ایک زرداری سب پہ بھاری: خیبر پختونخوا کے پرندوں کی PPP کی طرف پرواز شروع

ایک زرداری سب پہ بھاری: خیبر پختونخوا کے پرندوں کی PPP کی طرف پرواز شروع
آصف زرداری سیاست کو اتنا ہی سمجھتے ہیں جتنا بابر اعظم بیٹنگ کو۔ جہاں دو کھلاڑیوں کے بیچ فاصلہ دیکھا، کور ڈرائیو پر چوکا دے مارا۔

ہو یہ رہا ہے کہ سالوں دھکے کھانے، بری کارکردگی، کرپشن اور ایک قومی سطح کے جن کو علاقائی جماعت کی حد تک محدود کر دینے پر مذاق اڑوانے کے بعد اب لگتا ہے کہ وہ اپنی پارٹی کو ملکی سیاست کا مرکزی کردار بنانے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔

لاہور کے این اے 133 کے ضمنی انتخاب میں متاثر کن کارکردگی تازہ ترین ثبوت ہے کہ جب دوسری بڑی جماعتیں اس شاخ کو کاٹنے پر تلی ہیں جس پر وہ بیٹھی ہیں، پیپلز پارٹی سیاسی کھیل میں بتدریج خود کو مستحکم کر رہی ہے۔

پیپلز پارٹی نے ابھی اپنا مقصد حاصل نہیں کیا ہے۔ لیکن اگر غور سے سنا جائے تو قدموں کی ہلکی ہلکی چاپ سنائی دے رہی ہے۔ ایک زرداری سب پر۔۔۔؟

پچھلے چند سالوں میں جب سابق صدر آصف علی زرداری سیاسی اور قانونی بھول بھلیوں میں سے اپنا رستہ بنا رہے تھے، وہ ساتھ ساتھ واپسی کے سفر کے لئے کچھ نشانیاں بھی لگاتے جا رہے تھے، جیسے اس افسانوی کہانی میں ہنسل اور گریٹل روٹی کے ٹکڑے پھینکتے جاتے تھے۔ یہ نشانیاں کس منزل کا پتہ دیتی ہیں، شاید صرف وہی جانتے ہیں۔ کچھ سال پہلے انہوں نے بہت سی امیدوں پر پانی پھیرتے ہوئے بلوچستان میں ایک حکومت گرائی تھی۔ پھر چند روز بعد کرسی گھمائی اور صادق سنجرانی کو سینیٹ کا چیئرمین منتخب کروانے میں مرکزی کردار ادا کیا۔ سونے پہ سہاگہ یہ کہ یوسف رضا گیلانی کو اسلام آباد کی سیٹ سے سینیٹر منتخب کروایا اور اپنی ٹوپی سے آخری کبوتر نکالتے ہوئے انہیں سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر منتخب کروا لیا۔ جب ان کے پاس عددی اکثریت نہیں تھی، انہوں نے چالاکی سے کام لیا۔ جب حمایت موجود نہیں تھی تو اعصاب پر قابو رکھا۔

لیکن یہ بچوں کے کھیل تھے۔ اصل میچ کی تیاری تھے۔ وارم اپ میچ تھے۔ لکن صرف اب تلک۔

اب پیپلز پارٹی اپنے اصل منصوبے پر کام شروع کرنے جا رہی ہے۔ اور اس کے مخالفین حیرت سے آنکھیں پھاڑے دیکھ رہے ہیں۔ سیاسی کھیل جیسے جیسے گدلے پانی میں داخل ہو رہا ہے، یہ واضح ہے کہ مشین کی گراریاں حرکت میں آ چکی ہیں۔ ابھی بھی پیپلز پارٹی کی خواہش اور جو کچھ اس کو بالآخر ملنے کی امید نظر آ رہی ہے، ان میں بڑا فرق ہے۔ لیکن طلب کی شدت زیادہ ہے تو اس کے لئے مطلوب سیاسی صلاحیت بھی نظر آ رہی ہے۔

پیپلز پارٹی نے 2020 میں PDM کی بنیاد رکھی۔ ہاں، PMLN اور فضل الرحمان بھی یہ اتحاد چاہتے تھے لیکن یہ بلاول بھٹو زرداری اور پیپلز پارٹی قیادت ہی تھی جس نے واقعتاً سیاست کے ان تمام بڑوں کو اکٹھا کیا جس کے بعد مطالبات کی وہ فہرست سامنے آئی۔ گو کہ ان جماعتوں کا اکٹھے نظر آنا بھی بہت اہم تھا لیکن اصل چیز وقت کا تعین تھا۔ PPP قیادت نے وقت کو صحیح پہچانا اور بڑی پھرتی اور مہارت کے ساتھ ٹیم تشکیل دی۔

ایک سال بعد یہ واضح ہے کہ نہ صرف پیپلز پارٹی کا PDM بنانے کا فیصلہ درست تھا بلکہ اتحاد میں اکثریت کی رائے کے برخلاف اس کا اسمبلیوں سے استعفے نہ دینے کا مؤقف بھی بالکل ٹھیک تھا۔ آج ایک ایسی حکومت مخالف تحریک کا عروج و زوال دیکھنے کے بعد جو ایکسرسائز مشین پر بھاگنے کی طرح پسینہ تو بہت بہاتی رہی لیکن کہیں پہنچی نہیں، PMLN بھی اس نتیجے پر پہنچ چکی ہے کہ استعفے نہیں دینے چاہئیں۔ اسی تجویز کی وکالت تو PPP تقریباً ایک سال پہلے کر رہی تھی۔

اگر بلاول ہاؤس میں کوئی شخص اپنے چہرے پر تمسخرانہ مسکراہٹ سجائے بیٹھا ہے تو اس کا حق ہے۔ اسے کھیل کو اپنے طریقے سے کھیلنے کا بھی پورا حق ہے کیونکہ یہ تو واضح ہے کہ وہ باقی سب سے بہتر کھیل رہا ہے۔ اور کھیل کیا ہے؟ یہ ہے وہ مقام جہاں سے خواب اور خواہشات منصوبوں اور پالیسیوں میں ڈھلنا شروع ہوتے ہیں۔ PPP جانتی ہے کہ سندھ اس کے پاس ہے اور رہے گا۔ اس کی خواہش پنجاب میں ایک حصے، خیبر پختونخوا میں ایک حصے اور وفاق میں سب سے بڑے حصے کی ہے۔

حیران ہوئے؟ فکر نہ کیجیے، آپ اکیلے نہیں۔ تو صورتحال کچھ یوں ہے:

پیپلز پارٹی کو شروع میں ہی نظر آ گیا تھا کہ PMLN اپنی ہی سیاست کی اسیر بنتی جا رہی ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کے خلاف ایک انتہائی پوزیشن لے کر، اس پوزیشن کو نظریاتی بیانیے میں تبدیل کر کے، اور آرمی چیف اور ISI سربراہ کا نام لے کر نواز شریف نے وہ کام کر دیا جو اس سے پہلے کبھی کسی سیاستدان نے نہیں کیا تھا۔ لیکن یہ جوا تھا۔ PPP کو یہ بھی سمجھ آ گئی تھی کہ اس کے بعد نواز شریف کے پاس صرف ایک ہی راستہ بچا تھا کہ وہ لڑائی کو اوپر ہی اوپر لے جاتا جائے، اس وقت تک کہ دوسری طرف سے پلکیں جھپک جائیں۔ دوسری جانب، PPP قیادت کو اچھی طرح علم تھا کہ پاکستان کی سیاست کی حرکیات کو دیکھتے ہوئے – اور پاکستان کی سیاست کی حرکیات کو PPP سے بہتر کون سمجھ سکتا ہے – اسٹیبلشمنٹ اور PTI حکومت میں دراڑ ناگزیر تھی۔ دونوں ہی معاملات میں پارٹی قیادت کا اندازہ درست ثابت ہوا۔

2۔ اس تجزیے کی بنیاد پر PPP قیادت دوسروں کو اس بات کا علم ہونے سے بہت پہلے خود کو ایک ایسی پوزیشن پر لے گئی کہ جہاں یہ اس صورتحال کا فائدہ اٹھا سکے۔ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ غیر محسوس انداز میں پیغام رسانی، PMLN کے ساتھ نام لیے جانے پر محض نجی نہیں عوامی سطح پر اختلاف، اور پھر اسمبلیوں سے استعفا دے کر پورا کھیل خراب کر دینے سے انکار کر کے، PPP خود کو ایک ایسی سیاسی جماعت کے طور پر پیش کر رہی تھی جو اس کھیل میں ساتھ دینے کے لئے تیار تھی۔ جس وقت PPP نے PDM کا ساتھ چھوڑا، PTI حکومت کی مقبولیت بھی اپنی خراب کارکردگی کے باعث گرنا شروع ہو چکی تھی۔ لوگوں کی سرگوشیاں سنائی دینے لگی تھیں کہ اب کیا ہوگا؟ کون ہوگا؟

PPP کے پاس جواب تھے۔ اب کیا؟ پنجاب اور وفاق میں ان ہاؤس تبدیلی۔ اب کون؟ اسلام آباد میں PPP اور پنجاب میں PMLN۔ کیا ان کے پاس 2021 کے اوائل میں جب PPP نے یہ مشورہ دیا، عددی اکثریت موجود تھی؟ واقعتاً، اس کا جواب نفی میں ہے۔ لیکن کیا اس کو لگتا تھا کہ یہ اپنی زنبیل میں سے یہ اکثریت برآمد کر لے گی؟ جی ہاں، بالکل۔ کچھ پک رہا تھا۔ لیکن PMLN اس کے لئے تیار نہیں تھی۔ وہ اب بھی اسی جوئے سے امید لگائے بیٹھی تھی: فوری الیکشن یا پھر کوئی ڈیل نہیں۔ لہٰذا کوئی ڈیل نہیں ہوئی۔

4۔ لیکن PPP کو ڈیل کرنا آتی ہے۔ تو جب PMLN اور JUI-F کی PDM اپنے ٹوٹے خوابوں کی کرچیاں چن رہی تھی، PPP آستین چڑھا کر کام میں جت گئی۔ پہلا ہدف جنوبی پنجاب تھا۔ یہاں سے روایتی طور پر پارٹی نشستیں جیتتی رہی ہے اور کسی حد تک اب بھی مقبولیت برقرار رکھے ہوئے ہے۔ جنوبی پنجاب میں قومی اسمبلی کی نشستوں کا خزانہ ہے۔ تقریباً چار درجن۔ اور یہاں سیاست لوٹوں کی ہے۔ PMLN کے اچھے دنوں میں ان میں سے بہت سوں نے شریفوں کے ٹرک پر چڑھنے کا فیصلہ کیا اور نتیجتاً بہت سی وزارتیں بھی حاصل کیں۔ پھر اچانک، بغیر کسی نوٹس کے 2018 انتخابات سے قبل حقیقتاً آخری موقع پر ان میں سے ایک بڑی تعداد نے پارٹی چھوڑ کر PTI کی طرف اڑان بھر لی۔ PPP اچھی طرح جانتی ہے کہ درست اشارے دیے جائیں تو یہ سب اڑان بھر کر واپس بھی آ سکتے ہیں۔ اسی لئے پارٹی قیادت نے اس سے پہلے کہ کسی کو خبر بھی ہوتی ان پرندوں کو سدھانے اور ہنکانے والوں پر کام شروع کر دیا تھا۔

5۔ مخدوم احمد محمود حالیہ سالوں میں تن تنہا جنوبی پنجاب میں PPP کا الم اٹھائے کھڑے رہے ہیں۔ اور ان کے پایۂ استقلال میں کوئی لغزش نہیں آئی۔ وہ علاقے میں ایک مضبوط حیثیت رکھتے ہیں اور کم از کم ایک قومی اسمبلی اور دو صوبائی اسمبلی کی نشستیں حاصل کر سکتے ہیں۔ وہ جہانگیر ترین کے رشتہ دار بھی ہیں۔ اور ان کے کاروباری پارٹنر بھی۔ ترین جنوبی پنجاب میں اچھا اثر و رسوخ رکھتے ہیں اور آج کل اپنے پتے بالکل سینے سے لگائے ہوئے ہیں۔ PPP ان میں خصوصی طور پر دلچسپی لے رہی ہے کیونکہ احمد محمود کے ساتھ مل کر اگر راولپنڈی سے ان کے بادبانوں کو ہوا دی جائے تو یہ اچھی خاصی نشستیں جیت کر PPP کو دے سکتے ہیں جو وفاق میں اس کا جادو چلانے میں کلیدی اہمیت کی حامل ہوں گی۔ کیا کچھ پک رہا ہے؟ ذرائع کا کہنا ہے کہ ہنڈیا ابھی چولہے پر رکھی نہیں گئی لیکن چولہا ضرور جلا دیا گیا ہے۔

6۔ خیبر پختونخوا میں بھی کھیل شروع ہونے والا ہے اور ایک نرم ہوا بہت اپنائیت کے ساتھ دل کو لبھا رہی ہے۔ آنے والے ہفتوں اور مہینوں میں سیاسی طور پر اثر و رسوخ رکھنے والے بہت سے افراد پر نظر رکھیں۔ یہ شاید PPP میں جاتے دکھائی دیں۔ کچھ پہلے ہی جا چکے ہیں۔ لہٰذا آہستہ آہستہ منصوبے کے خدوخال واضح ہونا شروع ہو چکے ہیں: سندھ + جنوبی پنجاب + خیبر پختونخوا + دل کو لبھاتی ہوا + انتخابات کے بعد کے اتحادی + ہوا سونگھتے آزاد امیدوار، یہ سب مل کر مرکز میں ایک باریک سی اکثریت کا روشن امکان تو پیدا کر ہی دیتے ہیں۔ گیم آن ہے۔

جیسا کہ وزیر اعظم عمران خان کو کہنے کا بہت شوق ہے: بڑے خواب دیکھیں۔ PPP نے ان کی سیاست کو بھلے رد کر دیا ہو، لیکن اس نصیحت کو پلے سے باندھ لیا ہے۔




فہد حسین نے یہ مضمون ڈان اخبار کے لئے لکھا جسے نیا دور اردو کے قارئین کے لئے ترجمہ کیا گیا ہے۔