کیا خیبر پختونخوا کے ضلع دیر میں شدت پسند دوبارہ سے حالات خراب کررہے ہیں؟

کیا خیبر پختونخوا کے ضلع دیر میں شدت پسند دوبارہ سے حالات خراب کررہے ہیں؟
خیبر پختونخوا کے ضلع دیر کے علاقے میدان میں گزشتہ کئی روز سے ڈر اور خوف کی فضا ہے اور لوگوں کو لگتا ہے کہ تحریک طالبان پاکستان اور دیگر عسکریت پسند تننظیمیں دیر کے علاقے کو دوبارہ سے میدان جنگ بنا رہی ہیں۔ گزشتہ روز دیر کے علاقے میدان میں عسکریت پسند جماعت تحریک طالبانن پاکستان کی جانب سے دھمکی آمیز پمفلٹس تقسیم کئے گئے اور تقریبا تین روز پہلے نامعلوم شدت پسندوں کی جانب سے نجی موبائل کمپنی کے ٹاور کو دھماکہ خیز مواد سے اُڑایا گیا مگر مقامی ضلعی انتظامیہ کا دعویٰ ہے کہ یہ دھماکہ فنی خرابی پیدا ہونے کی وجہ سے ہوا اور اس کا دہشتگردی کی واردات سے کوئی تعلق نہیں۔

دیر میدان کے ایک سرکاری اہلکار نے نیا دور میڈیا کو نام طاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ کئی ہفتے سے خفیہ اطلاعات موصول ہو رہی ہیں کہ دیر میں تحریک طالبان پاکستان اور دیگر تنظیمیں دوبارہ سے منظم ہورہی ہیں مگر سیکیورٹی فورسز، پولیس اور ضلعی انتظامیہ اس پر خاموش رہیں اور اب جب حالات خراب ہوگئے تو یہ لوگ حرکت میں آئے۔ انھوں نے مزید کہا کہ تحریک طالبان پاکستان کے مبینہ اہلکار رات کو لوگوں کے دروازوں پر دستک دیتے ہیں اور پھر جہاد کے لئے پیسے اور زیورات مانگتے ہیں مگر لوگ بے بس اور مجبور ہیں اگر نہیں دیتے تو جان کا خطرہ ہوتا ہے اس لئے لوگوں نے چپ کا روزہ رکھ کر خاموشی اختیار کی ہے۔
نیا دور میڈیا کو دیر میں ایک صحافی نے بتایا کہ تین روز پہلے خود کو تحریک طالبان پاکستان حلقہ دیر پائین کا کمانڈر ظاہر کرنے والے کمانڈر حفیظ اللہ عرف کوچوان کی جانب سے دھمکی آمیز پمفلٹس تقسیم کئے گئے جو مقامی مساجد، مدرسوں اور  بازاروں میں آویزاں کئے گئے تھے جس پر لکھا گیا تھا کہ شریعت کے نفاذ کے لئے تحریک طالبان پاکستان نے جہاد کا اعلان کیا ہے اور لوگ اس جہاد میں طالبان کی مدد کریں۔ جب کے اس کے ساتھ ساتھ پمفلٹس میں لوگوں کو خبردار کیا  گیا ہے کہ لوگ حکومت پاکستان یا ضلعی انتظامیہ سے تعاون نہ کریں اور جو ایسا کریگا ان کے ساتھ سختی سے نمٹا جائے گا۔ جب کہ پوسٹر کے نوٹ میں لکھا گیا ہے کہ پوسٹر پھاڑنے کے سخت نتائج سامنے آئینگے۔ صحافی نے مزید کہا کہ رات کو طالبان اور دیگر عسکریت پسند جماعتوں نے دوبارہ سے میدان کے علاقے میں نقل و حرکت شروع کی ہے اور وہ اب باقاعدہ گشت بھی کرتے ہیں جبکہ اس کے ساتھ لوگوں سے بھتہ بھی لیتے ہیں مگر لوگ دوبارہ طالبان کے رحم و کرم پر ہیں۔ کیونکہ حفاظت کے لئے رکھا گیا اسلحہ حکومت نے لوگوں سے چھین لیا اور اب لوگوں کی زندگیاں خطرے میں ہیں۔
ضلع دیر کے ایک پولیس افسر نے نیا دور میڈیا کو بتایا کہ ہمیں کچھ معلومات تھیں کہ کچھ عسکریت پسند تنظیمیں دیر میں حالات خراب کررہی ہیں اور پولیس نے باقاعدہ سیکیورٹی کے بندوبست کئے ہیں اور لوگوں کو بتایا گیا ہے کہ کسی بھی واقع کی صورت میں پولیس سے رابطہ کریں۔ ایک سوال کے جواب میں کہ کیا نجی کمپنی کا مواصلاتی ٹاور فنی خرابی کی وجہ سے دھماکے سے اُڑایا گیا تھا پر پولیس اہلکار نے بتایا کہ ہم نے اس جگہ کا معائنہ کیا تھا اور مواصلات ٹاور کو شدت پسند تنظیموں نے دھماکہ خیز مواد سے اُڑایا تھا مگر ہم کوشش کررہے ہیں کہ حالات خراب نہ ہو اور کل ہی پولیس، افواج پاکستان، ضلعی انتظامیہ اور مقامی لوگوں کے درمیان ایک جرگہ ہوا ہے جس میں یہ عھد کیا گیا کہ دیر میں عسکریت پسندوں کو دوبارہ منظم نہیں ہونے دیا جائے گا اور امن و امان کے حالات کو خراب نہیں کرنے دیا جائے گا۔
واضح رہے کہ ضلع دیر کا علاقہ میدان ماضی میں شدت پسندی کا سب سے زیادہ شکار ہوا تھا اور سینکڑوں خاندانوں نے یہاں سے ہجرت کی تھی۔ جبکہ معروف جنگجو صوفی محمد کی  تنظیم شریعت نفاظ محمدی کو کافی شہرت ان علاقوں سے ہی ملی تھی۔  مقامی صحافیوں کا ماننا ہے کہ دیرکا علاقہ میدان تحریک طالبان پاکستان کی ماضی میں مضبوط گڑھ رہا اور آج بھی ان کا اس علاقے پر کافی اثر و رسوخ ہے۔

عبداللہ مومند اسلام آباد میں رہائش پذیر ایک تحقیقاتی صحافی ہیں۔