4 اگست 2017 کو ڈائریکٹر جنرل وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (جسے عرفِ عام میں FIA کہا جاتا ہے) کے عہدے پر تعینات ہونے اور پھر دسمبر 2019 میں انتہائی بھونڈے طریقے سے اس عہدے سے ہٹائے جانے والے بشیر میمن آج اپنی پنشن کے لئے قانونی جنگ جیت چکے ہیں۔ سیاسی طور پر یہ ایک انتہائی نازک موقع تھا جب انہیں اس ادارے کا سربراہ لگایا گیا تھا۔ نواز شریف کو وزارت عظمیٰ سے فارغ ہوئے ابھی ایک ہفتہ ہی ہوا تھا اور شاہد خاقان عباسی نے اسی ہفتے ان کی جگہ سنبھالی تھی۔ بشیر میمن شاہد خاقان عباسی کے دور میں بھی وزیر اعظم رہے اور پھر وزیر اعظم عمران خان کے ساتھ بھی اپنے عہدے پر برقرار رہے لیکن پھر ان کے وزیر اعظم صاحب سے کچھ ایسے اختلافات پیدا ہوئے کہ انہوں نے 16 دسمبر 2019 کو ریٹائر ہونا تھا مگر 2 دسمبر کو ان کا تبادلہ کر دیا گیا۔ اس سے پہلے یہ قریب ساڑھے تین ماہ کے لئے ’جبری چھٹی‘ پر تھے۔ مطیع اللہ جان کو انٹرویو دیتے ہوئے بشیر میمن نے اپنی وزیر اعظم عمران خان کے ساتھ آخری ملاقات کا احوال بیان کرتے ہوئے بتایا ہے کہ اس اجلاس میں عمران خان ان پر کس طرح برسے اور انہیں صاف جواب دیا کہ قانون کے مطابق ہی چلوں گا تو ان کے عتاب کا شکار ہوئے۔انہوں نے بتایا کہ اس ملاقات سے قبل ہی میری 15 روز کی چھٹی تسلیم کیا جا چکی تھی، جو کہ میں نے عمرے کے لئے لے رکھی تھی، لیکن جب واپس آئے تو ان کو 15 دن کی زبردستی چھٹی دے دی گئی۔ پھر ہر 15ویں روز انہیں 15 روز کی چھٹی دے دی جاتی۔ ’’جب صرف 15 یا 20 دن رہ گئے تو مجھے یہ پروانہ موصول نہیں ہوا، میں نے پوچھا کہ میں اب کیا کروں تو مجھے اعظم سلیمان صاحب نے کہا کہ آپ واپس نوکری پر آ جائیں۔ لیکن جب میں پہنچا تو تیسرے روز میرا تبادلہ کر دیا گیا۔ مجھے لگا کہ یہ میری تضحیک تھی کہ مجھے ریٹائرمنٹ سے دو ہفتے پہلے یوں میرے عہدے سے ہٹایا جا رہا تھا‘‘۔
اس سب کی وجہ بقول بشیر میمن کے یہ تھی کہ جو کچھ کرنے کے لئے وزیر اعظم ان پر دباؤ ڈال رہے تھے، وہ کرنے کے لئے یہ تیار نہیں تھے۔ ان کے مطابق جتنے بھی کیسز نیب نے لوگوں کے خلاف بنائے تھے، وزیر اعظم چاہتے تھے کہ یہ کیسز FIA بناتی مگر میں اس بے عزتی سے بچنا چاہتا تھا۔ میں صرف اس وقت اپنی عزت بچانا چاہتا تھا کہ جو کچھ آج نیب کے بارے میں عدالتیں کہہ رہی ہیں، وہ میرے بارے میں نہ کہیں۔
ان کیسز کی تحقیقات کے حوالے سے بشیر میمن کو کہا گیا کہ وہ سابق وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف، ان کی اہلیہ اور ان کے بچوں کے خلاف کیسز بنائیںں۔ بقول ان کے مجھے پنجاب بریفنگ کے لئے بھی بھجوایا گیا۔ میں نے یہی بتایا کہ یہ پنجاب انٹی کرپشن کا کیس تھا، اس میں FIA کا کوئی تعلق نہیں تھا۔ نواز شریف اور مریم نواز کے علاوہ عمران خان کی خواہش تھی کہ وہ مریم نواز کے شوہر کیپٹن (ر) صفدر کے خلاف بھی مقدمہ بنائیں۔
ایک موقع پر مریم نواز کے سوشل میڈیا سیل کی جانب سے خاتونِ اول بشریٰ مانیکا کی کوئی تصویر وائرل کی گئی تھی جس پر وزیر اعظم کے دفتر سے کہا گیا کہ ان لوگوں کے خلاف دہشتگردی کا مقدمہ بنایا جائے۔ ’’میں نے پوچھا کہ کس قانون کے تحت دہشتگردی کا مقدمہ بنے گا؟‘‘ ٹھیک ہے کہ ایک تصویر سوشل میڈیا پر ڈالی گئی لیکن یہ دہشتگردی کیسے ہے؟ اور تصویر بھی کوئی نازیبا نہیں، عام سی تصویر تھی۔ مگر وزیر اعظم ہاؤس کا کہنا تھا کہ اس پر دہشتگردی کا مقدمہ بنایا جائے جو کہ میں نے نہیں بنایا۔
بشیر میمن کے مطابق شاہد خاقان عباسی پر مقدمات بنانے کے لئے بھی دباؤ ڈالا گیا۔ ان میں LNG کا کیس بھی تھا، دیگر بھی تھے۔ لیکن یہ ساری چیزیں اس لئے defeat ہو جاتی ہیں کہ بعد ازاں نیب سے وہ تمام کیسز بنوا لیے گئے۔
خواجہ آصف سے متعلق مقدمے پر بات کرتے ہوئے بشیر میمن نے کہا کہ یہ بڑا عجیب سا کیس تھا کہ انہوں نے بطور وزیرِ دفاع ایک دبئی کی کمپنی میں نوکری کی تھی لہٰذا ان پر آرٹیکل 6 کا مقدمہ بنایا جائے۔ لیکن ہمیں کوئی شواہد چاہیے ہوتے ہیں، اور وہ تھے نہیں۔
وزیر اعظم عمران خان کے ساتھ اپنی آخری ملاقات کا ذکر کرتے ہوئے بشیر میمن نے کہا کہ میں نے عمرے کی چھٹی کے لئے درخواست دے رکھی تھی، اور میرے جانے میں دو دن باقی تھے۔ اس ملاقات میں وزیر اعظم بھی تھے، پرنسپل سیکرٹری بھی تھے۔ مجھے کہا گیا تھا کہ تمام اہم کیسز پر بات چیت ہوگی، میں وہ فائلیں بھی لے گیا۔ یہاں مجھے کہا گیا کہ K-Electric تباہ ہو گئی۔ میں نے کہا کہ جی ان کے پاس سوئی گیس کے 87 ارب روپے ہیں، اور یہ کوئی الزام نہیں تھا، FIA یہ ثابت کر چکی تھی۔ ان کی طرف پیسے بنتے تھے، اب کمپنی تباہ ہو گئی یا چل گئی، اس کا FIA سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ عمران خان صاحب کا خیال تھا کہ ہمیں یہ کیس نہیں بنانا چاہیے تھا۔ میں نے وزیر اعظم کو کہا کہ جناب وہ کمپنی تباہ ہو گئی ہے یا جو بھی ہے، اب اگر انہوں نے SNGPL کے پیسے دینے ہیں تو وہ تو دینے ہیں۔ اس پر وہ بہت ناراض ہوئے۔
بشیر میمن کے مطابق اس اجلاس میں خواجہ آصف کے کیس کا ذکر بھی آیا، شریف خاندان پر کیسز کے حوالے سے بھی وہ بہت نالاں تھے کیونکہ ان کے خیال میں میں نے ان سب کو چھوڑ دیا تھا۔ میں نے کہا کہ سر نیب ہے نا، آپ ان سے یہ کیسز بنوا لیں۔ میں قانون کے خلاف کام نہیں کر سکتا تھا۔ وزیر اعظم صاحب پھر بہت جذباتی ہو گئے۔ میں نے کہا کہ سر جذباتی ہونے والی کوئی بات ہی نہیں ہے، تین مہینے میری نوکری رہ گئی ہے، 22واں گریڈ مجھے مل چکا ہے، اس سے اوپر کوئی عہدہ نہیں ہے، کام تو ایسے ہی ہوگا جس کے بعد ان کے ساتھ وہ سلوک روا رکھا گیا جو اوپر بیان کیا گیا ہے اور ریٹائرمنٹ پر ان کی پنشن بھی روک دی گئی جسے اب اسلام آباد ہائی کورٹ نے فوراً بحال کرنے کا حکم دے دیا ہے۔
اپنے انٹرویو میں جہاں بشیر میمن نے وزیر اعظم عمران خان کی شریف خاندان اور مسلم لیگ ن کے دیگر رہنماؤں کے خلاف مقدمات بنانے کی شدید خواہش سے پردہ ہٹایا ہے، وہیں انہوں نے ابراج گروپ کے خلاف ان کی جانب سے انکوائری کرنے پر عمران خان کے نالاں ہونے کا ذکر بہت اہم ہے۔ اس انٹرویو سے جہاں عمران خان کی سیاسی مخالفین کے خلاف سرکاری اور ریاستی مشینری کو استعمال کرنے کی بات سامنے آتی ہے، وہیں یہ بھی اہم ہے کہ یہ معاملہ محض کرپشن پکڑنے کا نہیں تھا۔ کیونکہ اگر ان کا مقصد کرپشن کا خاتمہ ہوتا تو وہ ابراج گروپ کی انکوائری پر ناراض نہ ہوتے۔ یاد رہے کہ ابراج گروپ کے مالک عارف نقوی کے خلاف برطانیہ اور امریکہ میں بڑی بڑی کمپنیوں اور شخصیات کے ساتھ فراڈ کرنے کا مقدمہ اس وقت برطانیہ میں قائم ہے اور دورانِ تفتیش جب ان سے پوچھا گیا تھا کہ پاکستان جا کر اگر وہ غائب ہو گئے تو ان کو واپس کیسے لایا جائے گا تو عارف نقوی نے صدر عارف علوی اور وزیر اعظم عمران خان کے رابطہ نمبر دیے تھے، جس کے بعد برطانوی تحقیقاتی ادارے نے عدالت میں کہا تھا کہ اس شخص کے پاکستان میں طاقتور لوگوں کے ساتھ تعلقات ہیں اور اسے پاکستان جانے کی اجازت نہیں دی جانی چاہیے۔ یہی وجہ تھی کہ عارف نقوی پر دورانِ تفتیش برطانیہ سے باہر جانے پر پابندی عائد کی گئی۔
یہاں یہ ذکر کرنا بھی ضروری ہے کہ عارف نقوی عمران خان صاحب کے پرانے دوست ہیں۔ ابراج گروپ روزِ اول سے ہی پاکستان تحریک انصاف کا ایک بڑا ڈونر رہا ہے اور اخباری اطلاعات کے مطابق 2013 کے انتخابات میں تحریکِ انصاف کو ملنے والی کل فنڈنگ کا ایک تہائی حصہ صرف ابراج گروپ کی جانب سے دیا گیا تھا جب کہ 2018 میں بھی تحریک انصاف کو بھاری فنڈنگ اس ادارے کی جانب سے دی گئی۔
https://www.youtube.com/watch?v=1p5Cao5XoX8#action=share