کرنٹ لگنے سے ہلاکتوں پر مقدمات درج کرنے کی پالیسی میں تبدیلی کا فیصلہ کیا گیا ہے جس کے مطابق کراچی میں شہر بھر کے تھانے داروں کو ہدایت کی گئی ہے کہ کے الیکٹرک کے خلاف مقدمات کے اندراج سے قبل افسران سے پوچھا جائے اور کے الیکڑک سے تصدیق کے بعد ہی مقدمات درج کیے جائیں۔
سندھ حکومت کے اس انوکھے اقدام پر تھانیدار بھی حیران ہیں کہ ایسا کیسے ہوسکتا ہے کہ کے الیکٹرک جو ان مقدمات میں فریق ہو گی اس کے افسران سے ہی پوچھ کر مقدمات درج کیے جائیں.
https://www.facebook.com/NayaDaurUrdu/videos/704055326724301/?__xts__%5B0%5D=68.ARD7_VST1MStRdL_bT7LwHVW7LGNQT_eXlUxe5lRPa250YWXnZGFn2kh-oaVZbZt4VhfQpUcBrD16OYqVBNmzBllPYr2Jfk8g5hobA7qRUUSZiGc4ahnok1RTVuttIS6zX2W9Bz0dkKwRjHk3vlByGNmnccmSMhhqgP1ftmBqcfO7ApJSl7uRpSZOxZORUgn7l7PLUBsKboI4aOO8gZ8LZHmith0wtEU3rHphZ_oYJnBA5cpPa2vr9E1UAnbxO-O7Qm63fC0rhHYjsimY7VqEmbk06bvEwHMSsF6EqBvfP7yzWJQ6lhC3EOsUa4QVpraAZtBCp3te5A_kajTApRvhabQ28jfZ3XC9hk&__tn__=-R
اس انوکھی صورتحال پر شہریوں نے خدشات کا اظہار کیا ہے اور سپریم کورٹ سے نوٹس لینے کا مطالبہ کیا ہے۔
یاد رہے کہ شہر میں کرنٹ لگنے سے ہلاکتوں کے بعد سے کے الیکٹرک کے خلاف مقدمات کا اندراج کیا جا رہا ہے۔ کراچی میں حالیہ بارشوں کے دوران بجلی کے کھلے تاروں اور کھمبوں سے کرنٹ لگنے کے سبب کم سے کم 22 افراد ہلاک ہوئے جن میں زیادہ تر بچے تھے۔
اس کے علاوہ کراچی میں بارشوں کے دوران کرنٹ لگنے سے انسانی جانوں کے ضیاع کے معاملے پر نیپرا کی تحقیقاتی ٹیم نے ہلاکتوں کی تمام ذمہ داری کے الیکٹرک پر ڈال دی ہے۔ نیپرا نے کے الیکٹرک کے خلاف کارروائی کی سفارش کی ہے۔ دورہ کراچی کے بعد ٹیم نے رپورٹ نیپرا کو جمع کرادی۔
تحقیقاتی ٹیم نے رپورٹ نیپرا کو جمع کرادی جس میں کے الیکٹرک کے خلاف کارروائی کی سفارش کی گئی ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق کمشنر کراچی افتخار شلوانی نے کے-الیکٹرک حکام کے ساتھ ملاقات کی، اس دوران انہوں نے کراچی میں ادارے کی خراب کارکردگی پر شدید ناراضی اور تشویش کا اظہار کیا جو 22 افراد کی موت باعث بنی۔ شہری انتظامیہ نے کرنٹ لگنے کے باعث ہونے والی اموات کا نوٹس لیتے ہوئے اعلیٰ سطح کا اجلاس طلب کیا تھا جس میں دیگر متعلقہ حکام کو بھی طلب کیا گیا تھا۔
اس سے قبل کراچی کی ابتر صورتحال پر ایک کیس کی سماعت کے دوران جسٹس فیصل عرب کا کہنا تھا کہ دو دن صرف کرنٹ لگنے سے 22 لوگ مرگئے مگر پانی کی نکاسی نہیں ہوئی،عدالت نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ اگر نکاسی ہوجاتی تو شاہد ہلاکتیں نہیں ہوتیں ، کے الیکٹرک کو کوئی پوچھنے والا ہے ؟ کسی نے ان کا گریبان پکڑا ؟عوامی خدمت کے ادارے غیر ملکی کمپنیوں کو دینے سے پہلے سوچنا چاہئے تھا ، کے الیکٹرک نے کچھ ڈلیور نہین کیا سارے تانبے کی تاریں بیچ کر المونئیم کی تاریں لگا دیں ،آپ سب لوگ ملے ہوے ہیں شہر کا انفرا اسٹرکچر تباہ کردیا ،کیا ماڈرن شہر میں لوگ کرنٹ لگنے سے مرتے ہیں ؟؟ کمشنر کراچی کا کہنا تھا کہ کے الیکٹرک نے معاہدے کے مطابق سرمایہ کاری نہیں کی ۔ عدالت نے استفسار کیا گیاکسی نے آج تک حساب لیا کہ کے الیکٹرک نے کتنا کمایا کتنا لگایا ؟