قبائلی ضلع کرم میں زمینوں کے مسئلے کو شیعہ سنی فسادات کا رنگ دینے کی کوشش، حکومت اور فورسز کی غفلت سے بڑے نقصان کا خدشہ

قبائلی ضلع کرم میں زمینوں کے مسئلے کو شیعہ سنی فسادات کا رنگ دینے کی کوشش، حکومت اور فورسز کی غفلت سے بڑے نقصان کا خدشہ
خیبر پختونخوا کے ضم شدہ ضلع کرم میں شاملات کی اراضی پر عرصہ دراز سے چلتے تنازعہ پر پاڑہ چمکنی اور بالشخیل قبائل کے درمیان مختلف ادوار میں رنجشیں اور لڑائیاں سامنے آتی رہی ہیں مگر کچھ روز پہلے زمین کے تنازع پر شروع ہونے والی لڑائی اب خون ریزی کی طرف جا رہی ہے اور اس لڑائی میں اب تک تقریباً 9 لوگ جاں بحق ہو چکے ہیں جب کہ لڑائی ابھی جاری ہے۔

مقامی عمائدین اور نوجوانوں کے مطابق اس خونریز لڑائی میں مقامی انتظامیہ، فورسز اور صوبائی حکومت کی خاموشی ممکنہ طور پر علاقے کے دیر پا امن کے خلاف ایک سازش تصور کی جا رہی ہے۔

ضلع کرم کے مقامی صحافی محمد حسین کے مطابق کچھ صحافی اس خبر کو غلط رپورٹ کر رہے ہیں جو موجودہ حالات سے واقف نہیں اور اس کے ساتھ کچھ دشمن عناصر اس خالص زمینی تنازع کو شیعہ سنی فسادات کا رنگ دے رہے ہیں جو بلکل انصاف نہیں۔

انھوں نے مزید کہا کہ پاڑہ چمکنی کا قبیلہ بنیادی طور پر ضلع کرم کا حصہ نہیں تھا اور یہ ایف آر اورکزئی کے ساتھ تھا مگر بعد میں یہ لوگ یہاں پر آباد ہوئے۔

انھوں نے مزید کہا کہ جب سال 2008 میں مری معاہدہ ہوا تھا اس میں یہ واضح طور پر لکھا گیا تھا کہ کرم کے اراضی تنازعات کے مسائل کو ریونیو ریکارڈ کے مطابق حل کیا جائے، مگر پاڑہ چمکنی قبیلہ اس کے لئے تیار نہیں اور وہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ اراضی کے مسائل کا تعلق پشتون ولی سے ہے نہ کہ مری معاہدہ اور اراضی کے ریکارڈ سے، مگر میں یہ واضح کرتا چلوں کہ مقامی انتظامیہ اور اب صوبائی حکومت کی یہ مکمل ناکامی ہے کہ وہ ان مسائل کو ختم نہیں کر پا رہی۔ انتظامیہ اور حکومت اس وقت تک حرکت میں نہیں آئے گی جب تک اموات کی تعداد درجنوں میں نہ ہو۔

انھوں نے مزید کہا کہ میرے پاس یہ تمام ثبوت موجود ہیں کہ اس جنگ میں ایک طرف بھی شیعہ سنی ایک مورچے میں بیٹھے ہیں اور دوسری طرف بھی شیعہ سنی ایک مورچے میں بیٹھے ہیں جب کہ اس کے ساتھ بالشخیل قبیلے کے شیعہ افراد اور خار کلے کے سنی افراد ایک ساتھ پریس کانفرنس کرتے ہیں کہ ہمیں چمکنی قبیلے کے غیر قانونی قبضے سے نجات دلائی جائے۔

ضلع کرم کے ایک سیاسی کارکن نے نیا دور میڈیا کو بتایا کہ اس میں شیعہ سنی کا کوئی رنگ نہیں اور یہ بنیادی طور پر اراضی کی لڑائی ہے، جس میں شیعہ سنی یا فرقہ ورانہ فسادات کا دور دور تک کوئی ثبوت نہیں۔

انھوں نے مزید کہا کہ ظاہر سی بات ہے کہ کرم کی سرزمین پر ایک طرف سنی اور شیعہ انتہا پسند گروپس موجود ہیں اور دوسری جانب سعودی عرب اور ایران کے مفادات وابستہ ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ حالات خراب ہوں تو اس کا فائدہ اٹھا کر وہاں پر شیعہ سنی فسادات کو ہوا دی جائے۔ بات جاری رکھتے ہوئے انھوں نے کہا کہ حکومت اور دیگر محکموں میں بھی ایران اور سعودی عرب کے حامی موجود ہیں، جو برے وقت میں معاون کا کردار ادا کرتے ہیں اور کروڑوں کما لیتے ہیں اور ماضی میں ہم نے یہی دیکھا۔

انھوں نے مزید کہا کہ یہ ایک اراضی پر لڑائی ہے اور اگر یہاں دوبارہ سے فسادات شروع ہوئے اور حکومت نے کوئی کردار ادا نہیں کیا تو یہ آگ نہ صرف کرم کو جلائے گی بلکہ اس کے ساتھ اورکزئی، ہنگو، کوہاٹ، ٹل، پنجاب اور سندھ کے علاقوں کو بھی اپنے لپیٹ میں لے لے گی اور یہ کوئی دعویٰ نہیں بلکہ زمینی حقیقت ہے۔ جب بھی کرم میں فسادات ہوئے تو پورے ملک پر ان کے اثرات ہوئے۔

انھوں نے مزید کہا کہ ہم نے مقامی انتظامیہ اور سکیورٹی فورسز کو بار بار اس مسئلے پر کچھ مہینے پہلے کہا کہ کچھ عناصر یہاں دوبارہ متحد ہو رہے ہیں، جس میں شیعہ، سنی دونوں انتہا پسند تنظیمیں موجود ہیں مگر کوئی سننے کو تیار نہیں۔

واضح رہے کہ ضلع کرم میں فرقہ ورانہ فسادات سال 1982، سال 1996 اور سال 2007 میں ہوئے، جس کے بعد مری معاہدہ ہوا اور ان کی بنیادی وجہ ایران میں شیعہ انقلاب اور افغان جہاد کے بعد سنی مہاجرین کا ضلع کرم میں داخل ہونا، سپاہ صحابہ، لشکر جھنگوی اور سپاہ محمد کی بنیاد اور افغان جنگ کے دوران بھاری اسلحہ اس علاقے میں آنا ہے۔ اس سب نے شیعہ سنی فسادات کو ہوا دی۔

ماہرین کے مطابق نائن الیون کے بعد طالبان کے ان علاقوں میں داخل ہونے کی وجہ سے شیعہ سنی فسادات کو مزید ہوا ملی۔ 2007 میں بالائی کرم میں ایک سنی جلوس میں شیعہ کافر کے نعرے لگائے گئے جس کے بعد اہل تشیع اہلکاروں نے پارہ چنار میں احتجاج شروع کیا اور احتجاج پر فائرنگ شروع ہوئی جس سے کئی لوگ مارے گئے۔

ماہرین کے مطابق نومبر 2007 میں نامعلوم افراد نے پارہ چنار کی ایک مسجد پر اس وقت حملہ کیا جب سنی وہاں نماز ادا کر رہے تھے، جس میں کئی لوگ مارے گئے اور پھر شیعہ سنی فسادات شروع ہوئے اور ملک کے دیگر علاقوں میں بھی پھیل گئے۔ ان فسادات میں دونوں جانب سے سینکڑوں لوگ مارے گئے جب کہ اس کے ساتھ ساتھ 40 گاؤں مسمار ہوئے اور لگ بھگ 3 ہزار خاندان یہاں سے ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے۔

ضلع کرم سے تعلق رکھنے والے مقامی سیاسی اور سماجی کارکن شاہد کاظمی نے نیا دور میڈیا کو بتایا کہ ضلع کرم میں انگریز دور سے لینڈ ریونیو کا ریکارڈ موجود ہونے کے باوجود مقامی انتظامیہ، قبائل کے درمیان جاری پانی، جنگلات، شاملات کے اراضی سمیت پہاڑوں میں معدنیات کی رائلٹی پر تنازعات کو حل کرنے میں جان بوجھ کر سست روی کا مظاہرہ کر رہی ہے جس سے ممکنہ جھڑپوں میں ایک دوسرے کے خلاف آزادانہ طور پر بھاری ہتھیاروں کے استعمال کی وجہ سے سینکڑوں جانوں کے زیاں سمیت درجنوں دیہات کے ملیامٹ ہونے کا قوی خطرہ موجود ہے۔

انھوں نے مزید کہا کہ قبائلی علاقہ ضلع کرم اپنی جغرافیائی اہمیت کے بنا پر ہمیشہ ایک لانچنگ پیڈ کے طور پر استعمال ہوتا رہا ہے اور یہاں مختلف عناصر نے مختلف ادوار میں اپنے مفادات کی آڑ میں شیعہ سنی فسادات کرا کر علاقے کے امن و امان کو سبوتاژ کیا ہے بلکہ ہزاروں کی تعداد میں شیعہ اور سنی علاقہ چھوڑ کر شہروں میں آباد ہوئے۔

عبداللہ مومند اسلام آباد میں رہائش پذیر ایک تحقیقاتی صحافی ہیں۔