آج سماعت ساڑھے نو بجے شروع ہونی تھی اور سُپریم کورٹ کے ذرائع کل سے کنفرم کررہے تھے کہ کل دو بجے تک کسی جج نے اپنے آبائی شہر کے لیے سفر نہیں کیا تو امکان تھا کہ آج کوئی بھی جج وڈیو لنک پر دستیاب نہیں ہوگا بلکہ سب کمرہ عدالت میں ہوں گے۔
یاد رہے کہ جمعہ کو سماعت کے اختتام کرتے ہوئے جسٹس عُمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے تھے کہ اگلی سماعت پر کچھ ججز وڈیو لنک سے سماعت جوائن کریں گے۔ کورٹ روم نمبر ون میں وفاق کے وکیل اور سابق وفاقی وزیرِ قانون فروغ نسیم حکومتی وُکلا کے لیے مخصوص نشستوں کی بجائے اکیلے علیحدہ عام شُرکا کے لیے مخصوص نشستوں پر بیٹھے تھے۔ حکومتی بینچوں پر خالد رانجھا ایڈوکیٹ، ایسٹ ریکوری یونٹ کے سربراہ بیرسٹر شہزاد اکبر اور حکومتی ایم این اے ملیکا بُخاری موجود تھے۔ نو بجکر پینتیس منٹ پر کورٹ آگئی کی آواز لگی اور کمرہ عدالت میں موجود ہر شخص ججز کے احترام میں کھڑا ہوگیا۔
ذرائع کی خبر درست نکلی دس کے دس جج اسلام آباد میں ہی تھے۔ جسٹس قاضی امین سب سے پہلے اور فُل کورٹ کے سربراہ جسٹس عُمر عطا بندیال سب سے آخر میں کمرہِ عدالت میں داخل ہوئے۔ بیرسٹر فروغ نسیم کے روسٹرم پر آنے سے پہلے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے وکیل مُنیر اے ملک کراچی رجسٹری سے وڈیو لنک پر روسٹرم پر کھڑے نظر آرہے تھے۔ اںہوں نے فُل کورٹ سے استدعا کی کہ وہ حکومتی جوابات کا جواب الجواب داخل کرنا چاہتے ہیں، جس کی اجازت کراچی میں عملہ نے نہیں دی۔ جسٹس عُمر عطا بندیال نے آرڈر لکھوا دیا کہ یہ جواب داخل کروائے جاسکتے ہیں۔ اِس کے بعد بیرسٹر فروغ نسیم روسٹرم پر آگئے۔
بیرسٹر فروغ نسیم نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ مِس کنڈکٹ صرف قانون یا رولز کی خلاف ورزی نہیں بلکہ قوانین کے تحت کام کرنے والی باڈیز کے طے کردہ اصولوں کی خلاف ورزی بھی مِس کنڈکٹ کہلائے گی۔
بیرسٹر فروغ نسیم کا کہنا تھا کہ پاکستان کا آئین صنفی امتیاز نہیں کرتا۔ بیرسٹر فروغ نسیم کا مزید کہنا تھا کہ آج کے دور میں جج بہت طاقتور اور بااختیار عہدہ ہے لیکن اتنے اہم عہدہ کا اختیار بھاری ذمہ داری کے ساتھ آتا ہے۔ تریسٹھ ون کے این اور او کو پڑھیے آئین جج یا سرکاری مُلازم میں فرق نہیں کرتا۔
بیرسٹر فروغ نسیم نے اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے دلیل دی کہ اگر کسی جج کا احتساب کرنا ہو تو ججز کے کوڈ آف کنڈکٹ، سُپریم جوڈیشل کونسل کے رولز اور آئین کے آرٹیکل دو سو نو میں میاں بیوی کا فرق مناسب نہیں ہوگا۔ جسٹس عُمر عطا بندیال نے کہا کہ اِن دلائل کا اِس مُقدمہ سے تعلق بتائیں۔ بیرسٹر فروغ نسیم نے جواب دیا کہ جب کوئی شخص حکومت یا سرکار کی نوکری کررہا ہو تو اُس کے لیے اپنے اہلخانہ کے نام پر اثاثوں کی وضاحت قابلِ سزا ہوگا اگر اثاثے اُس کی آمدن سے زیادہ ہوں گے۔ بیرسٹر فروغ نسیم کا کہنا تھا کہ اُنیس سو چھپن، اُنیس سو باسٹھ اور اُنیس سو تہتر کا آئین سب صدرِ پاکستان سے لے کر ہر عہدے کو سروس آف پاکستان میں شُمار کرتے ہیں۔ بیرسٹر فروغ نسیم کا مزید کہنا تھا کہ آرٹیکل دو سو ساٹھ میں جو کہا گیا آرٹیکل دو سو تریسٹھ میں اُسکی وضاحت کردی گئی ہے کہ اگر کوئی پبلک سرونٹ مِس کنڈکٹ کرے گا تو وہ پبلک آفس ہولڈ کرنے سے نااہل ہوجائے گا۔
اِس موقع پر جسٹس مقبول باقر نے مُداخلت کی کہ میں آپ کو روکنا نہیں چاہتا تھا کہ لیکن یہ تو آپ کیس ہی نہیں تھا نہ آپ نے اِس پر میٹریل جمع کروایا تھا۔ بیرسٹر فروغ نسیم نے جواب دیا کہ ہمارا کیس یہ ہے کہ شوکاز جاری ہونے کے بعد ریفرنس چیلنج نہیں ہوسکتا۔ جسٹس عُمر عطا بندیال نے بیرسٹر فروغ نسیم سے وضاحت مانگی کہ آپ کہہ رہے ہیں کہ اگر شوکاز نوٹس جاری ہوگیا تو ریفرنس چل پڑا اِس لیے اب روکا نہیں جاسکتا؟ بیرسٹر فروغ نسیم نے جواب دیا کہ میں بالکل یہی کہہ رہا ہوں۔ بیرسٹر فروغ نسیم کا کہنا تھا کہ جب ایک بار ریفرنس کی سماعت شروع ہوگئی تو اِس علمی بحث کے لیے اِسکو سُپریم کورٹ میں چیلنج نہیں کیا جاسکتا۔
جسٹس مقبول باقر نے ریمارکس دئیے کہ یہ دیکھنا ہوگا آپ نے صدر کے سامنے کیا مواد رکھا اور کیسے ثابت کیا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ آمدن سے زائد کے اثاثے رکھتے ہیں۔ جسٹس مقبول باقر نے آبزرویشن دیا کہ یہ آپ کو جج کے ٹیکس ریٹرن سے ثابت کرنا ہوگا۔ بیرسٹر فروغ نسیم نے جواب دیا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے دو ہزار آٹھ اور نو کے ٹیکس ریٹرن اور ویلتھ اسٹیٹمنٹ میں اپنی آمدن اور اخراجات ظاہر کیے لیکن بیرونِ مُلک یہ جائیدادیں ظاہر نہیں کیں۔ بیرسٹر فروغ نسیم نے اپنی بات کو مزید سادہ انداز میں بیان کرنے کے لیے مثال دی کہ اگر کوئی امیر آدمی اپنی دولت ظاہر کردے لیکن بعد میں اُسکے کُچھ اضافی اثاثے بھی نکل آئیں تو سوال ہوگا۔ جسٹس مقبول باقر نے سوال اُٹھایا کہ پہلے یہ تو بتائیں کہ جج نے اِن جائیدادوں کی خریداری کے لیے فنڈنگ کی۔ بیرسٹر فروغ نسیم نے جواب دیا کہ سر میں آپ کی بہت عزت کرتا ہوں۔ جسٹس مقبول باقر نے تُرکی بہ تُرکی جواب دیا کہ میں بھی آپ کی بہت عزت کرتا ہوں لیکن ہم میں بہت بےچینی پائی جاتی ہے برائے مہربانی بتائیں کہ آپ اِس نتیجے پر کیسے پہنچے ہیں۔
بیرسٹر فروغ نسیم نے جواب دیا کہ اگر میں مہنگی گاڑی استعمال کرتا ہوں اور مہنگی جگہ پر رہتا ہوں تو یہ میرے ٹیکس ریٹرن سے ظاہر ہونا چاہیے اور جب یہ جواب سُپریم جوڈیشل کمیشن کو ٹیکس ریٹرن میں نہیں ملا تو میاں بیوی کے تعلق کی بُنیاد پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے سوال پوچھا گیا۔ جسٹس منصور علی شاہ نے سوال پوچھا کہ اگر بیوی کہتی ہے کہ یہ جائیدادیں اُن کو ورثہ میں ملی ہیں یا اُن کی اپنی آمدن کی ہیں تو کیا آپ نے اِس پہلو کو بھی دیکھا ہے؟ بیرسٹر فروغ نسیم نے جواب دیا کہ یہ جواب شوہر دے دیں۔
جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ پہلے یہ تو ثابت کریں کہ بیوی جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے زیرِ کفالت ہے۔ بیرسٹر فروغ نسیم نے جواب دیا کہ اگر آپ کا طرزِ زندگی آپ کی آمدن سے مُطابقت نہیں رکھتا تو سروس رولز کے تحت آپ کو اپنے طرزِ زندگی کی وضاحت کرنا ہوگی۔ جسٹس مُنیب اختر نے بیرسٹر فروغ نسیم کو ٹوک کر سروس رولز پڑھنے کا کہا۔ بیرسٹر فروغ نسیم نے سروس رولز پڑھ لیے تو جسٹس منیب اختر نے ریمارکس آبزرویشن دی کہ سروس رولز کے تحت سوال تو تب بنے کا اگر طرزِ زندگی آمدن سے مُطابقت نہ رکھتا ہو اور یہاں یہ کیس نہیں ہے تو اِن سروس رولز کا اطلاق بھی نہیں ہوگا۔ بیرسٹر فروغ نسیم نے اپنے نُکتے پر اصرار جاری رکھے کہ سرکاری ملازم اپنے اور اپنے بیوی بچوں کے آمدن سے زائد اثاثوں کی وضاحت کا پابند ہے۔ جسٹس مُنیب اختر نے سوال اُٹھایا کہ آپ اپنے پورے ریفرنس میں اسٹائل آف لیونگ یعنی طرزِ زندگی کا لفظ پڑھ کر بتائیں اگر وہاں نہیں تو آج آپ کہاں سے یہ لے کر آگئے؟ فُل کورٹ کے سربراہ جسٹس عُمر عطا بندیال نے ریمارکس دئیے کہ ہم آپ کے الزامات کا جائزہ لینے نہیں بیٹھے ہوئے وہ سُپریم جوڈیشل کونسل دیکھتی ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے سوال پوچھا کہ یہ کیسے ثابت ہوا کہ جج کی بیوی کے نام پر ناقابلِ وضاحت اثاثے ہیں؟ بیرسٹر فروغ نسیم نے جواب دیا کہ یہ ٹیکس ریٹرن سے لگ رہا تھا۔ جسٹس منصور علی شاہ نے اگلا سوال پوچھا کہ یہ ٹیکس ریٹرن سے کہا ظاہر ہورہا ہے؟ اِس موقع پر جسٹس مقبول باقر نے بیرسٹر فروغ نسیم کو یاد دلایا کہ سندھ ہائیکورٹ کے جسٹس کورائے کیس میں سُپریم کورٹ نے طے کردیا تھا کہ اثاثوں کا معاملہ ایف بی آر دیکھے گا۔ بیرسٹر فروغ نسیم نے جسٹس مقبول باقر سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ جی ہاں میں ہی اُن کا وکیل تھا اور آپ بھی بینچ کا حصہ تھے۔
اب دس رُکنی بینچ کے سربراہ جسٹس عُمر عطا بندیال نے بیرسٹر فروغ سے ایک ایسا سوال کیا جس نے کم از کم آج کی سماعت کی بحث کے رُخ کا تعین کردیا۔ جسٹس عُمر عطا بندیال نے سوال پوچھا کہ آپ یہ بتائیں آپ کا کیس ہے کیا؟ کیا آپ آمدن کے ذرائع کا پوچھ رہے یا انکم ٹیکس نہ دینے کا الزام لگا رہے؟ بیرسٹر فروغ نسیم نے جواب دیا کہ سر یہاں آمدن کے ذرائع نہیں بتائے جا رہے۔ جسٹس مقبول باقر نے جواب دیا کہ آپ نے جو بھارتی عدالت کا فیصلہ پڑھا اُس میں جج کے ذاتی اثاثے تھے جو انہوں نے ظاہر نہیں کیے تھے جبکہ یہاں جج کی بیوی کی جائیدادوں کا سوال ہے۔ جسٹس عُمر عطا بندیال نے بیرسٹر فروغ نسیم کی طرف سے آمر جنرل ایوب خان کے بنائے گئے اُنیس سو اُنہتر کے سروس رولز کے حوالہ دئیے جانے پر اظہارِ ناپسندیدگی کرتے ہوئے ریمارکس دئیے کہ آپ جن سروس رولز اُنیس سو اُنہتر کا حوالہ دے رہے ہیں میں اُن سے خوش نہیں ہوں کیونکہ وہ آئین کے آرٹیکل دس اے سے مُتصادم ہیں۔
اِس موقع پر جسٹس یحیٰ آفریدی نے سوال پوچھا کہ کل آپ کہیں گے کہ تمام ججوں سے ایف بی آر نہیں سُپریم جوڈیشل کونسل پوچھے گی؟ جسٹس یحیٰ آفریدی کا مزید کہنا تھا کہ اگر معاملہ آمدن کے ذرائع کا ہے تو ایف بی آر کو کارروائی کرنے دیں اور اگر وہاں جج جواب نہ دے سکے تو سُپریم جوڈیشل کونسل چلے جائیں۔ جسٹس منصور علی شاہ نے جسٹس آفریدی کی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے آبزرویشن دی کہ اگر ایف بی آر کہہ دیتی ہے کہ جائیدادیں بیوی کی ہیں تو آپ کو ہوسکتا ہے سُپریم جوڈیشل کونسل ہی نہ جانا پڑے۔ جسٹس مقبول باقر نے اِس موقع پر سوال کیا کہ یہ تو بتائیں مِس کنڈکٹ کی بُنیاد کیا بنی؟ وفاق کے وکیل نے جواب دیا کہ ڈسپلن کی کارروائی کا دائرہ اختیار ایک الگ سے دائرہ کار ہے جبکہ انکم ٹیکس آرڈیننس کی شق ایک سو سولہ اِس ریفرنس کا صرف ایک پہلو ہے۔
بیرسٹر فروغ نسیم کا کہنا تھا کہ اصل سوال یہ ہے کہ آمدن کہاں سے آئی کیونکہ بیوی کے ٹیکس ریٹرن اِس پر خاموش ہیں۔ جسٹس مقبول باقر نے سوال اُٹھایا کہ ایف بی آر نے کیا ایک سو سولہ، ایک سو چودہ، ایک سو سترہ اور ایک سو بیس کے نوٹس بھجوائے؟ جسٹس منصور علی شاہ نے سوال پوچھا کہ اگر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ جائیدادوں کی وضاحت کردیتی ہیں تو کیس ختم ہو جائے گا؟ بیرسٹر فروغ نسیم نے جواب دیا جی ہاں بالکل۔ جسٹس منصور علی شاہ فوراً بولے تو بیوی سے پوچھیے نہ آپ جج سے پوچھنے چلے گئے ہیں۔
دس رُکنی فُل کورٹ کے سربراہ جسٹس عُمر عطا بندیال نے ناگواری کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دئیے کہ جس سوال کا جواب جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ ایف بی آر میں دے سکتی تھیں آپ نے وہ ڈسپلن کا معاملہ بنا کر ہمارے نو ماہ ضائع کردئیے اور اِس نو ماہ میں جو بے چینی ہم میں پیدا ہوئی اُس کا ہمیں بہت دُکھ ہے۔ اِس موقع پر جسٹس عُمر عطا بندیال کا کہنا تھا کہ آپ جس اُنیس سو اُنہتر کے جنرل ایوب خان کے سروس کا حوالہ دے رہے ہیں وہ آمر کے بنائے قوانین ہیں۔ یعنی کہ جسٹس عُمر عطا بندیال نشاندہی کررہے تھے کہ سُپریم کورٹ کے جج کی وفاداری آئینِ پاکستان کے ساتھ ہوتی ہے نہ کے آئین کے غداروں کے ساتھ اور حکومت ایک آئین شِکن جرنیل کے بنائے قوانین پر ایک آئین پسند جج کو پراسکیوٹ کرنے کی بات کررہی ہے۔
بیرسٹر فروغ نسیم نے اپنے دلائل کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ اِن قوانین کو آج تک نہ تو سُپریم کورٹ نے کالعدم قرار دیا اور نہ ہی مُنتخب نمائندوں نے کسی آئینی ترمیم کے ذریعے ختم کیا۔ بیرسٹر فروغ نسیم کا موقف تھا کہ اگر یہ قوانین اب بھی موجود ہیں تو اِن کا اطلاق تو ہوگا۔ اِس موقع پر بیرسٹر فروغ نسیم نے ارسلان افتخار کیس میں جسٹس خلجی عارف کا اضافی نوٹ پڑھنا شروع کیا تو جسٹس مُنیب نے سوال پوچھا کہ یہ آپریشنل فیصلہ کا حصہ تھا یا ایک اضافی نوٹ کے طور پر اُن کی ذاتی رائے تھی؟ بیرسٹر فروغ نسیم نے جواب دیا کہ شاید اضافی نوٹ تھا۔ جسٹس مُنیب اختر نے ریمارکس دیا کہ یہ تکنیکی لحاظ سے اہم ہے اگر یہ فیصلہ کا حصہ نہیں ہے۔ بیرسٹر فرغ نسیم نے جسٹس ریٹائرڈ خلجی عارف کے اضافی نوٹ میں سے پڑھا کہ ججز ڈیوٹی کرتے ہوئے عوام کی نظر میں ہوتے ہوئے اِس لیے اُن کو اور اُن کے اہلخانہ کو پبلک ڈیلنگ میں بہت مُحتاط ہونا چاہیے۔
بیرسٹر فروغ نسیم نوٹ پڑھتے جارہے تھے جبکہ جسٹس مقبول باقر سے لے کر جسٹس قاضی امین تک دائیں سمت بیٹھے ججز میں سے کوئی بھی نوٹ نہیں پڑھ رہا تھا صرف بیرسٹر فروغ نسیم کو تکتے ہوئے یہ ججز نوٹ صرف سُن رہے تھے۔ اِس موقع پر جسٹس مُنیب اختر اور جسٹس سجاد علی شاہ آپس میں سرگوشیاں بھی کررہے تھے۔ اِسی دوران گھڑی نے دس بجکر اُنسٹھ بجائے تو دربان جاکر ججز کی نشستوں کے پیچھے کھڑے ہوگئے۔ بیرسٹر فروغ نسیم نے دستاویز پڑھتے ہوئے سر ہلکا سا اُٹھا کر دیکھا تو دربانوں کو کھڑا دیکھ کر خاموش ہوگئے۔ فُل کورٹ کے سربراہ نے جسٹس عُمر عطا بندیال نے بریک کے بعد بقیہ نوٹ سُننے کا کہہ کر سماعت میں آدھے گھنٹے کے وقفے کا اعلان کردیا۔
گیارہ پینتیس دوبارہ کورٹ آگئی کی آواز لگی تو سب سے پہلے جسٹس قاضی مُحمد امین احمد کمرہِ عدالت میں داخل ہوئے اور فُل کورٹ کے سربراہ کے پیچھے سب سے آخر میں جسٹس مقبول باقر داخل ہوئے۔ بریک کے بعد بھی جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے وکیل مُنیر اے ملک ایڈوکیٹ کراچی رجسٹری سے وڈیو لنک پر روسٹرم پر موجود تھے اور انہوں نے بینچ سے درخواست کی کہ وہ اور اُنکے ساتھی آنے والے دنوں میں اسلام آباد میں کورٹ روم نمبر ون میں موجود ہونا چاہتے ہیں اِس لیے اگر بیرسٹر فروغ نسیم کوئی ٹائم فریم دے دیں کہ وہ کب تک اپنے دلائل مُکمل کریں گے تو وہ اپنے سفر کے انتظامات کرلیں گے۔ مُنیر اے ملک کے بیٹھنے کے بعد بیرسٹر فروغ نسیم نے کینیڈین عدالت کا فیصلہ پڑھنا شروع کردیا اور بتایا کہ عدالت کی طاقت صرف عوام میں ساکھ ہوتی ہے۔ بیرسٹر فروغ نسیم کا کہنا تھا کہ اگر ایک جج کے بارے میں شکوک پیدا ہوجائیں اور عوام کا اعتماد مُتزلزل ہوجائے تو جج کو چاہیے کہ وہ رضاکارانہ طور پر عہدہ چھوڑ دے کیونکہ جج کی ساکھ سے پوری عدلیہ داو پر لگ جاتی ہے۔ جسٹس عُمر عطا بندیال نے ریمارکس دئیے کہ میں آپ کی آبزرویشن کو مانتا ہوں کہ جج کی ساکھ سے عدلیہ پر سوال آتا ہے لیکن کیا اِس مُقدمہ میں ثبوت کی بات بھی دیکھی جائے گی؟
بیرسٹر فروغ نسیم نے اب بھارتی عدالت کا فیصلہ نکال لیا کہ بھارت کی عدلیہ نے طے کردیا ہے کہ ڈسپلن کی خلاف ورزی پر کارروائی کیسے ہوگی۔ جسٹس مقبول باقر نے اختلاف کیا کہ بھارت کی آئینی سکیم میں جج کو ہٹانے کی کارروائی پاکستان سے مُختلف ہے۔ جسٹس مقبول باقر کا کہنا تھا کہ بھارت کا وضع کردہ طریقہ پاکستان میں لاگو نہیں ہوسکتا کیونکہ ہمارے آئین میں طریقہ کار مُختلف ہوتا ہے۔ جسٹس مقبول باقر کا مزید کہنا تھا کہ آپ مدارس ہائیکورٹ کے جس جج کے کیس کا حوالہ دے رہے ہیں اُس میں جج کی ذاتی جائیدادوں کا مواد سامنے رکھا گیا تھا جو سی بی آئی نکال کر لائی تھی۔ بیرسٹر فروغ نسیم نے دلیل دی کہ پاکستان اور بھارت کے قوانین کی بُنیادی روح ایک ہی ہے بس کارروائی کا طریقہ کار مُختلف ہے۔
بیرسٹر فروغ نسیم نے اِس موقع پر بھارتی سُپریم کورٹ کے جج کو ہٹانے کا دِلچسپ طریقہ کار بتایا کہ بھارت کے آئین کا آرٹیکل ایک سو چوبیس بتاتا ہے کہ بھارتی سُپریم کورٹ کے جج کو صدر کے حُکم کے بغیر نہیں ہٹا سکتے ہے۔ بھارتی آئین کی روح سے صدر بھی ہٹانے کا حُکم تب دے گا جب بھارت کے دونوں ایوانوں میں اکثریتی ووٹ جج کے خلاف آجائے اور اِس کے لیے دونوں ایوانوں میں ووٹنگ میں کم از کم دو تہائی ارکان حصہ لیں۔ لیکن ووٹنگ تک بات آنے سے قبل بھارت میں بھی ججز کی ایک کمیٹی کے آگے مواد کے ساتھ جج کے خلاف کارروائی کی شکایت درج کروائی جاتی ہے اور وہ کمیٹی جائزہ لے کر اگر الزم ثابت ہو جائے تو جج کے مواخذہ کے لیے معاملہ پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کو بھجواتی ہے جہاں سے مُواخذہ کے بعد بھارت کے صدر کو جج ہٹانے کے لیے فائل بھجوا دی جاتی ہے۔
اِس موقع پر جسٹس منصور علی شاہ نے سوال پوچھا کہ کیا میں ایف بی آر سے اپنی بیوی کے ٹیکس ریٹرن مانگ سکتا ہوں؟ بیرسٹر فروغ نسیم نے جواب دیا کہ یہ دیکھنے کے لیے مُجھے ریسرچ کرنا پڑے گی۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کندھے اُچکا کر کہا کہ سادہ سا سوال تھا اگر میں بیوی کے ٹیکس ریٹرن تک ایف بی آر سے نہیں لے سکتا تو اگر مُجھ سے سُپریم جوڈیشل کونسل سوال پوچھتی ہے تو میرا جواب ہوگا کہ میری بیوی خودمُختار ہے اور میں اُس کے ٹیکس گوشواروں تک رسائی نہیں رکھتا تو جواب بھی نہیں دے سکتا۔ اِس موقع پر بیرسٹر فروغ نسیم کے پِچھلی سماعت میں میاں بیوی کی نوعیت پر دیے گئے ریمارکس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ہدایت دی کہ برائے مہربانی اب مُجھے کوئی ( سیکسیسٹ) جنس پرست دلیل مت دیجیے گا۔ بیرسٹر فروغ نسیم نے جواب دیا کہ سر مُجھے یہ دیکھنا پڑے گا۔ جسٹس یحیٰ آفریدی نے اپنے ہمسایہ جسٹس منصور علی شاہ کے ریمارکس کو بُنیاد بناتے ہوئے آبزرویشن دی کہ اگر میں اپنی بیوی کے ٹیکس ریٹرن تک ایف بی آر سے نہیں لے سکتا تو پھر میں اپنی اہلیہ کا جواب بھی نہیں دے سکتا اور معاملہ ختم ہوجائے گا۔ بیرسٹر فروغ نسیم نے ایک بار پھر کہا کہ سر میں مُتعلقہ قانون سے دیکھ کر بتاوں گا۔ جسٹس منصور علی شاہ نے بیرسٹر فروغ نسیم کی معاون ٹیم کی طرف اشارہ کیا کہ آپ اپنی ٹیم سے کہیں وہ ابھی دیکھ دیتی ہے۔ بیرسٹر فروغ نسیم نے ججز کو ٹلتے نہ دیکھ کر پوزیشن اختیار کی کہ سر جواب میں نے دینا ہے ٹیم نے نہیں۔
بیرسٹر فروغ نسیم کا کہنا تھا کہ ممبئی ہائیکورٹ کے جج نے صرف اِس بُنیاد پر استعفیٰ دے دیا تھا کہ اُنہوں نے کُچھ کتابیں لکھی تھیں جن کی رائلٹی ظاہر نہیں کی تھی۔ بیرسٹر فروغ نسیم کا مزید کہنا تھا کہ بھارتی عدالت نے جج کے دفتر کو عوامی اعتماد سے مشروط کیا ہے جبکہ پاکستان نے مُسلمان مُلک ہونے کی وجہ سے مزید اعلیٰ معیار مُقرر کرتے ہوئے اِس کو مُقدس دفتر کا درجہ دیا ہے جو جج پر مزید بڑی اخلاقی ذمہ داری عائد کرتا ہے۔
بیرسٹر فروغ نسیم نے فُل کورٹ کو بتایا کہ پاکستان میں ججز کو اتنی اہمیت حاصل ہے کہ اگر سُپریم کورٹ کا ایک جج بھی کوئی فیصلہ دے تو عوام کہتی اب تو مُہر لگ گئی کہ یہ بات تھی ہی ایسے۔ اِس موقع پر بیرسٹر فروغ نسیم نے جج کی خودمُختاری کو اُس کی ساکھ سے مشروط کیا جس کے لیے بقول بیرسٹر فروغ نسیم اِس بات کی بہت اہمیت ہے کہ جج اعلیٰ اخلاقی اقدار کی کیا مثال قائم کرتا ہے۔ اب جسٹس منصور علی شاہ نے انتہائی اہم سوال کیا کہ تو آپ کیا مانتے ہیں کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کیس عدلیہ کی خودمُختاری اور آزادی کا مُقدمہ ہے؟ بیرسٹر فروغ نسیم نے کمزور آواز میں سر ہلاتے ہوئے کہا جی یہ عدلیہ کی آزادی کا بھی مُقدمہ ہے۔ بیرسٹر فروغ نسیم نے ایک دم سے دفاعی پوزیشن چھوڑتے ہوئے جوش سے کہا کہ ہمیں جسٹس منصور علی شاہ صاحب آپ پر فخر ہے جب آپ لاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس تھے تو آپ نے خط لکھ کر رضاکارنہ طور پر اپنے تمام اثاثے ظاہر کرکے جو مثال قائم کی تھی وہ قابلِ تقلید ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے اپنی تعریف تاثرات سے عاری چہرے کے ساتھ سُنی تو فُل کورٹ کے سربراہ جسٹس عُمر عطا بندیال نے ریمارکس دئیے کہ جسٹس منصور علی شاہ کے اُس خط پر پوری لاہور ہائیکورٹ کو فخر ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کینڈین عدالت کے فیصلے میں ایک اصطلاح کا پوچھا کہ یہ ایس سی آر ایس کیا ہے؟ بیرسٹر فروغ نسیم نے جواب دیا کہ یہ پوچھ کر بتاؤں گا۔ جسٹس منصور علی شاہ نے ہنستے ہوئے طنز کیا کہ آپ ابھی پوچھ کر بتادیں کیونکہ بعد میں آپ بتاتے نہیں ہوتے۔ اِس موقع پر پورے کمرہِ عدالت میں قہقہ لگا اور بیرسٹر فروغ نسیم شرمندگی سے ہلکے سے جھینپ گئے۔ جسٹس مُنیب اختر نے مُداخلت کرتے ہوئے جسٹس منصور علی شاہ کو بتایا کہ یہ فرینچ اصطلاح ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے بیرسٹر فروغ نسیم سے اگلا سوال کیا کہ اگر سُپریم جوڈیشل کونسل جج سے اُس کی بیوی کی جائیداد کا سوال کرتی ہے اور جج کہتا ہے کہ میری بیوی خودمُختار ہے اپنی آمدن رکھتی ہے اور میرا اُس کی آمدن اور جائیدادوں سے کوئی تعلق نہیں تو سُپریم جوڈیشل کونسل کِس قانون کے تحت جج پر دباو ڈال سکتی ہے کہ وہ اپنی بیوی کی پراپرٹی کا جواب دے؟ بیرسٹر فروغ نسیم نے جواب دیا کہ سُپریم جوڈیشل کونسل کہہ سکتی ہے کہ جج صاحب آپ اعلیٰ اخلاقی معیار قائم کرتے ہوئے جواب دیں۔
بیرسٹر فروغ نسیم نے ایک بار پھر جسٹس منصور علی شاہ کی تعریف کرتے ہوئے جواب کے لیے مُہلت مانگی کہ سر میں آپ کو جواب دوں گا میں آپ پر فخر کرتا ہوں۔ بیرسٹر فروغ نسیم نے طنز کیا کہ آپ جواب دیتے نہیں ہیں ابھی تک ایسٹ ریکوری یونٹ کا جواب بھی نہیں دیا۔ بیرسٹر فروغ نسیم نے خفگی چُھپانے کے لیے مُسکراتے ہوئے کہا کہ سر میں کہہ رہا ہوں مُجھے آپ پر فخر ہے آپ پھر بھی مُجھے ایسی باتیں سُنا رہے ہیں۔ اِس پر کمرہِ عدالت میں ایک اور قہقہ لگا اور ججز بھی جسٹس منصور علی شاہ اور بیرسٹر فروغ نسیم میں جاری اِس نوک جھونک پر ہنس دیے۔
اِس موقع پر جسٹس عُمر عطا بندیال کا کہنا تھا کہ جج کی نجی زندگی میں اُس کے بیوی بچے بھی آتے ہیں آپ نے ایسا کرکے جج کی نجی زندگی کو بھی مُتاثر کیا ہے۔ جسٹس عُمر عطا بندیال کا کہنا تھا کہ بیرسٹر فروغ نسیم آپ نے جبرالٹر کی عدالت کے جس جج کا کیس بیان کیا اُس میں بیوی نے بار کے بارے میں خط لِکھ کر اپنے شوہر کو بھی معاملہ میں فریق بنا لیا تھا جبکہ یہاں ایسا معاملہ نہیں ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے اِس موقع پر انتہائی اہم ریمارکس دیے کہ اگر جج کی بیوی سے ایف بی آر سوال پوچھتا ہے کہ آپ نے جائیداد کیوں نہیں ظاہر کی اور وہ جواب نہیں بھی دیتی تو ایف بی آر اُن سے جائیداد ظاہر نہ کرنے کا جُرمانہ لے کر بات ختم کردے گا اور ایسی صورت میں بھی کیس جج تک نہیں جاتا۔ جسٹس مںصور علی شاہ کا کہنا تھا کہ جب تک آپ کوئی ایسی منی ٹریل نہیں پیش کرتے کہ اِس جائیدادوں کی خریداری کے لیے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے رقوم ٹرانسفر کیں آپ جج سے سوال نہیں کرسکتے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے بیرسٹر فروغ نسیم سے سوال پوچھا کہ قانون میں دکھائیں کہ کہاں لکھا ہے کہ اگر بیوی خودمُختار ہے تو بھی جج کے خلاف کاروائی ہوسکتی ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے سوال اُٹھایا کہ یہ سوشل میڈیا کا دور ہے آپ جعلی اکاونٹس سے کسی جج کے ذات پر کیچڑ اُچھالیں الزامات لگائیں اور کل آکر عدالت میں کہیں کہ جج صاحب آپ کی ساکھ مُتاثر ہوگئی ہے عُہدہ چھوڑ دیں۔
بیرسٹر فروغ نسیم بولے سر میں اِس بات کا جواب دیتا ہوں ورنہ آپ کہیں گے کہ جواب نہیں دیا۔ جسٹس منصور علی شاہ نے پھر چوٹ کی کہ یہ پہلا موقع ہے آپ کسی سوال کا جواب دیں گے۔ یہ کہہ کر جسٹس منصور علی شاہ نے مُسکرا کر اپنے بائیں ہاتھ بیٹھے جسٹس یحیٰ آفریدی کی طرف دیکھا جو پہلے سے معنی خیز مُسکراہٹ کے ساتھ بیرسٹر فروغ نسیم کا چہرہ دیکھ رہے تھے۔ بیرسٹر فروغ نسیم کا کہنا تھا کہ جھوٹے الزام اور خبر کی کوئی اہمیت نہیں لیکن یہاں جج صاحب کی اہلیہ کے نام جائیدادیں نکلی ہیں۔ جسٹس مقبول باقر نے بیرسٹر فروغ نسیم کو یہیں سے پکڑ لیا اور ریمارکس دئیے کہ آپ جا کر جج کی اہلیہ سے پوچھ لیں ناں۔ جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دئیے کہ جج تو کہہ رہا ہے آپ میری اہلیہ سے پوچھ لیں۔ اِس موقع پر جسٹس یحیٰ آفریدی نے بیرسٹر فروغ نسیم کو کہا کہ آپ یہ بھی بتائیں کہ صدر کے سامنے کیا مُواد رکھا گیا تھا۔ بیرسٹر فروغ نسیم نے جواب دیا کہ میں سوالات کی فہرست میں یہ سوال نوٹ کرلیتا ہوں۔
جسٹس منصور علی شاہ نے ایک بار پھر طنز کیا کہ اور آپ کے پاس میرے سوالوں کی طویل فہرست بھی موجود ہوگی جن کا جواب بھی ابھی تک آپ نے دینا ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے اِن ریمارکس کے بعد معنی خیز انداز میں جسٹس یحیٰ کی طرف سر گُھما کر دیکھا تو وہ پہلے سے ہی سراہنے والے انداز میں مُسکراہٹ کے ساتھ کُہنی ٹیبل پر رکھے اپنے گالوں پر ہاتھ ٹکائے جسٹس منصور علی شاہ کی طرف دیکھ رہے تھے۔
اِس موقع پر فُل کورٹ کے سربراہ جسٹس عُمر عطا بندیال نے سماعت کا اختتام کرتے ہوئے اہم ریمارکس دئیے اُن کا کہنا تھا کہ اگر آپ کا کیس ذرائع آمدن کا ہے تو اِن جنرلائز ٹرمز کے ذریعے ایک جج کو نشانہ مت بنائیے۔ جسٹس عُمر عطا بندیال نے بیرسٹر فروغ نسیم کی توجہ دلاتے ہوئے کہا کہ پاکستان بھر کی وُکلا تنظیمیں آپ کو معلوم ہوگا جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے ساتھ اِس لیے کھڑی ہیں کیونکہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی ذات پر آج تک کسی نے بددیانتی اور مالی کرپشن کا الزام نہیں لگایا۔
جسٹس عُمر عطا بندیال کا کہنا تھا کہ آج آپ نے اِس کو آمدن کے ذرائع کا کیس بنا کر انکم ٹیکس لا کی شِق ایک سو سولہ سے فاصلہ اختیار کیا ہے تو پھر جج کہہ رہا ہے آپ میری بیوی سے سوال کریں۔ دس رُکنی فُل کورٹ کے سربراہ کا مزید کہنا تھا کہ آپ ہم سے ٹیکس امور پر فیصلہ مانگ رہے ہیں جبکہ آپ نے ابھی تک ایف بی آر کو کارروائی نہیں کرنے دی اور ایف بی آر کے بعد بھی ٹربیونل اور ہائیکورٹ کا فورم ہے وہاں سے بھی رجوع نہیں کیا سیدھا ہمارے پاس آگئے ہیں۔ بیرسٹر فروغ نسیم کا کہنا تھا لیکن سر شوکاز نوٹس جاری ہوچُکا ہے۔ جسٹس مقبول باقر نے جواب دیا کہ اگر بُنیاد ہی غلط رکھی گئی ہو تو شوکاز کی اہمیت نہیں رہتی۔ جسٹس منصور علی شاہ نے اِس موقع پر انتہائی اہم اور سخت آبزرویشن دی کہ اگر ہم جج قابلِ احتساب ہیں تو یاد رکھیے کہ اگر ریفرنس غلط نکلا تو جنہوں نے ریفرنس بنایا پھر اُن کا بھی احتساب ہوگا۔ بیرسٹر فروغ نسیم نے سٹپٹا کر جواب دیا کہ سر جائیدادیں جج کی اہلیہ کی نکلی ہیں لیکن ایسا لگ رہا ہے کٹہرے میں حکومت کھڑی ہے۔
جسٹس عُمر عطا بندیال نے موضوع بدلتے ہوئے بیرسٹر فروغ نسیم سے استفسار کیا کہ دوسری طرف نے تئیس دِن دلائل دئیے تھے آپ سے درخواست ہے آپ جتنی جلدی دلائل ختم کرلیں کیونکہ ابھی تک آپ نے پہلے نُکتے پر بھی دلائل نہیں سمیٹے۔ بیرسٹر فروغ نسیم نے جواب دیا کہ میں دو دِن میں دلائل ختم کرلوں گا جس کے بعد خالد رانجھا اور عرفان قادر دلائل دیں گے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے سوال پوچھا کہ بیرسٹر فروغ نسیم آپ کا حساب کتاب ٹھیک ہے ناں؟ آپ کہہ رہے ہیں کہ دو دِن میں دلائل مُکمل کرنے ہیں۔ فُل کورٹ کے سربراہ جسٹس عُمر عطا بندیال نے اپنے ساتھی جج کی بات سے اتفاق کرتے ہوئے ریمارکس دئیے کہ بیرسٹر فروغ نسیم آپ کا ماضی بتاتا ہے کہ آپ دو دِن میں دلائل ختم نہیں کریں گے۔ بیرسٹر فروغ نسیم نے جواب دیا کہ پھر تیسرا دِن دے دیجیے گا اگر دلائل باقی ہوئے تو۔ اِس کے بعد سماعت کل صُبح ساڑھے نو بجے تک مُلتوی کردی گئی۔
کمرہِ عدالت سے باہر نکلتے ہوئے سوچ رہا تھا کہ بظاہر حکومتی حِکمتِ عملی یہ ہے کہ ججز کے سوالات کے جواب سے پہلے اپنی بات مُکمل کی جائے تاکہ عدالت سے باہر عوامی رائے عامہ ریفرنس کے حق میں ہموار کرکے فُل کورٹ کے ججز پر دباو ڈالا جاسکے۔