گذشتہ برس اگست میں جب افغان طالبان کابل کے قریب پہنچ رہے تھے تو ان دنوں پشاور میں ہماری غیر ملکی سفارت کاروں کی ایک ٹیم سے ملاقات ہوئی۔ اس ملاقات میں میرے علاوہ پشاور کے کچھ سینیئر صحافی بھی شریک تھے۔ سفارت کار ہم سے پوچھ رہے تھے کہ امارت اسلامی کیسے اتنی تیزی سے افغانستان پر قابض ہو رہی ہے اور یہ کہ طالبان کے آنے سے پاکستان پر اس کے کس قسم کے اثرات مرتب ہو سکتے ہیں؟
میں نے اپنی باری پر کہا کہ اگر طالبان کابل پر قبضہ کرتے ہیں تو پاکستان کے دو صوبوں خیبر پختونخوا اور بلوچستان پر یقینی طور پر اس کے براہ راست منفی اثرات مرتب ہوں گے اور ان دو صوبوں میں تشدد کے واقعات میں ناصرف اضافہ ہوگا بلکہ خیبر پختونخوا میں دہشت گردی پھر سے واپس لوٹ سکتی ہے۔
میرے اس جواب پر ملاقات میں موجود ایک دوست نے چونک کر کہا بھی کہ 'ہمیں ڈراؤ نہیں'۔ میں نے کہا کہ بھائی میں کون ہوتا ہوں ڈرانے والا، میں تو حالات کا تجزیہ کر رہا ہوں اور ہو سکتا ہے میرا تـجزیہ غلط ہو لیکن جو ہمیں نظر آ رہا ہے وہ تو لگ بھگ کچھ ایسا ہی منظر نامہ ہے۔
اب یہاں سوال یہ ہے کہ اگر مجھ جیسا بے خبر اور طالب علم سال پہلے ان حالات کا تجزیہ کر سکتا تھا تو کیا پاکستان میں ذمہ دار کرسیوں پر براجمان افراد یہ اندازہ نہیں لگا سکے؟ کیا ان کو پہلے سے ایسی صورتحال سے نمٹنے کے لئے پیش بندی نہیں کرنی چاہیے تھی؟
اور اس سے بھی بڑھ کر یہ سوال کہ اب جب کہ ٹی ٹی پی کے حملوں کا پھر سے آغاز ہو چکا ہے تو عوام کو کیوں کنفیوژن میں ڈالا جا رہا ہے؟ سکیورٹی اہلکار اور امن کمیٹیوں کے افراد مسلسل نشانہ بن رہے ہیں لیکن نہ تو وفاقی حکومت ذمہ داری لینے کے لئے تیار ہے اور نہ صوبائی حکومت، اس طرح عوام کو کب تک اندھیرے میں رکھا جائے گا؟ کیا کسی نے ان حالات کی ذمہ داری نہیں لینی؟
کوئی تو کھل کر بات کرے کہ طالبان سے مذاکرات کا اب کیا سٹیٹس ہے، کیا پھر سے جنگ کا آغاز ہو چکا ہے، عوام کو کچھ امید دلائی جائے، انہیں تازہ صورتحال سے آگاہ کیا جائے، یہ اتنی خاموشی اور غیر ذمہ داری کیوں؟ اس سے تو عوام میں مزید شکوک و شبہات جنم لے رہے ہیں۔
یاد رہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ عوام کی طاقت سے لڑی جاتی ہے، یہ ہم نے پہلے بھی دیکھا ہے اور آج بھی دیکھ رہے ہیں۔
آٹھ سال پہلے اے پی ایس حملے کے بعد نیشنل ایکشن پلان کے تحت شروع ہونے والی موثر کاروائیوں اور سکیورٹی فورسز کی لاتعداد قربانیوں کے نتیجے میں پاکستان سے کالعدم تنظیموں کا خاتمہ کر دیا گیا تھا اور عوام نے سکھ کا سانس لیا تھا۔
لیکن اب کئی سالوں کے بعد عوام میں اسی طرح دہشت گردی کا خوف کا پھر سے بڑھ جانا یقینی طور پر اپنی ان قربانیوں پر پانی پھیرنے کے مترادف ہے۔ ان سالوں میں امن کی جانب جو سفر کیا گیا تھا وہ بظاہر پھر سے ریورس ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔
گذشتہ تین چار ہفتوں سے خیبر پختونخوا میں جس طرح تسلسل کے ساتھ بدامنی کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے اس کے بعد تو کوئی دو رائے نہیں کہ کالعدم تنظیمیں پوری تیاری کے ساتھ میدان میں واپس آ چکی ہیں۔
حالیہ واقعات سے ویسے تو پورے صوبے میں ایک خوف کی لہر دوڑ گئی ہے لیکن وادی سوات میں بالخصوص اتنا خوف و ہراس بڑھ گیا ہے کہ ایک اطلاع کے مطابق وہاں کے منتخب اراکین قومی و صوبائی اسمبلی اور وزرا علاقہ چھوڑ کر پشاور یا اسلام آباد منتقل ہو چکے ہیں۔ نامعلوم کالعدم تنظیموں کی طرف سے بھتہ مانگنے کی کالیں روز کا معمول بن چکا ہے۔
عوامی نیشنل پارٹی کے پارلیمانی رہنما سردار حسین بابک نے اس دن خیبر پختونخوا اسمبلی کے فلور پر چیخ چیخ کر حکومت کو یاد دلایا کہ کوئی دن ایسا نہیں گزرتا کہ جب انہیں بھتہ کی کال نہ آئی ہو اور اس طرح دیگر حکومتی اور اپوزیشن ممبران اور وزرا کے ساتھ بھی یہی کچھ ہو رہا ہے لیکن حکمرانوں کی طرف سے تاحال اس ضمن میں کوئی اقدامات نظر نہیں آتے۔
صوبائی و مرکزی حکومتوں کی مجرمانہ خاموشی سے لگتا ہے کہ جیسے عوام کو ایک مرتبہ پھر اکیلا چھوڑ دیا گیا ہے یا باالفاظ دیگر ان کو بطور شکار حملہ آوروں کے سامنے پھینک دیا گیا ہے۔
لیکن دوسری طرف سوات سے لے کر وزیرستان تک حکومتی اداروں سے مایوس عوام جس طرح جاگ اٹھے ہیں اور جس جرات اور بہادری کے ساتھ بدامنی کے خلاف پرامن احتجاج کر رہے ہیں، حالیہ تاریخ میں اس کی کوئی نظیر نہیں ملتی۔
یقینی طور پر اس کا کریڈٹ شمالی وزیرستان کو جاتا ہے جہاں ٹارگٹ کلنگ کے خلاف سب سے پہلے ایک بڑا منظم دھرنا ہوا جو کئی ہفتوں تک جاری رہا۔ اس دھرنے کی دیکھا دیکھی جیسے سارا پختونخوا جاگ گیا۔ اس کے بعد دیر، سوات، اورکزئی، باجوڑ، خیبر اور کرم کے اضلاع میں تسلسل سے بدامنی اور دہشت گردی کے خلاف ہونے والے مظاہروں اور دھرنوں نے بند کمروں میں موجود حکمرانوں کو ایک واضح پیغام دے دیا ہے۔ ان مظاہروں اور احتجاج نے ٹی ٹی پی سے جاری مذاکرات پر بھی ایک بڑا سوالیہ نشانہ لگا دیا ہے۔ اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو اس سے حکومت کے چیلنجز میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔
تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ افغانستان میں شروع ہونے والے مذاکرات بدستور تعطل کے موڈ میں ہیں اور موجودہ حالات میں جس طرح ٹی ٹی پی حملے کر رہی ہے اس سے لگتا ہے کہ مستقبل قریب میں بات چیت کا کوئی امکان نہیں۔
ادھر گذشتہ روز کور کمانڈر پشاور لیفٹنینٹ جنرل حسن اظہر حیات کی طرف سے سوات کا دورہ کیا گیا ہے جو حالیہ دنوں میں کسی اعلیٰ فوجی اہلکار کا پہلا دورہ ہے۔ لیفٹننٹ جنرل حسن اظہر حیات نے وہاں قبائلی مشران اور علاقہ عمائدین سے ملاقاتیں بھی کیں۔ انہوں نے اس موقع پر کہا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں سوات کے عوام نے فوج کے شانہ بشانہ لڑ کر جو قربانیاں دی ہیں اسے کسی طور پر فراموش نہیں کیا جا سکتا اور کسی کو وادی میں قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
اس وقت دہشت گردی کے مارے قبائلی اضلاع اور مالاکنڈ ڈویژن کے عوام کو تسلی دینے کی ضرورت ہے اور اعلیٰ حکومتی اہلکاروں کی طرف سے اس طرح کے مزید دورے وقت کی ضرورت ہیں۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ کی وجہ سے جس طرح کے دکھ درد قبائلی اور نقصانات مالاکنڈ کے عوام نے برداشت کیے ہیں، شاید ہی کسی نے دیکھے ہوں۔
مصنف پشاور کے سینیئر صحافی ہیں۔ وہ افغانستان، کالعدم تنظیموں، ضم شدہ اضلاع اور خیبر پختونخوا کے ایشوز پر لکھتے اور رپورٹ کرتے ہیں۔