کرنٹ لگنے پر جسم کے ساتھ کیا ہوتا ہے؟ انسانی جسم کتنا کرنٹ برداشت کرسکتا ہے؟

کرنٹ لگنے پر جسم کے ساتھ کیا ہوتا ہے؟ انسانی جسم کتنا کرنٹ برداشت کرسکتا ہے؟
کرنٹ لگنے پر جسم کے ساتھ کیا ہوتا ہے؟ کرنٹ لگنے سے لوگ تاروں سے چپک کیوں جاتے ہیں؟ ہمارا جسم کتنا کرنٹ برداشت کر سکتا ہے؟ اور کرنٹ لگ جائے تو کیا کرنا چاہیے؟

اگر کرنٹ لگ جائے تو کیا نقصان ہوتا ہے؟ اس کا انحصار 5 باتوں پر ہے۔ پہلی یہ کہ کس شدت کا کرنٹ لگا ہے؟ دوسری یہ کہ کتنی دیر کے لیے کرنٹ لگا ہے۔ تیسری یہ کہ متاثرہ شخص کے پٹھے مضبوط ہیں یا کمزور؟ چوتھی یہ کہ کرنٹ خشک جلد پر لگا ہے یا گیلی پر؟ اور پانچویں بات ہے کہ کرنٹ جسم کے کس حصے پر لگا ہے؟

آئیے مثال سے سمجھتے۔ اگر کسی کو 100 ملی ایمپیئر کی شدت کا کرنٹ 3 سیکنڈز تک کے لئے لگے تو یہ اتنا ہی خطرناک ہوتا ہے جتنا 0.03 سیکنڈز تک لگنے والا 900 ملی ایمپیئر کا کرنٹ۔

اس کے علاوہ فرق مسلز کا بھی ہوتا ہے۔ جس کے مسلز کمزور ہوں یعنی ان پر کم گوشت ہو تو انہیں کم کرنٹ بھی زیادہ نقصان پہنچاتا ہے۔ اور ہیوی مسلز والے لوگوں کی زیادہ کرنٹ لگنے پر بھی بچت ہو جاتی ہے۔ انسان عام طور پر 10 ملی ایمپیئر تک کا کرنٹ برداشت کر سکتا ہے۔ 10 ملی ایمپیئر سے زیادہ کرنٹ مسلز یا پٹھوں کو فریز یا مفلوج کر سکتا ہے۔ اور پتہ ہے مسلز فریز ہونے سے کیا ہوتا ہے؟ انسان اس قابل نہیں رہتا کہ وہ چیز، اوزار یا تار جس سے اسے کرنٹ لگا ہو اسے چھوڑ سکے یعنی اس سے خود کو علیحدہ کرسکے۔

بلکہ اس سے بھی بُرا یہ ہوتا ہے کہ انسان اسی چیز، اوزار یا تار کو مزید زور سے پکڑ لیتا ہے۔ یوں وہ اس چیز سے چپک جاتا ہے جس سے اسے کرنٹ لگا ہو۔ اس طرح اسے مسلسل کرنٹ لگتا رہتا ہے۔ اور پھر مسلسل کرنٹ لگنے سے نظامِ تنفس پیرالائز یا مفلوج ہو کر رہ جاتا ہے۔ اسے کہتے ہیں Respiratory Paralysis ۔ اس کا مطلب ہے کہ وہ پٹھے جو سانس لینے کا عمل کنٹرول کرتے ہیں وہ حرکت نہیں کر سکتے۔

اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ انسان کا سانس رک جاتا ہے۔Respiratory Paralysis عام طور پر تب ہوتا ہے جب 30 ملی ایمپیئر کا کرنٹ لگے۔ اگر کم از کم 49 والٹ کا کرنٹ لگے تو انسان سانس لینا بند کر دیتا ہے۔ اور اگر 75 ملی ایمپیئر سے زیادہ شدت کا کرنٹ لگے تو اس سے دل کی دھڑکن بے ترتیب ہو جاتی ہے۔ اور اگر ایسا ہو جائے تو صرف چند منٹوں میں انسان کی موت ہو جاتی ہے۔

ہاں مگر بچت کی بھی ایک صورت ہے۔ اور وہ یہ کہ ایک آلہ ہوتا ہے جس کا نام ہے  Defibrillator  ۔ اگر اسے استعمال کر لیا جائے تو کرنٹ لگنے والے کی زندگی بچائی جا سکتی ہے۔

اگر کسی کو 4 ایمپیئر کا کرنٹ لگ جائے تو اس سے دل بند ہو جاتا ہے۔ یعنی دل مکمل طور پر پمپ کرنا چھوڑ دیتا ہے۔ اور اگر کسی کو 5 ایمپیئر سے بھی زیادہ کرنٹ لگ جائے تو پھر ٹشوز جلنا شروع ہو جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ ہائے وولٹیج کرنٹ لگنے سے مزید انجریز بھی ہو سکتی ہیں۔ مثلاً کرنٹ لگنے کے بعد انسان نیچے گر جائے اور اس کی ہڈی ٹوٹ جائے۔ 600 وولٹ کرنٹ 400 ایمپیئر کرنٹ کے برابر خطرناک اور شدید ہوتا ہے۔

اس کرنٹ پر انسانی جسم کے اندر موجود اعضا بری طرح متاثر ہو جاتے ہیں۔ خون جمنا شروع ہو جاتا ہے۔ ہڈیاں ٹوٹنے لگتی ہیں۔ زیادہ شدت کا کرنٹ لگنے کا نقصان زیادہ ہوتا ہے مگر ضروری نہیں کہ وہ نظر آئے۔

بعض اوقات متاثرہ شخص بالکل ٹھیک نظر آتا ہے لیکن اس کے اندرونی اعضاء کو شدید نقصان ہوا ہوتا ہے۔ جسم کے اندر بلیڈنگ ہونے لگتی ہے جو پورے جسم میں تباہی مچا دیتی ہے۔

ہماری جلد کرنٹ کے خلاف بہت زیادہ مزاحمت کرتی ہے۔ اگر جلد مکمل خشک ہو تو یہ ایک لاکھ اوہم یا اس سے بھی زیادہ کی مزاحمت کرتی ہے۔ جلد گیلی ہو تو اس کا بالکل الٹ ہوتا ہے۔

گیلی جلد زیادہ سے زیادہ کرنٹ کو بڑی آسانی کے ساتھ جسم میں داخل ہونے دیتی ہے۔ اس کے علاوہ کرنٹ جسم کے کس حصے سے گزرا ہے۔ یہ بھی بہت اہم ہے۔ دل اور نروس سسٹم سے گزرنے والا کرنٹ سب سے زیادہ نقصان دہ ہوتا ہے۔

آئیں یہ بھی مثال سے سمجھتے ہیں۔ اگر ایک شخص کو کرنٹ ہاتھ پر لگے اور دوسرے کو سر پر تو کس کو زیادہ نقصان ہوگا؟ ظاہر ہے جسے سر پر کرنٹ لگا اُسے۔ کیونکہ کرنٹ نے اس کے نروس سسٹم کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ اسی طرح سینے پر لگنے والا کرنٹ بھی شدید نقصان پہنچاتا ہے کیونکہ یہ دل اور پھیپھڑوں کو متاثر کرتا ہے۔

اب بات اس کی کہ کرنٹ لگ جانے پر کیا کیا جائے۔ سب سے پہلے مین سوئچ بند کریں۔ اگر مین سوئچ دور ہو تو جسے کرنٹ لگ رہا ہو اسے کسی لکڑی سے تار سے دور کرنے کی کوشش کریں مگر خشک جوتے پہن کر۔

متاثرہ شخص کو بجلی تنصیبات سے الگ کرکے اس کے کپڑوں میں لگی آگ کو کسی تولیے یا کپڑے سے بجھائیں۔ مصنوعی طریقے سے سانس دینے کی کوشش کریں۔ زور زور سے سینہ سہلائیں تاکہ دل کی دھڑکن بحال ہو سکے۔

جلے ہوئے حصے پر ٹھنڈا پانی ڈالتے رہیں۔ جتنا جلد ہو سکے متاثرہ شخص کو ہسپتال یا ڈاکٹر کے پاس لے جائیں۔ اگر آپ کو یہ وڈیو پسند آئی ہو تو اسے لائیک اور شیئر ضرور کریں۔