محکمہ برائے انسداد دہشت گردی کی جانب سے 17 جولائی کو جاری کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق صوبہ خیبر پختونخوا میں دہشت گردوں اور جرائم پیشہ افراد کے خلاف کارروائی میں پچھلے چھ ماہ کے دوران 144 پولیس اہلکار ہلاک جبکہ 224 زخمی ہوئے ہیں۔ اب ان واقعات میں مزید اضافہ ہو رہا ہے۔
جس طرح دہشت گردی کے واقعات تواتر سے رونما ہو رہے ہیں اس سے لگتا ہے کہ حالات پھر سے اسی پرانی ڈگر پر جا رہے ہیں جب خیبر پختونخوا میں پشاور کی کسی نا کسی جگہ پر خودکش حملے ہوتے تھے اور بے گناہ افراد کی شہادت ہوتی تھی۔ مگر اس دفعہ عام افراد کو ٹارگٹ نہیں کیا جا رہا بلکہ پولیس اور سکیورٹی فورسز نشانے پر ہیں۔ اتوار کو باجوڑ میں جمعیت علمائے اسلام ف کے کنونشن پر بم دھماکے میں کم ازکم 54 افراد کی ہلاکت اور 100 سے زیادہ افراد کے زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں۔ اس سے ثابت ہو رہا ہے کہ واقعات خطرناک حد تک بڑھ رہے ہیں اور آنے والا الیکشن بھی خونی ہو گا۔ کیونکہ جب جے یو آئی ف پر حملہ ہو سکتا ہے تو کسی اور پارٹی پر بھی ہو سکتا ہے۔
اس سے قبل ٹی ٹی پی بار بار اپنے بیانات میں کہہ چکی ہے کہ ہمارا ٹارگٹ اس دفعہ سکیورٹی ادارے ہیں اور ہم دیکھتے ہیں کہ پشاور سمیت صوبہ کے دیگر علاقوں میں صرف پولیس اہلکار ہی اس جنگ میں جان سے ہاتھ دھو رہے ہیں۔ مگر باجوڑ کے دھماکے نے صورت حال تبدیل کردی ہے۔ ٹی ٹی پی نے اس کی ذمہ داری قبول کرنے سے انکار کر دیا ہے اور حکومتی ذرائع اسے داعش کی کارستانی قرار دے رہے ہیں لیکن جس نے بھی یہ خودکش حملہ کیا ہے، یہ ایک خطرناک نشانی ہے۔
اگر ہم ذرا تاریخ دیکھیں تو دہشت گردی صوبہ خیبر پختونخوا اور پاکستان کے لیے ایک مستقل چیلنج رہا ہے جو ملک کے استحکام، سلامتی اور ترقی کے لیے خطرہ ہے۔ گذشتہ برسوں کے دوران ملک نے انتہا پسندانہ تشدد کے تباہ کن اثرات کا مشاہدہ کیا ہے جس نے لاتعداد معصوم جانیں لے لی ہیں اور معاشرے کے مختلف شعبوں کو مفلوج کر دیا ہے۔ دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کی ٹھوس کوششوں کے باوجود یہ مسئلہ سنگین تشویش کا باعث بن چکا ہے جو معاشرے کے تمام طبقات سے مسلسل چوکسی اور اجتماعی کارروائی کا ضامن ہے۔
پاکستان میں دہشت گردی کی جڑیں کثیر الجہتی ہیں جو اندرونی اور بیرونی عوامل کے امتزاج سے جڑی ہیں۔ بنیادی محرکات میں سے ایک طویل عرصے سے جاری سیاسی عدم استحکام اور کمزور طرز حکمرانی ہے جس نے انتہا پسند نظریات اور عسکریت پسند گروہوں کی نشوونما کے لیے سازگار ماحول پیدا کیا ہے۔ مزید براں پاکستان کے سٹریٹجک محل وقوع نے اسے علاقائی اور بین الاقوامی تنازعات کے لیے میدان جنگ بننے کے لیے حساس بنا دیا ہے جو دہشت گردی کے پھیلاؤ کو مزید ہوا دے رہا ہے۔
علاوہ ازیں سماجی و اقتصادی تفاوت، تعلیم کی کمی اور روزگار کے محدود مواقع نے بہت سے لوگوں کو انتہا پسندانہ نظریات کے لیے خطرے میں ڈال دیا ہے کیونکہ دہشت گرد تنظیمیں نئے اراکین کی بھرتی کے لیے ان عوامل کا فائدہ اٹھاتی ہیں۔ ملک کی پیچیدہ نسلی اور فرقہ وارانہ تقسیم نے بھی فرقہ وارانہ تشدد کو بڑھانے اور اس مسئلے کو پیچیدہ بنانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
دہشت گردی نے پاکستانی معاشرے کے تمام پہلوؤں پر گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔ معصوم جانوں کے ضیاع اور املاک کی تباہی نے خوف اور غیر یقینی کی فضا پیدا کر دی ہے جس سے لاکھوں شہریوں کی روزمرہ زندگی درہم برہم ہو گئی ہے۔ کاروباری اداروں، تعلیمی اداروں اور بنیادی ڈھانچے کے منصوبوں کو نشانہ بنایا گیا ہے جو اقتصادی ترقی اور غیر ملکی سرمایہ کاری میں رکاوٹ ہیں۔ تشدد کے مسلسل خطرے نے سماجی تانے بانے کو بھی کشیدہ کر دیا ہے جس کی وجہ سے مختلف کمیونٹیز اور مذہبی گروہوں میں عدم اعتماد پیدا ہو گیا ہے۔
خاص طور پر پشاور میں تو بہت عرصے تک کاروبار بند ہو گئے تھے۔ اب کچھ عرصے سے تھوڑا سا استحکام آیا تھا تو کچھ برانڈز نے اور اداروں نے پھر پشاور کا رخ کر لیا تھا اور یہاں کاروباری سرگرمیاں پہلے کی نسبت بہتر ہوئیں۔ مگر اب اس جاری دہشت گردی کی نئی لہر نے پھر سے سوالیہ نشانات اٹھا دیے ہیں کیوںکہ خیبر پختونخوا کے باسی لاشیں اٹھا اٹھا کر تھک گئے تھے، اب دوبارہ اُن میں وہ سکت نہیں۔
اس میں دو رائے نہیں کہ پاکستان کی سکیورٹی فورسز دہشت گردی کے خلاف جنگ میں سب سے آگے ہیں۔ وہ متعدد فوجی آپریشنز اورانسداد دہشت گردی کے اقدامات میں مصروف ہیں۔ قوم کی حفاظت کے لیے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرتے ہیں۔ انہوں نے دہشت گرد نیٹ ورکس کو ختم کرنے اور اہم شخصیات کو گرفتار کرنے میں نمایاں پیش رفت دکھائی ہے۔ تاہم ان کی کوششوں کے باوجود دہشت گردی کو مکمل طور پر ختم کرنا ایک مشکل کام ہے۔
حالیہ برسوں میں پاکستانی معاشرہ بھی شدت پسندی اور دہشت گردی کے خلاف تیزی سے آواز اٹھا رہا ہے۔ سول سوسائٹی کی تنظیمیں، مذہبی رہنما اور زندگی کے تمام شعبوں سے تعلق رکھنے والے شہری تشدد کی مذمت کرنے اور امن کو فروغ دینے کے لیے متحد ہو گئے ہیں۔ سوات، دیر اور وزیرستان سمیت بہت سے علاقوں میں عوام کا امن مارچ اس بات کا ثبوت ہے۔
نچلی سطح پر چلنے والی مہمات اور بیداری کے پروگراموں نے بنیاد پرست نظریات کا مقابلہ کرنے میں ایک اہم کردار ادا کیا ہے جو زیادہ محفوظ مستقبل کی امید پیدا کرتے ہیں۔ مگر دوسری جانب دہشت گرد تنظمیوں کے پاس بھاری بھرکم ہتھیاروں کی موجودگی اس بات کی غماز ہے کہ اس دفعہ مقابلہ برابری کی سطح پر ہے کیونکہ جس اسلحہ سے وہ لیس ہیں اُن کا مقابلہ کم از کم پشاور کی پولیس نہیں کر سکتی۔ اس بات کا ذکر گذشتہ روز پولیس کے اعلیٰ حکام کی جانب سے ریکارڈ پر موجود ہے کہ ہماری اتنی صلاحیت نہیں کہ ان سے مقابلہ کرسکیں۔
حالیہ پے درپے ہونے والے حملے امن، استحکام اور ترقی کے لیےبڑا خطرہ ہیں۔ اس پیچیدہ مسئلے کو حل کرنے کے لیے ایک جامع نقطہ نظر کی ضرورت ہے جو انتہا پسندی کی بنیادی وجوہات سے نمٹے، گورننس کو مضبوط کرے، تعلیم کو فروغ دے اور سماجی تقسیم کو ختم کرے۔
دہشت گرد گروہوں کے اثر و رسوخ کو روکنے اور پاکستان اور پورے خطے کے پرامن مستقبل کو فروغ دینے کے لیے سکیورٹی فورسز، سول سوسائٹی اور بین الاقوامی برادری کے درمیان باہمی تعاون پر مبنی کوششیں ناگزیر ہیں۔ غیر متزلزل عزم اور اجتماعی کارروائی کے ذریعے ہی پاکستان دہشت گردی کے سائے پر قابو پانے اور ایک روشن اور محفوظ کل کی راہ ہموار کرنے کی امید کر سکتا ہے۔