Get Alerts

سقوط ڈھاکہ اور موجودہ پاکستان ۔۔۔۔!

سقوط ڈھاکہ کے 53 سال۔۔۔کیا ہمارے پاؤں الٹے ہیں ؟

سقوط ڈھاکہ اور موجودہ پاکستان ۔۔۔۔!

 عباس تابش کا شعر ہے کہ ہمارے پاؤں الٹے تھے ۔۔۔فقط چلنے سے کیا ہوتا !یہ الفاظ پاکستانی ریاست پر عین مصدق آتے ہیں جب بھی بات سقط ط ڈھاکہ کی چل نکلتی ہے۔ سقوط ڈھاکہ اس لیے بھی موجودہ حالات کے تناظر میں اہمیت رکھتا ہے کیونکہ آج بھی ریاست انہی مسائل سے دوچار ہے جس کا سامنا 1971 میں مشرقی پاکستانی کی علیحدگی کے وقت تھا ۔ کیا پاکستان نے بطور ریاست سانحہ مشرقی پاکستان سے کوئی سبق سیکھا ، آخر کیا وجہ ہے کہ 53 سال گزرنے کے باوجود ریاست  عوامی مینڈیٹ کو تسلیم نہ کرنے کی روش  پر آج بھی قائم ہے ؟ مقبول عوامی لیڈروں کی نظر بندیوں ، مقدمات ، جیلوں کی صعبتوں اور قاتلانہ حملوں کی کوششوں نے ریاست میں جمہوریت کو پڑوان نہیں چڑھنے دیا بلکہ عوام میں نفرت کو پڑوان چڑھایا  ۔ پاکستان بدقسمت ملک ہے  جسے مسلسل  چار مارشل لاؤں کا سامنا کرنا پڑا جس کی مثال تیسری دنیا کے کسی اور ملک نے میں نہیں ملتی  ۔ یہ پاکستانی عوام کا جمہوریت  کیساتھ رومانس ہی تھا  جس نے عوامی لیڈروں کو بھاری مینڈیٹ دے کر منتخب ایوانوں میں پہنچایا تاکہ وہ ان پسے ہوئے طبقات کی نمائندگی کرسکیں مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ بعض دفعہ انہی جمہوری حکمرانوں نے اقتدار کی غلام گردشوں میں گم ہو کر عوام کو بھلا دیا اور اقتدار کی رسہ کشیوں میں ایسے مگن ہوئے کہ ان کی آنکھیں اس وقت کھلیں جب  اقتدار ان کے سامنے ریت کی دیوار کی طرح کسک گیا اور پھر وہ اقتدار سے بے دخل ہوکر دوبارہ عوام میں جانے پر مجبورہوئے ، جہاں کبھی انہوں نے "مجھے کیوں نکلا ؟" تو کبھی "حقیقی آزادی/امریکی مداخلت " کے بیانیئے تشکیل دئیے اور اسٹیبلشمنٹ کیخلاف صف آراء ہوگئے !

یہ سلسلہ دو دہائیوں سے جاری ہے ، جس میں اسٹیبلشمنٹ نے بھی اپنا کردار خوب ادا کیا، اصغر خان کیس کا فیصلہ ایک کلا سیک کی حیثیت رکھتا ہے ، کیسے انٹیلی جنس اداروں نے جمہوری حکومتوں کی بساط لپیٹنے  باقاعدہ "سیاسی سیل " بنا کر مخالفین میں پیسے تقسیم کیے گئے  تاکہ مقبول عوامی رہنماوں کو اقتدار سے دور کیا جاسکے ۔

 موجودہ حالات میں عمران خان مقبولیت کی انتہا ء کو چھرہی ہے مگر ظاہر ہے جب تک اسٹیبلشمنٹ کی مقبولیت حاصل نہ ہو اقتدار کا دروازہ نہیں کھل سکتا۔ "پراجیکٹ عمران" کا خاتمہ اسی وقت ہوگیا تھا کب نومبر 201 میں آبپارہ میں نئی تعیناتی کا تناز ع کھڑا ہوا تھا ، اسی وقت اسٹیبلشمنٹ نے عمران خان کی حمایت سے ہاتھ کھینچ لیے تھے ۔ لیکن تاریخ اپنا تاستہ خود بناتی ہے اور وہ یہ ہے کہ جب کسی 'پراجیکٹ ' کی ملکیت عوام اپنے ہاتھ میں لے لے تو پھر  یہ پراجیکٹس رہنماوں کو ایسی قوت دیتے ہیں کہ جس سےاقتدار کے ایوانوں میں ایسا ارتعاش پیدا ہوتا ہے  جو سب کو بہا  کر لیجاتا ہے اور  طاقت کے مراکز اپنا توازن کھو بیٹھتے ہیں ، اسی ملکیت کے باعث ہی عوامی لیڈر وقت کی کسی بھی طاقت سے ٹکرا جاتے ہیں ۔ سقوط ھاکہ ریاست کو خود احتسابی کی دعوت دیتا ہے  لیکن شرط یہ ہے کہ تاریخ کو حقائق سے ہٹ کر صرف 'قومی مفاد' کی عینک سے  نہ دیکھا جائے ورنہ پھر تاریخکا سبق یہی ہے کہ جو قومیں اپنا ماضی بھلا دیتی ہیں ، پھر تاریخ بھی انہیں  بھلا دیتی ہے ۔

سقوط ڈھاکہ کا سبق یہی ہے کہ جس ملک کی فوج سیاست میں ملوث ہوجاتی ہے وہ پھر لڑنے کے قابل نہیں رہتی۔جنگیں ٹینکوں ، بارود اور اسلحے کے زور  پر نہیں بلکہ عوام کے زور بازو پر لڑ جاتی ہے !

سقوط ڈھاکہ پر آج تک ریاست جو 'مطالعہ ٌپاکستان 'عوام کو پڑھاتی رہی وہ زمینی حقائق سے کوسوں دور ہے ۔ نوجوان نسل  کے سامنے ہمارے  نام نہاد دانشور تاریخ کو توڑ مروڑ کر پیش کرتے رہے اور آج اس کانتیجہ یہ نکلا ہے کہ معاشرے میں شدید طبقاتی تقسیم پیدا ہوچکی ہے ،اختلاف رائے کو برداشت کرنے کی قوت باقی نہیں رہی ، مخالف کے ، شناخت کا بحران معاشرے کے ہر طبقے میں نمایاں نظر آتا ہے ، ایک ہی ملک میں متوازی تعلیمی نظام رائج ہیں ، اشرافیہ کے بچوں کیلئے جدید علوم کے وسائل دستیاب ہیں جبکہ ریاست نے  غریب   کو اسی  روایتی نطام تعلیم کے رحم و کرم پر چھوڑ رکھا ہے جو صرف تنگ نظری ، قدامت پسندی اور مذہبی بنیاد پرستی کو پڑوان چڑھانے کا سبب بن رہا ہے ۔اس تحریر ایک کوشش کی  گئی ہے کہ سقوط ڈھاکہ پر گئے غیر جانبدرانہ لٹریچر پر ایک نظر ڈالی جائے تاکہ عوام کو حقائق کی تلاش میں مدد کی جاسکے ۔

ایوب خان نے ہی سقوط ڈھاکہ کی بنیاد رکھ دی تھی ۔۔۔

ریاست جو دہائیوں سے یہ بیانیہ نئی نسل  میں پڑوان چڑھارہی ہے کہ بنگالی ہی ہمارے ساتھ نہیں رہنا چاہتے تھے ، ان   کی زبان  ، اقدار سب مختلف تھا ، لیکن حقائق کی گرد اٹھائی جائے  تو معلوم ہوگا کہ بنگالی تو ساتھ رہنا چا ہتے تھے مگر اس وقت کی مغربی پاکستان کی اشرافیہ ہی انھیں اپنے ساتھ رکھنے سے انکاری ہوچکی تھی ۔ایوب خان کا 1958 کا مارشل لاء ہی مشرقی پاکستان میں بنگالیوں میں احساس محرومی کی بنیاد رکھنے کا باعث بنا ، ایوب خان کے اپنے ساتھی میجر جنرل شیر علی خان پٹوتی اپنی  کتاب The story of soldiering and politics in India and Pakistan” انکشاف کر چکے ہیں  کہ جنرل ایوب خان نے مارشل لاء لگانے کا منصوبہ بہت پہلے بنالیا تھا ،  میجر جنرل پٹوتی نے  جنرل ایوب کو کئی بار سمجھایا کہ ایسے نہ کریں ، جنرل ایوب کا جواب ہوتا تھا کہ:( صفحہ 157)

 “Let me handle politics and you all keep out of it, the bloody civilians and politicians are so inefficient, ccorrupt and useless. But I always stressed and argued back they are our brothers and cousins belonging to the same flak” جنرل پٹوتی  ایوب خان کو سمجھاتے ہیں  اور لکھتے ہیں کہ :  

 I always stressed that it is always dangerous to play politics in uniform۔ جنرل پٹوتی کی اس وقت ایوب خان کو دی گئی نصحیت کے یہ الفاظ آج کے پاکستان پر بھی سو فیصد مصدق آتے ہیں۔(1) 

ایوب خان کے اقتدار کا عروج و زوال 

جنرل ایوب خان نے پہلے 1956 کا ئین توڑا پھر 1957 میں نیاآئین لانے کا منصوبہ بنایا تاکہ پارلیمانی نظام کی جگہ صدارتی نظام کی بنیاد رکھی جاسکے ، جنرل ایوب کے اس منصوبے کو بے نقاب کرتے ہوئے اس وقت کے ایوب کابینہ کےبنگالی  وزیرقانون جسٹس محمد ابراہیم اپنی کتاب  Diaries of Justice Muhammad Ibrahim"میں  لکھ چکے ہیں کہانھوں نے 1962 میں ہی ایوب خان کو مارشل لاء لگانے کے بعد سمجھانے کی کوشش کی کہ صدارتی ائین پاکستان میں نافذ نہ کرنا یہ پاکستان کو توڑ دے گا ، یہ حیران کن ہے کہ ایک بنگالی وزیر قانون ایوب خان کو سمجھانے کی کوشش کرتا رہا لیکن ایوب خان تو اپنے قتدار کو طول دینے کیلئے اندھا ہوچکا تھا۔ جب صدر ایوب خان کی سمجھ میں  یہ بات نہ آئی تو  اس کے اپنےوزیر قانون(جسٹس محمد ابراہیم ) نے ایوب خان سے یہ کہہ کر کابینہ سے استعفیٰ دے دیا کہ "میں پاکستان توڑنے کی اس سازش کا حصہ نہیں بن سکتا " (2)

پھر تاریخ نے دیکھا کہ ایوب خان نے ایک پنجابی جج (جسٹس  محمد منیر )کو اپنا وزیر قانون بنا یا ۔ جسٹس منیر وہی جج ہیں جنہوں نے پاکستان میں نظریہ ضرورت ایجاد کیا ۔اپنی کتاب From Jinnah to Zia " میں جسٹس منیر لکھتے ہیں ایک دن جنرل ایوب نے مجھے بلایا اور کہا کہ "یہ بنگالی  ہر وقت(اسمبلی اجلاسوں میں )شکایت کرتے رہتے ہیں کہ ہمیں حقوق نہیں مل رہے ان سے  میری جان چھڑاؤ"ایوب خان کی یہ 'تجویز ' لیکر جسٹس منیر ایک بنگالی وزیر رمیز الدین کے پاس گئے تاکہ  ایوب خان کی پاکستان توڑنے کی 'تجویزپر' مذاکرات' کیے جاسکیں ۔ صفحہ 93 پر  جسٹس منیر مزید لکھتے  ہیں کہ:"”Oneday I was talking to minister Mr. Ramizuddin who had been a minister in Bengal, I approached the matter to him, his reply was prompt and straight, he asked me: “whether I was suggesting succession” I said yes, or something like it as confederation or more autonomy, he said: “look , here we are the majority province and it’s for the minority province to succeed, because we are Pakistan”, and complains in the assembly continued as before”۔(3)

  یہ ثابت کرتا ہے کہ اس وقت جسٹس منیر (جو ایوب خان کی کابینہ میں وزیر قانون تھے) صدر اور اور اسکے وزیر قانون ملکر کر پاکستان توڑنے کی سازشوں میں مصروف تھےاور بنگالیوں سے پاکستان توڑنے کیلئے باقاعدہ' مذاکرات 'کررہے تھے ۔

پھر تاریخ نے دیکھا کہ ایوب خان نے قائد اعظم کی بہن فاطمہ جناح کوجنوری 1965 کےصدارتی الیکشن  میں دھاندلی کے ذریعے ہروایا (یاد رہے کہ اس وقت  فاطمہ جناح کے مشرقی پاکستان میں مجیب الرحمن ہی  چیف پولنگ ایجنٹ تھے )۔  نومبر 1968 میں صدر ایوب خان کیخلاف عوامی تحریک میں شدت آگئی ،ایوب خان نے اپنے غروب ہوتے اقتدار کو بچانے کیلئے فروری 1969میں اپوازیشن کو مذاکرات کی دعوت بھی دی ، گول میز کانفرنس بھی بلائی گئی مگر یہ مذاکرات کامیاب نہ ہوسکے  جس کے نتیجے میں میں 24 مارچ 1969 کو ایوب خان نے فوج کے کمانڈر انچیف  جنرل یحییٰ خان  کو ملکی امور سنبھالنے کیلئے خط لکھا اور 25 مارچ 1969 میں جنرل یحییٰ خان  نے ملک میں مارشل لاء نافذ کرکے 1962 کا آئین منسوخ کردیا ۔۔۔ اور پھر یہیں سے تاریخ کا وہ سیاہ دور شروع ہوا جس میں پاکستان دولخت ہوگیا ۔ 

 تحریر: ارسلان سید 

ارسلان سید گذشتہ 8 سالوں کے دوران میڈیا کے کئی بڑے اداروں میں بطور پروڈیوسر کرنٹ افئیرز ذمہ داریاں انجام دے چکے ہیں۔ صحافتی اصولوں کی پاسداری، جمہوریت اور عوامی صحت، انسانی حقوق ان کے پسندیدہ موضوعات ہیں۔