پیپلز پارٹی نے دوٹوک موقف اختیار کرتے ہوئے کہا ہے کہ کوئی ایک فرد یا ادارہ ریاست پاکستان کے نمائندے کے طور پر عسکریت پسند تنظیموں سے بند دروازوں کے پیچھے مذاکرات نہیں کرسکتا۔
تفصیل کے مطابق زرداری ہاؤس اسلام آباد میں پیپلز پارٹی کا ایک اعلیٰ سطح اجلاس منعقد ہوا جس میں دہشت گردی کے مسئلے بالخصوص افغان طالبان اور ٹی ٹی پی کے ساتھ افغانستان میں ہونے والی حالیہ پیش رفت کی روشنی میں تبادلہ خیال کیا گیا۔
سیکرٹری جنرل فرحت اللہ بابر کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ اجلاس میں پارٹی کے اس موقف کا اعادہ کیا گیا کہ تمام فیصلے پارلیمنٹ کو کرنا چاہیں اور اسے آن بورڈ لیا جانا چاہیے۔ پارٹی نے آگے کے راستے پر اتفاق رائے پیدا کرنے کے لئے اتحادی جماعتوں سے رابطہ کرنے کا بھی فیصلہ کیا۔
پیپلز پارٹی کے ایک سینئر عہدیدار نے نیا دور میڈیا کو تصدیق کی ہے کہ ان کی جماعت نے افغانستان میں جاری مذاکرات پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ پارٹی نے متفقہ طور پر فیصلہ کیا ہے کہ بند دروازوں کے پیچھے ہونے والے مذاکرات قبول نہیں اور اب تک دونوں کے ساتھ جو بھی مذاکرات ہوئے ہیں، ان کی تفصیل پارلیمنٹ کے سامنے رکھی جائے۔
پیپلز پارٹی کے دوسرے ذرائع نے تصدیق کی کہ اجلاس میں اس بات کا اعادہ کیا گیا کہ ماضی میں پارلیمنٹ کو بے خبر رکھ کر جو مذاکرات کئے گئے ان سے ریاست پاکستان اور ان کے شہریوں کو نقصان ہوا۔
انھوں نے مزید کہا کہ پارٹی نے دوٹوک موقف دیا کہ ایک ادارہ یا فرد ریاست کی جانب سے کسی تنظیم کے ساتھ مذاکرات نہیں کر سکتا اور پارلیمنٹ کو ہر حال میں اس حوالے سے اعتماد میں لیا جائے۔
اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ ملکی سیاسی لیڈرشپ کو اس حوالے سے اعتماد میں لیا جائے گا اور مختلف سیاسی جماعتوں کے سربراہان سے اس حوالے سے مشاورت کی جائے گی۔
اجلاس میں سابق وزرائے اعظم یوسف رضا گیلانی، راجا پرویز اشرف، فریال تالپور، وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ، سید خورشید شاہ، شیری رحمان، نیئر بخاری، نجم الدین، فیصل کریم کنڈی اور ہمایوں سمیت دیگر نے شرکت کی۔
پیپلز پارٹی کے رہنما اخونزادہ چٹان اور سمندرپار پاکستانیوں کے وزیر ساجد طوری کے کابل جانے اور طالبان کے ساتھ مذاکرات میں شرکت کرنے پر پارٹی نے برہمی کا اظہار کیا ہے۔
اطلاعات کے مطابق اخونزادہ چٹان نے پارٹی لیڈرشپ کو مذاکرات میں شرکت کرنے سے پہلے آگاہ کیا تھا لیکن پارٹی کی جانب سے ان کو ہدایات جاری کی گئی تھی کہ پارٹی کا نام استعمال نہیں کرنا ہے۔
لیکن دوسری جانب ساجد طوری نے پارٹی مذاکرات میں جانے سے پہلے پارٹی سے اجازت نہیں لی تھی جس کے بعد پارٹی کی جانب سے ان کو شوکاز نوٹس جاری کیا گیا ہے۔