Get Alerts

افغانستان سے متصل ضلع کرم میں خونریزی کے پیچھے کس کا ہاتھ ہے؟

اپر کرم یعنی پاراچنار کی شیعہ آبادی نے ان جہادی گروپوں کی اپنے علاقوں میں شدید مزاحمت کی اور بھاری جانی نقصان اٹھایا لیکن طالبان کو اپنے علاقوں میں قدم جمانے کا موقع نہ دیا۔ ایک اندازے کے مطابق اب تک پاراچنار میں 4000 سے زیادہ افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔

افغانستان سے متصل ضلع کرم میں خونریزی کے پیچھے کس کا ہاتھ ہے؟

پارا چنار گذشتہ کئی دہایوں سے قبائلی اور فرقہ وارانہ تصادم کی وجہ سے خوں ریزی کا شکار ہے، لیکن گزشتہ کئی ماہ سے اس میں بد ترین اضافہ دیکھا گیا ہے۔ گذشتہ ہفتے صرف دو دنوں میں دونوں متحارب قبائلی اور فرقہ وارانہ گروہوں کے 80 کے قریب افراد خونریزی کا شکار ہو کر اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ ان میں عورتیں اور بچے بھی شامل تھے۔ پہلے ٹھل پارا چنار روڈ جو قریباً ایک ماہ تک بند رہا وہ بمشکل کھلا تو پارا چنار جانے والی ٹریفک کو قافلوں کی صورت میں پولیس کی نگرانی میں پہنچانے کا انتظام کیا گیا تاکہ پشاور یا ملک کے دوسرے حصوں سے آنے والے افراد کو دہشت گردوں کے حملوں سے محفوظ رکھ کر بحفاظت منزل مقصود تک پہنچایا جا سکے۔

تاہم گذشتہ جمعرات کے روز دہشت گردوں نے دو سو گاڑیوں پر مشتمل قافلے پر حملہ کر کے 43 افراد کو ہلاک کر دیا اور دوسرے روز ہی مخالف گروپ نے ایک گاؤں پر حملہ کر کے دکانوں گھروں کو جلا کر راکھ کر دیا اور اور ان حملوں میں بھی 37 افراد ہلاک ہو گئے اور دہشت گردوں نے کئی افراد جن میں خواتین بھی بتائی جاتی ہیں انہیں اغوا بھی کر لیا۔ آخری خبروں کے مطابق جرگے کے بعد دونوں فریقین سات روز کی جنگ بندی پر آمادہ ہو گئے اور ایک دوسرے کی لاشوں اور مغویوں کا تبادلہ کرنے پر رضا مند ہو گئے ہیں۔ یہ جنگ بندی بھی چند گھنٹوں بعد ہی ختم ہو گئی جب بدھسا کوٹ جو لوئر کرم کا علاقہ ہے وہاں شیعہ اور سنی قبائل میں جنگ شروع ہو گئی۔ ذیل میں ہم تفصیل سے یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ آخر اس طویل ترین تناؤ کی وجہ کیا ہے؟

ضلع کرم اور اس کی قبائلی اور فرقہ وارانہ تقسیم

مئی 2018 میں 25 ویں آینی ترمیم کے ذریعے فاٹا جو وفاق کے زیر انتظام تھا اسے ختم کر کے مختلف اضلاع بنا کر انہیں خیبر پختون خوا میں ضم کر دیا گیا۔ ان میں کرم ایجنسی بھی شامل تھی جسے ضلع کا درجہ دے دیا گیا۔ کرم عموماً دو حصوں میں تقسم کیا جاتا ہے، لوئر اور اپر کرم، جن میں اگر قبائلی تقسیم کو اگر دیکھا جائے تو لوئر کرم میں سنی آبادی اکثریت میں ہے اور یہاں منگل، مقبل، پارہ چمکنی، علیشیر زئی قبائل آباد ہیں جبکہ اپر کرم جو پاراچنار اور افغانستان کی سرحد تک پھیلا ہوا ہے یہاں بنگش اور طوری قبائل آباد ہیں اور شیعہ مسلک سے وابستہ ہیں۔

قبائلی اور فرقہ وارانہ تصادم تاریخی تناظر میں

کرم خاص کر پارا چنار میں آباد قبائل اور شیعہ سنی تناؤ کی تاریخ کا اگر جائزہ لیں تو اس کا آغاز 1930 میں ہوا اور دونوں گروپوں میں زیادہ تر تناؤ محرم یا پھر نوروز ( پرشین نئے سال کے آغاز) پر ہوا کرتا تھا، تاہم 1979 میں ایران میں اسلامی انقلاب کے بعد پاراچنار میں بھی ایران کا اثر و رسوخ بڑھنا شروع ہو گیا اور اس نے مقامی لوگوں کو شیعہ آبادی پر مشتمل 'قراقرم' صوبے کے مطالبے کے لئے حوصلہ افزائی کی تاہم پاکستان کی تاریخ کے بدترین آمر جنرل ضیاء الحق نے اسے کچل دیا۔ ضیاء کی آمریت جو 1977 سے 1988 تک جاری رہی، اس دوران روس نے افغانستان پر اپنا قبضہ جما لیا تھا جس کے بعد افغانستان میں امریکی سی آئی اے نے پاکستان کی مدد سے اور ضیاء کی فوجی حکومت کو استعمال کر کے پاکستان اور افغانستان کے قبائلی گروپوں کے ذریعہ روس کے خلاف جہاد کا اعلان کیا۔ اس جہاد کے ذریعے روس کو شکست تو ہو گئی اور اس کی افواج 1989 میں وہاں سے نکل گیں لیکن افغانستان اور پاکستان آج بھی مذہبی شدت پسندی اور فرقہ واریت سے نہ نکل سکے۔

اپر کرم یعنی پاراچنار کی شیعہ آبادی نے ان جہادی گروپوں کی اپنے علاقوں میں شدید مزاحمت کی اور بھاری جانی نقصان اٹھایا لیکن طالبان کو اپنے علاقوں میں قدم جمانے کا موقع نہ دیا۔ ایک اندازے کے مطابق اب تک پاراچنار میں 4000 سے زیادہ افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔

کرم میں تحریک طالبان اور زینبیون کی کارروائیاں

فاٹا کے دوسرے علاقوں کی طرح کرم میں بھی کئی فوجی آپریشن ہو چکے ہیں تاہم انتہا پسندی یا دہشت گردی اور دہشت گرد تنظیمیں یہاں بھی اپنا تسلط قائم رکھے ہوئے ہیں۔ 2007 سے 2010 کے دوران لوئر کرم میں تحریک طالبان، لشکر جھنگوی، سپاہ صحابہ، لشکر طیبہ، القاعدہ اور حقانی گروپس یہاں موجود رہے ہیں، جبکہ اپر کرم میں کُرم حزب اللہ، مہدی ملیشیا کی کارروائیوں کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔

کُرم کی سٹریٹجک اہمیت، طالبان اور حقانی نیٹ ورک

اپر کرم خاص کر پاراچنار جو بالکل پاک افغان بارڈر پر ہے اور پاکستان سے کابل اور جنوب مشرقی افغانستان تک پہنچنے کے لئے مختصر ترین راستہ فراہم کرتا ہے اور دہشت گرد تنظیموں کو جو زیادہ تر پہاڑی راستوں کو استعمال کرتی ہیں، انہیں تیز ترین اور محفوظ ترین راستہ فراہم کرتا ہے۔

حقانی نیٹ ورک

افغانستان میں طالبان کے ساتھ دوہا مذاکرات کے بعد اگست 2021 میں اشرف غنی کی حکومت کا خاتمہ ہوا اور طالبان نے انتہائی تیزی سے کابل پر قبضہ کر کے حکومت قائم کر لی جس کے بعد افغان جیلوں میں قید تحریک طالبان کے سینکڑوں دہشت گرد آزاد کر دیے گئے جو بلا روک ٹوک پاکستان پہنچے اور اس وقت اپنی کارروائیوں میں ملوث ہو کر مختلف علاقوں میں تسلط کے لئے کوشاں ہیں۔ جبکہ حقانی نیٹ ورک جو ماضی کی اشرف غنی اور حامد کرزئی کی حکومتوں کے لئے بدترین مشکلات پیدا کرتا رہا اور ان کی حکومتوں کا پاکستان سے مطلبہ رہا کہ حقانی نیٹ ورک کے خلاف کارروائی کی جائے اور اس کی حمایت بند کی جائے، تاہم پاکستان کی حکومتیں ان کی حمایت کی تردید کرتی رہیں۔ حقانی نیٹ ورک کا سربراہ سراج الدین حقانی ناصرف افغان حکومت کا حصہ ہیں بلکہ وزیر داخلہ کا اہم ترین قلمدان بھی رکھتے ہیں۔

دہشت گردی اور انتہا پسندی کے معروف محقق جیفری ڈریسلر اور رضا جان نے اپنی تحقیقی رپورٹ میں لکھا ہے کہ حقانی نیٹ ورک افغان جہاد کے دوران بھی پارا چنار کے علاقے میں مقامی قبائل کے درمیان متحرک رہتا تھا اور اب بھی کرم میں یہ موجود ہیں، کیونکہ ان کے اور دوسرے طالبان گروپوں کے خلاف امریکی اور اتحادیوں کی کارروائیوں اور ڈرون حملوں سے بچنے کے لئے انہیں کرم کا علاقہ محفوظ پناہ گاہیں اور کابل اور افغانستان کے شمال مشرقی صوبوں تک محفوظ اور تیز ترین رسائی فراہم کرتا ہے۔

پاراچنار میں ایران کی حمایت یافتہ پراکسی زینبیون

ایرانی پراکسی یا ایران کی حمایت یافتہ زینبیون بریگیڈ کا قیام 2012 یا اس کے بعد بتایا جاتا ہے تاہم اس کا ایران سے باقاعدہ تعلق 2020 میں ایران کی ایلیٹ قدس فورس کے سربراہ جنرل قاسم سلیمانی کی عراق میں امریکی ڈرون حملے میں ہلاکت کے بعد سامنے آیا۔ اس کے قیام کا بنیادی مقصد شام میں اسلامک سٹیٹ اور داعش کی بڑھتی ہوئی قوت کا مقابلہ کرنا تھا اور ساتھ ساتھ شام میں حضرت زین العابدین کے مزار کو تحفظ فراہم کرنا بھی اس کی ذمہ داری تھی۔ زینبیون بریگیڈ کے لئے رضاکاروں کی بھرتی اپر کرم اور پاراچنار سے کی گئی۔ تاہم شام میں اسلامک سٹیٹ پر قابو پانے کے بعد اس کے رضاکار واپس مبینہ طور پر پارا چنار میں قبائلی اور فرقہ وارانہ تصادم اور تشدد میں ملوث بتائے جاتے ہیں۔ مقامی شیعہ آبادی اور علما اس کی تردید کرتے ہیں۔ معروف شیعہ عالم اپنی ایک تقریر میں کہتے ہیں کہ 'ایرانی پراکسی زینبیون کا کوئی وجود نہیں، لیکن اگر ہے تو وہ تو شام میں اسلامک سٹیٹ اور داعش کے خاتمے اور حضرت زین العابدین کے مزار کی حفاظت کے بعد واپس آ گئے اور ان کا ریاست پاکستان کے معاملات سے کیا تعلق؟ دہشت گردی کے معاملات پر تحقیق کرنے اور سابق سینیئر افسر منظر زیدی نے اپنے حالیہ مقالے میں زینبیون برگیڈ کے ایران سے تعلق اور پاراچنار میں تشدد کے واقعات اور طالبان گروپوں کے خلاف کارروائیوں کے تصدیق کی ہے۔

دہشت گردی کے امور کے ایک اور محقق عبد سید جو بی بی سی، سی این این اور دوسرے عالمی نشریاتی اداروں کے لئے دہشت گردی پر رپورٹس پیش کرتے ہیں اور ماہرانہ تبصرہ نگاری کرتے ہیں، ان کے مطابق گزشتہ جمعہ کے روز سنی آبادی پر مشتمل دیہات 'بگن' پر حملے، گھروں دکانوں اور کاروباری مراکز کو جلانے اور قتل عام اور مسجد کے امام کا مبینہ سر تن سے الگ کرنے میں ایرانی 'زینبیون' بریگیڈ اور اس کا کمانڈر تہران طوری ملوث ہے۔ بہرحال ان الزامات کی تحقیق کرنا ضروری ہے۔

ٹھل پارا چنار شاہراہ اور اس کی اہمیت

پشاور اور ملک کے دوسرے حصوں سے پاراچنار کو ملانے کے لئے ٹھل پاراچنار شاہراہ واحد شاہراہ ہے جس کے ذریعے ناصرف عوام آ جا سکتے ہیں بلکہ پارا چنار تک اشیائے ضرورت، ادویات اور تیل ایندھن تک کی فراہمی اسی کے ذریعے ہوتی ہے۔ یہ شاہراہ کوہاٹ سے لوئر کرم کے سنی علاقوں سے ہو کر پاراچنار تک پہنچتی ہے، اس کا کنٹرول حاصل کرنے کے لئے دہشت گرد تنظیمیں اور متحارب قبائل اس پر سے گزرنے والے قافلوں پر حملے کرتے ہیں جس سے ٹریفک معطل ہو جاتی ہے اور اپر کرم کے عوام شدید مشکلات کا شکار ہو جاتے ہیں۔ تاہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ضلعی انتظامیہ، پولیس، ایف سی اور سکیورٹی فورسز یہاں تحفظ دینے میں کیوں ناکام ہیں؟

قافلوں پر حملے اور حکومتوں اور میڈیا کی بے حسی

ملک میں مقتدر اشرافیہ اور کے پی کی صوبائی حکومت ہو یا ن لیگ کی وفاقی حکومت، یا پھر قومی میڈیا، ان کی بے حسی کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ دہشت گردوں کے ہاتھوں 80 سے زائد افراد ہلاک ہو گئے اس کے باوجود صوبائی وزیر اعلیٰ ہو یا ملک کا وزیر اعظم یا وزیر داخلہ، انہیں وہاں جانا تو کیا مذمت کا بیان دینا بھی یاد نہ آیا، حالانکہ اس موقع پر دونوں لیڈروں کو اپنی تمام تر مصروفیت ترک کر کے پاراچنار میں ہونا چاہیے تھا۔ اس دن تحریک انصاف کے بانی کی اہلیہ بشریٰ بی بی کا ایک غیر سنجیدہ بیان جس میں سابق آرمی چیف قمر جاوید باجوہ اور سعودی حکومت پر الزامات لگائے گئے کہ عمران خان کی حکومت گرانے میں یہ ملوث تھے جن کی باجوہ نے تردید کر دی، قومی میڈیا پاراچنار میں دہشت گردی کو بھول کر اس بیان اور اس کے مختلف پہلوؤں کو اجاگر کرتا رہا۔ اینکر اپنے ساتھ تجزیہ نگار بٹھا کر گھنٹوں اس بات پر بحث کرتے دکھائی دیے کہ بشریٰ بی بی کے بیان سے حکومت یا پی ٹی آئی یا پھر پاک سعودی تعلقات کو کیا نقصان یا فائدہ ہو سکتا ہے۔ حالانکہ سب کو اندازہ تھا کہ یہ ایک انتہائی غیر سنجیدہ بیان تھا جس کو 80 سے زائد انسانی جانوں کو بھلا کر اس کو اہمیت دینا میڈیا کی غیرجانبداری پر سوالیہ نشان ہے۔ لیکن اینکرز کے لئے ریٹنگ زیادہ اہمیت بن چکی ہے چاہے وہ ایک غیر سنجیدہ بیان سے ہی کیوں نہ حاصل ہو۔

پاراچنار کے مسئلے کا حل کیا ہو سکتا ہے؟

خراسان ڈائری کے خالق اور ڈائریکٹر نیوز احسان اللہ ٹیپو محسود کے مطابق اس وقت ناصرف خیبر پختونخوا بلکہ بلوچستان شدت پسندوں کی کارروائیوں کی لپیٹ میں ہیں اور سکیورٹی فورسز کو نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے۔ طالبان کے حوالے سے ان کا کہنا ہے کہ طالبان کی حکمت عملی 2021 میں افغان طالبان کی حکمت عملی سے مشابہت رکھتی ہے، جیسے وہ تیزی سے افغانستان میں مختلف اضلاع کا کنٹرول حاصل کر رہے تھے اسی طرح آج پاکستانی طالبان مختلف اضلاع کا کنٹرول حاصل کر رہے ہیں۔

ان کی حکمت عملی کے تین پہلو نظر آتے ہیں۔ پہلا خیبر پختونخوا کے مختلف علاقوں میں اپنی موجودگی کو مضبوط کیا جائے، دوسرا افغان طالبان کی مدد کے بغیر پناہ گاہوں کا کنٹرول حاصل کیا جائے، تیسرا پہلو یہ کہ ان کی کوشش ہے کہ پاکستان کی سکیورٹی فورسز اور عوام کو بد دل اور ان کے حوصلوں کو کمزور کیا جائے۔ میری نظر میں بھی کسی حد تک یہ دہشت گر گروپس اپنی حکمت عملی کے تمام پہلوؤں میں کامیاب نظر آتے ہیں، کیونکہ حکومت اور ریاست کی ترجیحات مختلف نظر آتی ہیں جو سیاست پر زیادہ اور سکیورٹی کے معاملات پر غافل تو نہیں لیکن اتنے پریشان بھی نظر نہیں آتے۔ عبد سید تو یہاں تک کہتے ہیں کہ 'بگن' گاؤں جیسے واقعات میں ناکامی سے اسلامک سٹیٹ خراسان پراونس (آئی ایس کے پی) جس کو عرب ملکوں کی دہشت گرد تنظیموں کی حمایت حاصل ہے اور افغانستان میں ان کی نمایاں موجودگی ہے اور کامیابیاں وہ یہاں کے حالات سے فائدہ اٹھا سکتی ہے۔

خیبر پختونخوا ہو یا بلوچستان، یہاں انتہا پسندی اور دہشت گردی کا خاتمہ ایک مربوط تحریری قومی سلامتی کی پالیسی سے ہی ہو سکتا ہے جسے پارلیمان کے ذریعے منظور کرا کر افواج پاکستان کو عمل کرنے کے لئے دی جائے جو صرف اور صرف اس پالیسی پر فوکس رکھ کر بلا تاخیر اس کے نتائج حاصل کرے۔ پالیسی کا ایجنڈہ حساس علاقوں میں بھاری اسلحہ، دہشت گرد گروپوں کا خاتمہ اور افغانستان کے ساتھ بارڈر کو نتائج کے حصول تک سیل کرنا اور ذمہ داروں کا پارلیمان کے سامنے جوابدہ ہونا لازم ہو۔ ورنہ آج کے حالات روشن کل کی طرف اشارہ نہیں کرتے۔

مضمون نگار سینیئر براڈکاسٹ جرنلسٹ ہیں۔ ان سے asmatniazi@gmail.com اور ایکس پر @AsmatullahNiazi پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔