سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن نے سپریم کورٹ کے جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف وفاقی حکومت کی جانب سے سپریم جوڈیشل کونسل میں دائر کئے گئے صدارتی ریفرنسز کو سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا ہے۔
سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر امان اللہ نے آئین کے آرٹیکل 184(3) کے تحت دائر کی گئی درخواست میں صدر پاکستان کو ان کے پرنسپل سیکریٹری، وفاق پاکستان کو سیکریٹری قانون جب کہ سپریم جوڈیشل کونسل کو اس کے سیکریٹری کے ذریعے فریق بناتے ہوئے مؤقف اختیار کیا ہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف وفاقی حکومت کی جانب سے سپریم جوڈیشل کونسل میں دائر کئے گئے صدارتی ریفرنس نمبر 1/2019 اور 4227/2019 بدنیتی سے دائر کئے گئے ہیں جن کی کوئی قانونی بنیاد ہی نہیں، اس لئے انہیں امتیازی اور روز اول سے ہی غلط قرار دیتے ہوئے کالعدم قرار دیا جائے۔
درخواست گزار نے کہا ہے کہ وزیراعظم اور صدر نے آئین کے آرٹیکل 209 کے مطابق اپنی رائے نہیں دی ہے، جب کہ انکم ٹیکس آرڈیننس کی دفعہ 116 کے تحت کوئی شخص بھی اپنی بیوی یا بچوں کے وہ اثاثے ظاہر کرنے کا پابند ہی نہیں ہے جو اس نے اپنی رقم سے نہ خریدے ہوں، یا وہ بے نامی نہ ہوں۔
درخواست گزار نے کہا ہے کہ اٹارنی جنرل یا سپریم جوڈیشل کونسل کے پاس انکوائری کے دائرہ کار کو بڑھانے کا کوئی اختیار نہیں ہے، سپریم جوڈیشل کونسل کی جانب سے اضافی حقائق اور دستاویزات کا شوکاز نوٹس کے اجرا اور اس کے جواب سے قبل جائزہ لینا آئین کے آرٹیکل 209 اور 10 اے سے بھی متصادم ہے۔
درخواست گزار نے کہا ہے کہ جسٹس قاضی فائز کی جانب سے صدر کو لکھے گئے خط پر شوکاز نوٹس کا اجرا بھی ایک جج کی خود مختاری کے خلاف ہے کیونکہ ایسے ضابطے ججوں پر نہیں صرف سرکاری افسران پر لاگو ہوتے ہیں۔