فہد حسین کالم - ن لیگ قابلِ قبول، عمران خان کے لئے نئی مشکلات: اسٹیبلشمنٹ کیا سوچ رہی ہے؟

فہد حسین کالم - ن لیگ قابلِ قبول، عمران خان کے لئے نئی مشکلات: اسٹیبلشمنٹ کیا سوچ رہی ہے؟
فہد حسین کا یہ کالم ڈان اخبار میں شائع ہوا جس میں حالیہ دنوں کی سیاست سے کچھ اہم واقعات کو ایک کڑی میں پرونے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس کالم کو نیا دور اردو کے قارئین کی دلچسپی کے لئے ترجمہ کر کے پیش کیا جا رہا ہے۔

سیاست جھکڑ زدہ ہے اور  اس میں سے خبروں کی برسات ہو رہی ہے۔ وفاقی دارالحکومت میں ایک دبی دبی سی سراسیمگی ہے جب کہ کچھ واقعات ایک کہانی بیان کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ایک کہانی کہ جو وضاحت کر سکے کہ کوئی کینوس پر برش لیے کھڑا ہے۔ کیا یہ نقطے مل کر کوئی خاکہ بناتے ہیں؟

چلیے تو پھر ان حالیہ چند مخصوص قسم کے واقعات سے سامنے آنے والے نقاط کو ایک دوسرے سے ملانے کی کوشش کرتے ہیں:

1 - جہانگیر ترین اپنا پوائنٹ ثابت کر چکے۔ ان کے لوگ وزیر اعظم سے ملے اور بدلے میں دو تحفے پائے۔ ایک تو شوگر انکوائری کمیشن کے سربراہ تبدیل کر دیے گئے۔ دوسرا وزیر اعظم کے مشیر سینیٹر علی ظفر کو  معاملے کے میرٹس اور ڈی میرٹس پر رپورٹ کا حکم دے دیا گیا۔ تاہم ابھی بھی جہانگیر ترین اور وزیر اعظم کے درمیان تناؤ کی بنیادی وجہ وہیں موجود ہے۔ ریڈ زون میں یہ باتیں گردش کرتی رہتی ہیں کہ وزیر اعظم آفس وزیر اعظم تک رسائی اس طرح سے سنبھالتا ہے جسے طاقت کے کھیل اور پسند ناپسند کا ملاپ کہا جا سکتا ہے۔ مثال کے طور پر ایک وزیر جس کے پاس گذشتہ دور میں ایک طاقتور ترین عہدہ رہا ہے اور وہ وزیر اعظم کو عرصے سے جانتا ہے، آج کل وزیر اعظم آفس کی وعدہ خلافی پر اپنے تحفظات کے لئے ہمدردی پیدا کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس وزیر کو وزیر اعظم آفس میں اہم ترین لوگوں نے یقین دہانی کروائی تھی کہ وہ جلد ہی وفاقی وزیر برائے داخلہ بنا دیا جائے گا۔ حتیٰ کہ اب اس وزیر سے متعلق یہ بھی انٹیلیجنس  رپورٹس ہیں کہ وہ خاموشی سے پی ٹی آئی میں اپنا گروپ بنانے میں مگن تھا۔ آج کل وہ وزیر سیاسی دشت کی سیاحی میں مصروف اسلام آباد کی سڑکوں پر گاڑی گھماتا پھر رہا ہے۔ جہانگیر ترین کو یہ سب معلوم ہے۔

2 - جہانگیر ترین گروپ نے اپنے نمبر دکھا دیے ہیں۔ اور وہ اتنے ہیں کہ تحریک انصاف کی مرکز اور پنجاب کی حکومتوں کو کسی بھی وقت گرایا جا سکتا ہے۔ اس گروپ نے خون چکھ لیا ہے۔ بجٹ آنے والا ہے۔ کیا پی ایم آفس اس بات کو ہضم کر پائے گا کہ وہ ایک گروپ کے ہاتھوں دباؤ میں لایا گیا؟ ریڈ زون کے ذرائع یہ بتاتے ہیں کہ کچھ بھی حل نہیں ہوا۔ جو کچھ بھی ہونا ہے، مئی کے اواخر تک ہو جانا ہے ورنہ جہانگیر ترین گروپ حکومت پر بھاری پڑنے لگے گا۔ ریڈ زون سے فی الحال خبریں یہی ہیں کہ وزیر اعظم آفس میں ملاقات کے باوجود کچھ طے نہیں ہوا۔

3 - پنجاب سے PTI کا خون مسلسل رس رہا ہے۔ تحریک انصاف اس تاثر سے بھی مسلسل نبرد آزما ہے کہ اس کی پرفارمنس انتہائی خراب ہے۔ کابینہ میں رد و بدل کے باوجود طاقتور حلقے خوش نہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ خان صاحب ایک اچھی ٹیم نہیں چن سکے۔ اس حوالے سے یہ اہم ہے کہ ایک انتہائی اہم شخصیت نے چھ وفاقی وزرا کے گروپ سے ملاقات میں کہا تھا کہ ابھی تک ان کی حکومت کی کارکردگی توقعات سے کہیں کم رہی ہے۔ انہیں کہا گیا تھا کہ 'قابل افراد کو اپنی ٹیم میں لائیں'۔ ابھی تک کی تبدیلیوں میں فرخ حبیب کے علاوہ کوئی نئی تبدیلی نہیں ہے۔ باقی تمام وزرا کی صرف وزارتیں اِدھر سے اُدھر کر دی گئی ہیں۔

4 - کابینہ میں اب ایک بار پھر تبدیلیوں کی باز گشت ہے۔ اور اس رد و بدل سے بہت سے لوگوں کو امیدیں ہیں اور شاید اس کا ایک اور راونڈ بھی سامنے آئے۔ بہت سے امیدواروں کو بتایا گیا ہے ان کے نام یا تو وزیر مملکت یا پھر مشیر کے ناموں کے طور پر فائنل کیے جا چکے ہیں، بس وزیر اعظم کو اب درست وقت کا انتظار ہے۔ اس بات کو ہوئے اب کچھ ہفتے بیت چکے ہیں اور اب خاموشی کی وجہ سے غیر یقینی بڑھ رہی ہے۔ نئے چہروں کی کابینہ میں شمولیت سے حکومت کو ایک نئی کمک میسر آئے گی۔ کم از کم پی ٹی آئی خود کو یہی تسلیاں دے رہی ہے۔

5 - کابینہ میں حالیہ رد و بدل کے بعد کابینہ اراکین میں ایک نیا تناؤ پیدا ہو چکا ہے۔ جن لوگوں سے اہم وزارتیں لے کر کسی دوسرے کو دی گئی ہیں وہ یقیناً اپنے بعد آنے والے ٹیم کے کھلاڑی کے لئے نہیں کھیل رہا ہے بلکہ امید کر رہا ہے کہ وہ ناکام ہوں۔ کپتان اور ان کی بیٹنگ لائن اپ والی باتیں تو اس حس تک غیر حقیقی ہیں کہ ٹیم کے کھلاڑی ایک دوسرے کے خلاف کھیل رہے ہیں۔

6 - پاکستان مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف کی واپسی کے بعد پارٹی کی جانب سے نئی پالیسی کے ساتھ نئی چالیں سامنے آ سکتی ہیں۔ گو کہ پنجاب میں ان ہاؤس تبدیلی کے معاملے سے متعلق بحث سے ن لیگ نے اپنا دامن شروع سے ہی بچانے کی کوشش کی ہے لیکن اب متروکہ پی ڈی ایم کو دوبارہ سے فعال کرنے سمیت کچھ اور چالیں نظر آ سکتی ہیں۔ ذرائع اس پر خاص توجہ دے رہے ہیں کہ اقتدار کے اصل ایوانوں میں کچھ سابق ن لیگی وزرا کو اچھے الفاظ میں یاد کیا جا رہا ہے۔ خاص طور پر شاہد خاقان عباسی، مفتاح اسماعیل، انجینئر خرم دستگیر خان اور احسن اقبال کے بارے میں کہا گیا ہے کہ یہ لوگ قابل اور بیرون ملک سے اعلیٰ تعلیم یافتہ تھے۔

7 - تازہ ترین یاد دہانی کے مطابق ان طاقتور حلقوں نے قطعی طور پر کہا ہے کہ نواز شریف کو باہر بھجوانے میں ان کا کوئی کردار نہ تھا بلکہ یہ فیصلہ وزیر اعظم عمران خان کا تھا۔

8 - ایک اور  یاد دہانی کے مطابق اسٹیبلشمنٹ نواز شریف کو 'ریاست مخالف' یا 'غدار' بھی نہیں سمجھتی۔

9 - پاکستان میں صدارتی نظام کی بحث ریڈ زون میں تاحال سلگ رہی ہے۔ بیشک اس فارمولے کو بہت زیادہ لوگوں کی تائید حاصل نہیں لیکن جن لوگوں کی تائید حاصل ہے وہ بہت طاقتور لوگ ہیں۔ دلیل اس کے لئے بار بار یہ دی جاتی ہے کہ برطانوی جمہوریت برطانیہ اور آسٹریلیا جیسے چند ہی ممالک میں کامیاب ہو سکا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان نے بھی اپنے ایسے ہی خیالات کو کبھی مخفی نہیں رکھا۔ منطق دراصل یہ بتائی جاتی ہے کہ ان کی ناکامیوں کی اصل وجہ یہ نظام ہے جو محض electables کو ایوانوں تک پہنچا دیتا ہے جو وزارت چلانے کے حوالے سے اتنی قابلیت نہیں رکھتے۔ اس پر طرہ یہ کہ بیوروکریسی بھی اچھی نہیں جس سے گورننس مزید تباہ حال ہے۔ ملک کے قابل ترین دماغ اب بیوروکریسی میں نہیں آنا چاہتے۔ اگر پاکستان کو اپنی گورننس کے طریقہ کار کو یکسر تبدیل کرنا ہے تو اس کے لئے اسے نظام میں کچھ بڑی تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی دونوں صدارتی نظام کو مسترد کر چکی ہیں لیکن ریڈ زون میں یہ معاملہ ابھی تک دھیمی آنچ پر سلگ رہا ہے۔

10 -  بشیر میمن کے انکشافات نے وزیر اعظم عمران خان، وزیر قانون فروغ نسیم، اور مشیر بیرسٹر شہزاد اکبر کو جس مشکل صورتحال سے دوچار کر دیا ہے، وہ قاضی فائز عیسیٰ کیس میں فیصلے کے ساتھ شاید اتفاقیہ سامنے آ گئے ہوں لیکن ان الزامات کی کوئی اہمیت اسی صورت میں ممکن ہوگی اگر اعلیٰ سطح پر ان الزامات پر کوئی کارروائی ہوئی۔ کارروائی نہ ہوئی تو پھر یہ محض سیاسی بیانیوں کی تشکیل میں کام آئیں گے یا پھر سازشی تھیوریاں گھڑنے والوں کو ان سے فائدہ ملے گا۔

اب جائیے، ان تمام نقطوں کو ملا کر کوئی خاکہ بنا لیجئے۔ اگر بنا سکتے ہیں تو۔