیان تعاون کو فروغ دینے پر بھی دونوں ملکوں میں اتفاقِ رائے کیا گیا ہے۔

ان معاہدوں کے علاوہ ہندوستان بھی امریکی ریاست اوہائیو اور کولوراڈو میں جدید سولر سسٹم میں سرمایہ کاری کرے گا۔ ان منصوبوں کے علاوہ امریکی شہر سیئیٹل اور کئی دوسرے شہروں میں بھارتی قونصل خانے کھولے جائیں گے۔ اس کے علاوہ بھارت میں احمد آباد اور بنگلور میں امریکی قونصل خانے کھولے جائیں گے۔ نیز اب بھارتی شہریوں کو (H-1B-VISA) کی تجدید کے لیے بھی امریکہ سے باہر نہیں جانا پڑے گا۔
یاد رہے بھارت کی آبادی تقریباً ڈیڑھ ارب سے بڑھ چکی ہے۔ اب یہ آبادی کے لحاظ سے چین سے بھی بڑا ملک بن چکا ہے۔ بھارت کے قومی خزانے کے ذخائر تقریباً 6 ارب ڈالر سے تجاوز کر چکے ہیں۔ بھارت کی آئی ٹی ایکسپورٹس تقریباً 150 ملین ڈالر ہے جو سعودی عرب کے تیل سے بھی زیادہ ہے۔ 1991 میں بھارت بھی تقریباً ڈیفالٹ کی طرف گامزن تھا لیکن بھارتی وزیر اعظم من موہن سنگھ نے ایک دفعہ پھر نئی اقتصادی ترجیحات کا تعین کیا اور بھارت ایک دفعہ پھر اقتصادی اصلاحات کی بنیاد پر اپنے پاؤں پر کھڑا ہو گیا۔

یہ بات اب انتہائی اہمیت کی حامل ہے کہ امریکہ اور بھارت کے درمیان دو طرفہ تجارت کا حجم تقریباً 191 ملین ڈالر سے بھی تجاوز کر چکا ہے اور بھارت دنیا کی تیسری بڑی معیشت بن چکا ہے۔ بھارت کی ترقی کی شرح تقریباً 8 فیصد کے لگ بھگ ہے اور بھارت کئی اہم قومی اور بین الاقوامی تنظیموں کا مؤثر ممبر بن چکا ہے۔ بھارت کوواڈ، برکس، جی 20، آئی 2، یو 2، یعنی اسرائیل، بھارت، امریکہ اور متحدہ عرب امارات کے اتحاد کا بھی حصہ ہے۔ اس سال بھارت شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہ اجلاس کی بھی صدارت کرے گا۔

بھارت امریکہ سٹریٹجک شراکت داری سے پاکستانی حلقوں میں شدید تحفظات پائے جاتے ہیں لیکن ہمیں یہ بات یاد رکھنی چاہئیے کہ عالمی سیاست میں نہ کوئی مستقل دوست ہوتا ہے اور نہ ہی کوئی مستقل دشمن بلکہ صرف اور صرف قومی مفادات ہی مستقل ہوتے ہیں۔

دفاعی مبصرین کے مطابق دفاعی شعبے میں امریکہ کا بھارت کے ساتھ غیر معمولی تعاون جنوبی ایشیا میں طاقت کے توازن کو بگاڑنے کا سبب بنے گا۔ دراصل یہ تعاون جنوبی ایشیا، بحر ہند اور پیسفک میں چین کے بڑھتے اثر و نفوذ کو کم کرنے کی امریکی پالیسی کا حصہ ہے۔

یاد رہے چین امریکہ کشیدگی کو کم کرنے کے لیے امریکی وزیر خارجہ بلنکن پہلے ہی چین کا دورہ کر چکے ہیں۔ چین کی جانب سے امریکہ کے خلاف سفارتی محاذ پر شدید ردعمل کے جواب میں سیکرٹری بلنکن نے ایک بار پھر امریکہ کی ون چائنہ پالیسی کے تسلسل کا ذکر کیا۔ چین امریکہ تعلقات میں حالیہ کشیدگی اس وقت دیکھنے کو ملی جب امریکہ نے چین پر خلائی غبارے کے ذریعے امریکی فضائی حدود میں جاسوسی کا الزام لگایا۔ تعلقات میں مزید بگاڑ اس وقت دیکھنے کو ملا جب امریکی صدر جوبائیڈن نے چین کے صدر کو ڈکٹیٹر کے لقب سے نوازا۔

چین بھی امریکی جارحانہ اقدامات کے نتیجے میں بحر ہند، ایشیائی پیسفک اور کوریائی جزیرے تک اپنے اثر و نفوذ کو بڑھاتا چلا جا رہا ہے۔ نیز چینی بحریہ اور فضائیہ ہمہ وقت جزیرہ نما تائیوان کو امریکی اثر و نفوذ سے محفوظ رکھنے کے لیے تیار ہیں۔

چین مشرق وسطیٰ میں بھی اپنے اثر و رسوخ کو بڑھاتا چلا جا رہا ہے۔ اس کا واضح ثبوت چین کے صدر کا سعودی عرب کا کامیاب دورہ تھا۔ نیز حال ہی میں چین نے ایران اور سعودی عرب میں سفارتی تعلقات کی بحالی میں نہایت اہم کردار ادا کیا۔

مشرق وسطیٰ میں تیل پیدا کرنے والے ممالک کے درمیان تنازعات کسی بھی صورت میں چین کی بڑھتی معیشت کے لیے فائدہ مند نہیں ہو سکتے۔ دراصل چین مستقبل قریب میں اپنی بڑھتی ہوئی معیشت کے لیے متبادل ایندھن کے ذخائر کے لیے عرب ممالک اور خلیج فارس میں اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے عملی اقدامات کر رہا ہے۔ مشرق وسطیٰ میں عرب اسرائیل تعلقات کی بحالی اور یمن جنگ رکوانے کے ذریعے مفادات کے حصول کے لیے عملی اقدامات کر رہا ہے۔

کچھ مبصرین کے مطابق مشرق وسطیٰ میں 'ابراھام' کے بعد شاید اب امریکہ کی اہمیت خطے میں عربوں کے نزدیک بھی کم ہو رہی ہے۔ چونکہ کئی عرب ممالک نے اسرائیل کو تسلیم کر لیا ہے اور شاید مزید عرب ممالک اپنے اسرائیل کے ساتھ تعلقات پر نظر ثانی کر رہے ہیں۔

ایران اور سعودی عرب میں سفارتی تعلقات کی بحالی کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ چین اب فلسطین اور اسرائیل کے درمیان بھی پائیدار امن کے لیے اپنا کلیدی کردار ادا کرنا چاہتا ہے۔ اس کا واضح ثبوت فلسطین کے صدر محمود عباس کا بیجنگ کا شاندار تاریخی دورہ تھا جہاں انہیں ریڈ کارپٹ استقبالیہ دیا گیا۔ دورے کے دوران چین نے محمود عباس کو فلسطین اتھارٹی کے لیے اپنی بھرپور مالی امداد جاری رکھنے کی یقین دہانی کرائی۔

اگر بھارت کی خارجہ پالیسی کا جائزہ لیا جائے تو بھارت نے نا صرف روس بلکہ مشرق وسطیٰ میں بھی عرب ممالک اور اسرائیل کے ساتھ بھی اپنے تعلقات میں توازن قائم کیا ہوا ہے۔ اس کی ایک واضح مثال آئی 2، یو 2 ہے۔ آئی 2، یو 2 میں بھارت کا انتہائی اہم کردار ہے۔

امریکہ کے دورے سے واپسی پر بھارتی وزیر اعظم نے مصر کا بھی کامیاب دورہ کیا۔ یہ کسی بھی بھارتی وزیر اعظم کا 26 سال کے بعد مصر کا کامیاب دورہ تھا۔ دورے کی خاص بات مصر کے وزیر اعظم کا بذات خود بھارتی وزیر اعظم کا استقبال کرنا تھا۔ مصر کے دورے کے دوران بھارتی وزیر اعظم نے قاہرہ میں تاریخی جامع مسجد کا بھی دورہ کیا۔ اس کے علاوہ بھارتی وزیر اعظم کو مصر کا سب سے بڑا سول ایوارڈ 'آرڈر آف دی فائل' بھی دیا گیا۔

یاد رہے بھارت کے یوم جمہوریہ پر مصر کے صدر کو بطور مہمانِ خصوصی دعوت دی گئی تھی۔ دورے کے دوران مصر میں بڑی تعداد میں بھارتی بوہرہ مسلم کمیونٹی نے بھارتی وزیر اعظم کا استقبال کیا۔

دیکھا جائے تو تاریخی اعتبار سے بھارت اور مصر کے تعلقات نہایت اہمیت کے حامل رہے ہیں۔ مصر کے سابق صدر جمال عبدالناصر اور سابق بھارتی وزیر اعظم نہرو اور صدر سوئیکارنو کو تیسری دنیا کا نمائندہ لیڈر کے طور پر ماضی میں تسلم کیا جاتا رہا ہے۔ دراصل ماضی میں یہ تینوں سربراہان مملکت و حکومت غیر جانبدار ممالک کی تحریک کے روح رواں سمجھے جاتے تھے۔

بھارتی وزیر خارجہ ڈاکٹر جے شنکر بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے دورہ امریکہ کو اندرا گاندھی، راجیو گاندھی اور منموہن سنگھ کے دورہ امریکہ سے بھی زیادہ کامیاب قرار دے چکے ہیں۔ یاد رہے کہ سابق بھارتی وزیر اعظم منموہن سنگھ کے زمانے میں ہی بھارت اور امریکہ کے درمیان 'سول نیو کلیئر پروگرام' کو حتمی شکل دی گئی تھی۔

روس میں صدر پوٹن کے خلاف مسلح بغاوت دراصل دنیا کے کثیر قطبی نظام کے خلاف ہی ایک بڑا قدم تھا۔ مسلح گروپ ویگنار کی بغاوت سے صدر پوٹن کی حکومت کو شدید خطرات لاحق ہو گئے تھے۔ صدر پوٹن کے خلاف مسلح بغاوت سے دراصل روس کے اتحادی ممالک میں بھی شدید تشویش کی لہر دوڑ گئی۔ چونکہ صدر پوٹن دراصل جدید دینا کے کثیر القطبی نظام کو مضبوط اور مربوط رکھنے میں ایک طاقت ور، اہم اور کلیدی کردار ادا کر رہے ہیں۔ مسلح گروپ ویگنار کی بغاوت کے فوری بعد ترک صدر نے فوری طور پر صدر پوٹن کو اپنی مکمل حمایت کا یقین دلایا۔ دراصل روسی صدر پوٹن مغربی سامراجی اور استعماری نظام کے خلاف جدید دینا میں ایک بڑی آواز سمجھے جاتے ہیں۔ صدر پوٹن خلیج فارس اور خصوصاً مشرق وسطیٰ میں روس کے اثر و نفوذ کو بڑھانے میں اب تک نہایت کامیا ب دکھائی دیتے ہیں۔ OPEC+ میں بھی روس کا کردار نہایت اہم ہے۔ بعض مبصرین صدر پوٹن کی حکومت کے خاتمہ کو دراصل کثیر القطبی نظام کے لیے ایک بڑا خطرہ سمجھتے ہیں۔ چونکہ کثیر القطبی نظام نے ہی دینا میں طاقت کے توازن کو قائم کیا ہوا ہے۔

نہایت افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ جب بھارت امریکہ کے ساتھ سٹریٹجک شراکت داری کو واشنگٹن میں عملی جامہ پہنا رہا تھا تقریباً انہی دنوں پاکستانی وزیر اعظم فرانس میں آئی ایم ایف کی ایم ڈی سے قرض بحالی پروگرام کے لیے اپنی انتہائی سنجیدہ کوششوں میں مصروف تھے۔ بالآخر عید قرباں پر پاکستانیوں کے لیے شاید یہی ایک بڑی خبر تھی جب آئی ایم ایف نے تین ملین ڈالرکا سٹاف لیول معاہدہ حکومت پاکستان سے کرنے کی یقین دہانی کرا دی۔ لیکن ہمیں پھر بھی یاد رکھنا ہو گا کہ دنیا کی عظیم قومیں محض قرضوں کے بل بوتے پر ترقی نہیں کرتیں بلکہ ممالک کے درمیان دیریا تعلقات کی بنیاد پر امداد اور قرضے نہیں بلکہ باہمی تجارت ہی ہوا کرتی ہے۔

امید واثق ہے کہ پاکستانی پالیسی ساز بھی ہنگامی بنیادوں پر ملک کی داخلی اور خارجی صورت حال کا سنجیدگی سے جائزہ لیں گے تا کہ پاکستان اپنے پاؤں پر کھڑا ہو سکے۔

ملک اس وقت شدید اندرونی و بیرونی خطرات سے دوچار ہے۔ سیاسی عدم استحکام مزید معاشی عدم استحکام کا باعث بن رہا ہے۔ ہمیں یہ یاد رکھنا ہو گا کہ ملک کا مستقبل صرف اور صرف جمہوریت سے ہی وابستہ ہے۔ لہٰذا جمہوری عمل کو تقویت دینے کے لیے کمزور طبقوں خصوصاً خواتین، اقلیتوں اور چھوٹے صوبوں کو بھی اہم پالیسی ساز فیصلوں میں جگہ دینا ہو گی۔ اس سیاسی شراکت داری سے ہی دیرپا سیاسی ترقی ہو گی۔ لہٰذا سیاسی عمل میں ہر ممکن طریقے سے تمام طبقات کو شامل کیا جائے۔

آج ملکی معیشت تباہی کے دہانے پر ہے۔ فی کس آمدنی انتہائی کم ہے۔ نیز بیرونی سرمایہ کاری کے مواقع مخدوش ہیں۔ تجارتی خسارہ بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ آئی ایم ایف معاہدے کے بعد عوام مزید ٹیکسوں اور مہنگائی کے بوجھ تلے دبتے چلے جا رہے ہیں۔ زراعت اور صنعت تباہی کے دہانے پر ہیں۔ مہنگائی کا تناسب تقریباً 39 فیصد ہے اور اشیائے خور و نوش کی قیمتوں میں تقریباً 50 فیصد تک اضافہ دیکھنے کو آیا ہے۔

افسوس صد افسوس! شاید آئی ایم ایف معاہدے سے پاکستان تو شاید ڈیفالٹ ہونے سے بچ گیا ہے لیکن پاکستانی غریب عوام مکمل طور پر ڈیفالٹ کر چکے ہیں۔ آبادی کا ایک بڑا حصہ کسی بھی طور پر ٹیکس دینے کو تیار نہیں اور نہ ہی کسی بھی صورت میں اپنی مراعات اور غیر ضروری اخراجات کم کرنے کے لیے تیار ہے۔

یوں معلوم ہوتا ہے کہ شاید اب دوست ممالک بھی پاکستان کو اب مزید مالی معاونت دینے سے گریزاں ہیں۔ ماہرین کے مطابق آئی ایم ایف کا 9 ماہ کا سٹینڈ بائی معاہدہ مہنگائی کا ایک اور بڑا طوفان لانے والا ہے جس سے عوام کے لیے شاید بنیادی اشیائے زندگی بھی تقریباً خریدنا ناممکن ہو گا۔ نیز ملک میں جاری سیاسی عدم استحکام مزید معاشی عدم استحکام اور غربت میں اضافے کا سبب بنے گا۔

اب وقت آ چکا ہے کہ ملک کی داخلی و خارجہ پالیسی پر سنجیدہ طریقے سے غور کیا جائے۔ آج ضرورت اس امر کی ہے کہ خصوصاً خارجہ پالیسی میں معیشت کو بنیاد بنایا جائے اور بیرون ملک پاکستانی سفارت خانوں کو متحرک کیا جائے اور پاکستانی مصنوعات کی عالمی منڈیوں تک رسائی کو ممکن بنایا جائے تا کہ عالمی برادری میں پاکستان بھی اپنا کھویا ہوا مقام جلد حاصل کر سکے۔