بابر نے اپنی سوانح حیات تزک بابری (اردو) کے صفہ نمبر 33 اور 34 پر اور انگریزی ترجمے کےصفحہ 220، اور 229 سے لے کر 235 تک اس کی مکمل تفصیل لکھی ہے جس کی تفصیل میں اب نہیں جانا چاہتا۔ کسی اور وقت اس پر لکھنے کی کوشش کروں گا۔
وادئ کرم وزیرستان، خیبر اور دیگر قبائلی علاقوں کی نسبت زرخیز وادئ ہے لہٰذا یہاں کے لوگ آباؤ اجداد کے وقت سے کھیتی باڑی کرتے رہے ہیں، مال مویشی رکھتے ہیں اور باغات بھی قابلِ ذکر تعداد میں موجود ہیں۔ لہٰذا اجناس اور میوہ جات اور مال مویشی کے حوالے سے وادئ کرم نہ صرف خود کفیل ہے بلکہ زمانہ قدیم سے نزدیکی علاقوں کو برآمد بھی کرتے رہے ہیں، جن میں میںٹل بازار، ہنگو، کوہاٹ اور پشاور سمیت کابل، گردیز اور ہرات تک کی مارکیٹس شامل ہیں۔ جب کہ وہاں سے وہ اشیائے ضرورت، جو وادئ کرم میں ناپید تھیں/ہیں، درآمد کرتے تھے/ہیں جن میں کپڑا، نمک، گُڑ وغیرہ شامل ہیں۔
ان سب اشیا کی خرید و فروخت، درآمد و برآمد ہندو تاجر کرتے تھے اور پشتون تجارت اور دکانداری کو گھٹیا کام سمجھتے تھے، بلکہ ’تلہ‘ یعنی ترازو کو گالی سمجھا جاتا تھا۔
آج سے ڈیڑھ سو سال پہلے تک کڑمان، شلوزان، زیڑان، پیواڑ اور بوڑکی سمیت شنگک گاؤں میں دکانیں ہوتی تھیں۔ ’توکئی‘ بازار تقریباً 130 سال پہلے آباد ہونا شروع ہوا جب یہاں انگریز کی آمد ہوئی۔
توتکئیی اب بھی شہر کے بوڑھے رہائشیوں میں مقبول ہے، قدیم زمانہ چھوڑیں، مجھے یاد ہے آج سے 25 سال قبل شنگگ گاؤں میں ایک مشہور ڈرائیور ہوتے تھے، جو “توتکئی” بازار کا ذکر کرتے تھے۔ توتکئی بازار کا نام آج بھی دور دراز گاؤں کے پرانے لوگ یاد کرتے ہوں گے۔
کوہِ سفید کے دامن میں ’’ملانہ گاؤں‘‘ وادئ کرم کی قدیم ترین بستیوں میں سے ایک ہے، اور یہ طوری قوم کے حمزہ خیل شاخ کا مرکز بھی ہے۔ باقی قدیم بستیوں کا ذکر اوپر کیا جا چکا ہے۔
ملانہ گاؤں کے نیچے ایک وسیع و عریض صحرا تھا۔ اس صحرا کے مشرقی حصے میں خود رو توت کے درختوں کا باغ تھا اور مغربی حصے میں ایک پرانا چنار کا درخت۔ ’توکئی‘ نام پڑنے کی وجہ یہ ہے کہ جو صحرا کے مشرقی حصے میں خود رو توت کے درخت تھے، جو باغ کی شکل اختیار کر چکے تھے، ان کو لوگ ’توتکئی‘ کے نام سے جانتے تھے۔ انگریز حکومت نے بعد میں اس باغ کو وسیع کر کے ایگریکلچر یونٹ بنایا اور توت سے ریشم بانی شروع کی جب کہ لوگ اب بھی اس حصے کو ’توتانو باغ‘ ہی کہتے ہیں۔
وادی کرم 19 ویں صدی کے آغاز تک معقول حد تک ریشم پیدا کرتی تھی۔ جب انگریزوں نے توتکئیی کا الحاق کر لیا اور نئے اور پاڑہ چنار کا نام مقبول ہوا، تب تک ریشم کی تجارت کا خاتمہ ہو چکا تھا۔ آج بھی محکمہ موسمیات کا ایک محکمہ ہے جو پاراچنار کی ریشم پیدا کرنے والی پرانی عظمت کو واپس لانے کے لئے جدوجہد کر رہا ہے۔ لیکن سوائے ایک سبزسائن بورڈ کے، جس میں اپنی موجودگی کا اعلان کرتے ہوئے سفید خطوط ہوتے ہیں، باقی کچھ نہیں۔
صحرا کے مغربی حصے میں ایک پرانا چنار کا درخت تھا۔ دوسرے معروف چناروں کی طرح اس چنار کا نام پاڑا چنار تھا۔
’ پاڑا چنار‘ اس لئے کہ طوری حمزہ خیل کے نو بڑے قبیلے (پلارینے) ہیں جن میں سے ایک پاڑاخیل ہے۔ اور ’ملک پاڑے‘ حمزہ خیل قبیلے کے’پاڑے خیل‘ شاخ کے ایک معتبر ملک تھے۔ دیگر قبائلی شاخیں یہ ہیں:
دری پلاری
شکرخیل
پاڑا خیل
سپین خیل
ستی خیل
جانی خیل
بڈے خیل
اکاخیل
مالی خیل
البتہ مالی خیل کی اپنی ایک حیثیت ہے جو اب ہمارا موضوع بحث نہیں ہے۔
مشہور برطانوی فوجی و مؤرخ CM Enriquez نے اپنی کتاب The Pathan Borderland کے صفحہ 117 پر پاڑہ چنار شہر کی وجہ تسمیہ لکھی ہے جس سے طوری مؤرخ ڈاکٹر عابد علی شاہ کی تائید ہوتی ہے۔ انریکز لکھتے ہیں کہ ’ملک پاڑے‘ حمزہ خیل قبیلے کے ’پاڑے خیل‘ شاخ کے ایک معتبر ملک تھے اور انہوں نے 200 سال پہلے چنار کا یہ پودا لگایا تھا، اور یہ پورا صحرا بھی ان لوگوں کی ملکیت ہے۔ تقسیم یا سرسیم کے لحاظ سے یہ قدیم چنار کا درخت اور اس کے ارد گرد اراضی پاڑاخیل قبیلے کی ملکیت تھی۔ سرکاری ریکارڈ یا کاغذاتِ مال میں اب بھی یہ ملکیت مستند ہے۔ پاڑہ خیل اس صحرائی علاقے میں گندم کاشت کیا کرتے تھے۔ گندم کی کٹائی کے وقت یہاں خیمے لگا تے تھے، اور اس چنار کے سائے میں جرگے، صلاح مشورے یا دیگر امور جیسے مزری بانی (مزری ٹکاول) انجام دیتے تھے۔ چنار کے پاس ان کے درمن (کھلواڑ) ہوتے تھے، گندم حاصل کر کے واپس اپنے دیہات میں چلے جاتے تھے۔
تو پاڑہ چنار کا نام پہلی بار اس وقت سامنے آیا جب انگریز اپنے کیمپ سنگینہ اور طوری ملیشیا کے ہیڈکوارٹر کو بالش خیل سے تبدیل کر کے اس صحرا میں لائے۔ اور طوری قبیلے نے یہ صحرا بغیر کسی قیمت کے طوری ملیشیا کے نام کر دیا۔ طوری ملیشیا کا نام بعد میں تبدیل کر کے کرم ملیشیا رکھ دیا گیا کیونکہ اب طوریوں کے علاوہ، بنگش، منگل، بڈاخیل، مقبل اور دیگر اقوام کے لوگ بھی شامل کر دیے گئے تھے۔
انگریزوں نے توکئی بازار کو باقاعدہ دو گلیوں میں بنانے کی منظوری دی اور خار بازار اور پنجابی بازار پر مشتمل دو گلیوں میں دکانیں بنائی گئیں۔ جب دور دراز سے لوگ “توکئی” بازار آتے تھے تو خرید و فروخت کے بعد اس چنار کے سائے میں اکھٹے ہو کر اپنے گاؤں جاتے تھے۔
دور دراز گاؤں سے لوگ جب انگریز حکام سے ملنے یا مسائل حل کرنے توکئی آتے تھے تو بھی اسی چنار کے سائے جمع ہوتے تھے۔
چنار کا یہ درخت پاراچنار پیواڑ سڑک کے کنارے اب بھی موجود ہے جس کے نچلی طرف ایف سی (کرم ملیشیا) کیمپ اور اوپر ایف سی اسپتال اور پاک فوج کیمپ سمیت آرمی پبلک سکول ہے۔
تقریباً ستر سال پہلے تک پارا چنار کے گرد ایک دیوار تھی جس کے چار دروازے تھے۔ من سنگھ اور اتھر سنگھ کے دروازے مقامی تاجروں کے نام پر رکھے گئے تھے، جب کہ دوسرے دو شنگک اور ٹل گیٹ کے نام سے مشہور تھے کیونکہ یہ دروازے اسی طرف واقع تھے۔ اب مان سنگھ گیٹ کا نام تو موجود ہے، جہاں مسیحی برادری کے لوگ آباد ہیں لیکن گیٹ نہیں، باقی گیٹس کا نام و نشان تک نہیں۔
پنجابی بازار میں 1980 میں زبردست آگ لگی جس سے شہر کا یہ پرانا بازار جل کر ڈھیر ہوا اور شہر کی پرانی خوبصورتی اور قیمتی ارکیالوجیکل اثاثے تباہ ہوئے تھے۔ پنجابی بازار اس لئے کہا جاتا ہے کیونکہ آزادی سے قبل اس کے تقریباً سبھی تاجر پنجابی ہندو اور سکھ تھے، جب کہ دوسرے بازار کو خاور بازار کہا جاتا ہے۔ اس کا دوسرا نام دریائے کرم کے بعد کرمی تھا جو پارا چنار کی وادی کوسیراب کرتا ہے۔
پنجابی بازار اور کرمی بازار آج بھی پاڑہ چنار شہر کی خوبصورتی اور تجارت کے مراکز ہیں۔
چونکہ یہ چنار انگریزوں کے قائم کردہ دفاتر اور کرم ملیشیا کے بالکل درمیان موجود تھا اور وادی کرم کے دور دراز علاقوں سے لوگ آ کر اکثر یہیں جمع ہوتے تھے تو توتکئیی کی جگہ پاڑہ چنار نام مشہور ہونا شروع ہوا، اور یوں توتکئی بازار پاڑہ چنار کہلانے لگا۔ جو چنار کا پودا پاڑہ چنار شہر کی وجہ تسمیہ بنا وہ چنار ملک پاڑے، حمزہ خیل قبیلے کے پاڑے خیل شاخ کے ایک معتبر ملک، نے 200 سال پہلے لگایا تھا، اور یہ پورا صحرا بھی ان لوگوں کی ملکیت ہے، جیسا کہ سرکاری ریکارڈ بھی اس بات کی گواہی دیتا ہے۔
- ریفرنسز: تزک بابری (اردو) کے صفحہ نمبر ۳۳ اور ۳۴
- تزک بابری انگریزی ترجمے کے صفحہ 220، اور 229 سے لیکر 235 تک
- C M Enriquez’s The Pathan Borderland” Oxford press: page 117