Get Alerts

ڈاکٹر شاہنواز کنبھر کا قتل؛ پھولوں کے ہار کسی کے تھے، پہن کوئی اور گیا

ایس ایس پی آصف رضا کے خطاب میں مشتعل ہجوم کی ہمت افزائی کے لیے کافی مواد موجود تھا۔ جنونیوں نے الزام میں آئے ہوئے ڈاکٹر کے نجی اسپتال میں توڑ پھوڑ کی۔ انہوں نے اسپتال کا فرنیچر نکال کر روڈ پر رکھا اور اس کو آگ لگا دی۔ یہاں تک کہ پولیس موبائل کو بھی جلا دیا۔

ڈاکٹر شاہنواز کنبھر کا قتل؛ پھولوں کے ہار کسی کے تھے، پہن کوئی اور گیا

عمر کوٹ اور میرپور خاص سندھ میں 17 ستمبر سے 19 ستمبر 2024 کے درمیان جو کچھ ہوا اس نے سندھ کا دنیا بھر میں تعارف بدل دیا ہے۔ یہ تقریباً 48 گھنٹے سندھ کی پانچ ہزار سالہ تاریخ و تہذیب کے مثبت چہرے کو مسخ کرنے والوں کے تھے۔ اس دوران انسانی آزادی، سندھ کی خوشحالی و خودمختاری اور دلتوں کے حقوق کی سیاسی و ادبی جنگ لڑنے والی ممتاز شخصیات عبدالواحد آریسر، ماما جمن دربدر اور حلیم باغی کا عمر کوٹ وحشت اور جنون کے قبضے میں رہا۔

سول اسپتال عمر کوٹ میں تعینات ڈاکٹر شاہنواز کنبھر کے مبینہ فیس بک اکاؤنٹ پر گستاخانہ مواد کے الزامات سے آنے والے ردعمل نے پورے ریاستی نظام اور معاشرے کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔

دو دن تک عمر کوٹ شہر پر اشتعال پسند عناصر کا قبضہ رہا۔ ایس ایس پی عمرکوٹ نے اشتعال پسندوں کو گرفتار کرنے کے بجائے ان کے سامنے جارہانہ خطاب کیا جو سوشل میڈیا پر موجود ہے۔ خطاب میں سندھ پولیس کے ضلعی افسر نے جنونیوں کو خوش کرنے کے لیے کہا کہ ہم اس انتظار میں تھے کہ کوئی آزاد شہری آگے آئے اور ایف آئی آر کٹوائے۔ جس وقت ایس ایس پی یہ بات ہجوم کے سامنے کر رہے تھے مبینہ فیس بک اکاؤنٹ پر گستاخانہ مواد ظاہر ہونے کو اس وقت 24 گھنٹے گزر چکے تھے لیکن کسی شہری نے ایف آئی آر درج نہیں کروائی اور بقول ایس ایس پی کے وہ ایسا شہری تلاش کر رہے تھے یا اس کا انتظار کر رہے تھے جو آ کر ایف آئی آر درج کروائے۔

اس دوران الزام کی زد میں آئے ہوئے ڈاکٹر کا وضاحتی ویڈیو بیان بھی سوشل میڈیا پر چل چکا تھا۔ ایف آئی آر کے بعد ایس ایس پی مشتعل ہجوم کو خطاب اور خاطری کروانے آئے۔ انہوں نے کہا ملوث ملزم کو پھانسی کی سزا دلوائی جائے گی۔ اس کو کسی صورت چھوڑا نہیں جائے گا۔ مختلف جگہوں پر پولیس کی 6 ٹیمیں روانہ کر دی گئی ہیں۔ ایس ایس پی نے اپنی اس گفتگو میں دو بار ملزم کو 'ملعون' بھی کہہ کر پکارا۔

ایس ایس پی آصف رضا کے خطاب میں مشتعل ہجوم کی ہمت افزائی کے لیے کافی مواد موجود تھا۔ جنونیوں نے الزام میں آئے ہوئے ڈاکٹر کے نجی اسپتال میں توڑ پھوڑ کی۔ انہوں نے اسپتال کا فرنیچر نکال کر روڈ پر رکھا اور اس کو آگ لگا دی۔ یہاں تک کہ پولیس موبائل کو بھی جلا دیا۔

اس دوران ملزم کے ورثا کے مطابق عمر کوٹ پولیس نے ملزم کے والد ریٹائرڈ استاد کو گرفتار کیا، خاندان کے افراد پر دباؤ ڈالا اور مقامی بااثر سیاسی شخصیات کی ضمانت پر ملزم نے کراچی میں خود کو عمر کوٹ پولیس کے حوالے کر دیا۔ ملزم عمر کوٹ پولیس کی تحویل میں تھا مگر اچانک میرپور خاص سے خبر آتی ہے کہ ملزم سندھڑی روڈ پر مارے گئے ہیں۔ عمر کوٹ پولیس سے میرپور خاص پولیس کو ملزم کی حوالگی کیسے اور کس کے کہنے پر ہوئی؟ اس سوال کو جھوٹے پولیس مقابلے کا بنیادی سوال قرار دیا جا رہا ہے۔

یہ بات عمر کوٹ سے تعلق رکھنے والے پاکستان پیپلز پارٹی کے ممبر صوبائی اسمبلی و صوبائی وزیر تعلیم و معدنیات سید سردار علی شاہ نے واقعے کے بارے میں سندھ اسمبلی میں اپنے خطاب میں بھی بتائی ہے جو ریکارڈ پر موجود ہے۔

جنونیوں نے ورثا کو لاش بھی دفنانے کی اجازت نہیں دی۔ وہ لاش کار میں چھپائے 40 کلومیٹر کے راستے پر پھرتے رہے۔ ایک جگہ سے دوسری جگہ جا کر دفنانے کی کوشش کی۔ آخرکار جنونیوں کے جتھوں نے لاش جلا کر اپنا کلیجہ ٹھنڈا کیا۔ 'میرے ڈاکٹر کا ظالموں نے کلیجہ جلایا، لاش کی بے حرمتی کی، ہمیں چہرہ تک دیکھنے نہیں دیا'، ڈاکٹر شاہنواز کی ماں نے سندھ ہیومن رائٹس کمیشن کے وفد کو روتے ہوئے بتایا۔

ملزم کے مارے جانے کی خبر آتے ہی سندھڑی تھانے کے ایس ایچ او نیاز کھوسو، ایس ایس پی میرپور خاص کیپٹن (ر) اسد رضا اور ڈی آئی جی میرپور خاص جاوید جسکانی کی تصاویر اور ویڈیوز سوشل میڈیا پر چھا گئیں جن میں ان کو پھولوں کے ہار پہنائے جا رہے ہیں اور مبارکبادیں دی جا رہی ہیں۔ تھرپارکر سے منتخب پیپلز پارٹی کے ممبر قومی اسمبلی امیر علی شاہ جیلانی بھی ڈی آئی جی کو مبارک باد دیتے ہوئے ڈی آئی جی آفیس میرپور خاص نظر آتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ انہیں بڑی خوشی ہوئی ہے۔

ڈی آئی جی اور ایس ایس پی کو جنونیوں نے گلاب کے پھولوں سے بنائے ہوئے ریڈ کارپٹ سے خراج پیش کیا۔ ناول نگار اور شاعر جاوید جسکانی نے وردی میں ان پھولوں پر اپنے بوٹ رکھے اور گلابوں کو لتاڑنے کے وہ مناظر دنیا دیکھتی رہی۔

اس دوران میرپور خاص سے سندھڑی پولیس تھانے کے ایس ایچ او کا بیان میڈیا میں سامنے آیا جس نے جھوٹے پولیس مقابلے کا راز فاش کر دیا۔ بیان کے مطابق پولیس نے دو موٹر سائیکل سواروں کو سندھڑی روڈ پر تلاشی کے لیے روکا، وہ نہیں رکے اور پولیس پر فائرنگ کر دی جس میں اپنے ہی ساتھی کی فائرنگ سے ایک موٹر سائیکل سوار زخمی ہو گیا۔ زخمی کو ہسپتال لایا گیا اور وہ ہسپتال میں دم توڑ گیا۔ مرنے والے کی جیب سے ملنے والے کمپیوٹرائزڈ شناختی کارڈ سے معلوم ہوا کہ وہ شاہنواز کنبھر ہے جس پر عمرکوٹ میں توہین مذہب کا مقدمہ درج ہے۔

ایک طرف میرپور خاص پولیس کا کہنا تھا کہ ملزم اپنے ہی ساتھی کی فائرنگ سے مارے گئے ہیں اور دوسری طرف گلاب کے پھولوں کے میرپور خاص میں ریڈ کارپٹ اور تحائف وصول کیے جاتے رہے۔ اگلے دن سندھ کے وزیر داخلہ نے میرپور خاص کے ڈی آئی جی، ایس ایس پی اور سندھڑی تھانے کے ایس ایچ او سمیت پورے عملے کو معطل کرنے کا سندھ اسمبلی میں اعلان کیا اور مبینہ جھوٹے پولیس مقابلے کی انکوائری کا حکم دیا۔

سندھ ہیومن رائٹس کمیشن کی ٹیم چیئرمین اقبال ڈیتھو کی سربراہی میں مقتول و ملزم کے گاؤں پہنچی۔ مقتول کے والدین نے جب حقائق ان کے سامنے رکھے تو پتہ چلا کہ مقتول ملزم نفسیاتی مسائل کا شکار تھے اور زیر علاج تھے۔ ان کو کراچی کے ایک نفسیاتی اسپتال میں داخل بھی کروایا گیا تھا۔

حقائق سامنے آنے کے بعد سندھ کی سول سوسائٹی کا پولیس کے خلاف شدید ردعمل سامنے آیا ہے۔ کراچی سے کارونجھر تک انصاف کے لیے آوازیں سنائی دے رہی ہیں۔ لوگ ڈاکٹر شاہنواز کے ورثا سے تعزیت کے لیے جا رہے ہیں۔ ڈاکٹر کے والدین کا مؤقف اور میڈیکل رپورٹس سامنے آنے کے بعد یہ واضح ہو گیا ہے کہ گلاب کے پھول کسی اور کا کفن بننے تھے، کسی اور کی آخری رسومات میں استعمال ہونے تھے مگر ان کو اپنے لیے انعام بنا کر پہن کوئی اور گیا۔ انعام میں ملنے والے پھول ہی اب سزا کا سوال بنے ہیں۔

پہلے عام شہری الزامات کی چھان بین کیے بغیر ہجوم میں شامل ہوتے تھے مگر اب یہ کام پولیس کے ایس ایس پی سے لے کر ڈی آئی جی سطح کے وہ پولیس افسران بھی کرنے لگے ہیں جو برطانیہ جیسے ممالک سے ماسٹرز اور فیلوشپ کرنے کا اعزاز رکھتے ہیں۔ انہوں نے بھی اب چوک چوراہے پر اپنی عدالت لگانے کی راہ اختیار کر لی ہے۔ بروقت جج بننے اور مرضی کا فیصلہ کرنے والے پولیس افسران کے اس رجحان سے اس حیرت کدے پر مزید کیا اثرات مرتب ہوں گے وہ آنے والے دن ہی بتائیں گے۔

سندھ کو اس نہج پر پہنچانے میں کس کا ہاتھ ہے، اس سوال کا جواب تلاشنے کے لیے ملزم ڈاکٹر شاہنواز کے قتل میں ملوث خونی ہاتھ تلاش کرنا لازم ہے۔ 

اشفاق لغاری صحافت کے طالب علم ہیں۔ پڑھنا، لکھنا اور گھومنا پھرنا ان کے محبوب مشغلے ہیں۔