16دسمبر کا واقعہ اس وقت پیش آیا جب پاکستان نے اپنے ہوائی اڈے امریکہ کو دے رکھے تھے اور امریکہ کے جہاز وہاں سے پرواز بھرنے کے بعد افغانستان میں طالبان کے اڈوں پر بمباری کرتے تھے اسکے بعد ایک ایسا وقت آیا کہ طالبان افغانستان سے نکل کر پاکستان کے علاقوں میں داخل ہو گئے ۔ پاکستان آرمی نے امریکہ کو پاکستانی علاقوں میں بمباری کی اجازت نہ دی سوائے بارڈر ایریاز کے پھر پاک فوج نے خود ان علاقوں میں جہاں طالبان چھپے تھے بمباری کی جس میں بے شمار پاکستانی بھی شہید ہوئے۔اسکے بعد پاکستان میں دہشتگردی کا ایک ایسا دور شروع ہوا جو شاید آج تک ختم نہیں ہو سکا پاکستانی قوم اور پاکستانی افواج آج بھی ان دہشتگردوں سے نبرد آزما ہے اور انکی جڑیں جاٹنے میں مصروف عمل ہے ۔ ان معاملات کی پاداش میں اس وقت کے طالبان نے پاکستان آرمی کو نشانہ بنانے کی بجائے ایک ایسی عجیب واردات کی جس پر نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا اَشک بار تھی، طالبان نے پوری پلاننگ کے ساتھ اے پی ایس کو ٹارگٹ کیا اور وہاں خون کی حولی کھیلی اپنے چند دہشت گردوں کو سکون کی کینٹین پر جاب دلوائی اور ایسے اپنا گھٹیا پلان مکمل کیا ۔جو دہشتگرد آرمی پبلک سکول میں بچوں پر اندھا دھند گولیاں چلا رہے تھے ان میں سے ایک کی کال ریکارڈنگ پکڑی گئی جس میں وہ سفاک درندہ افغانستان میں اپنے کسی لیڈر کو یہ کہہ رہا تھا”بادام کھا رہا ہوں اور بچوں کو گولیوں سے بھون رہا ہوں“ یہ کال افغانستان کی گئی تھی۔ پاکستان نے طالبان کیخلاف امریکہ کا ساتھ دیا جس کے نتیجے میں پاکستان نے دہشتگردی کا ایک ایسا دور دیکھا جسے بھلانا مشکل ہی نہیں نا ممکن ہے ہر روز خود کش دھماکے ہوتے اور سیکڑوں لوگ ان میں شہید ہوتے رہے آخر کار پاک آرمی نے ان سب حالات کے پیش نظر آپریشن ضرب عضب کے نام سے ایک آپریشن کیا اس آپریشن میں ہزاروں خارجی دہشتگرد جہنم واصل ہوئے اور جو بچ گئے وہ اپنے بڑوں کے پاس افغانستان بھاگنے میں کامیاب ہو گئےجو اب بھی ادھر بیٹھ کر پاکستان کو نقصان پہنچانے کی پلاننگ کرنے میں مصروف رہتے ہیں۔ ان سب ناکامیوں کا بدلہ لینے کیلئے طالبان نے 16 دسمبر 2014ءکو آرمی پبلک سکول پر حملہ کر کے یہ ثابت کیا کہ وہ نہ صرف بزدل ہیں بلکہ پاک آرمی سے اس حد تک ڈرگئے ہیں کہ سامنے سے وار نہیں کر سکتے۔
16دسمبر کو 10 سال گزر گئے مگر اس دن کے زخم آج بھی تازہ ہیں اور ہر سال جب بھی یہ دن آتا ہے ان زخموں سے خون آنسوئوں کی طرح بہنے لگتا ہے۔ یہ ایک ایسا دن تھا جب بزدل دشمن نے پشاور آرمی پبلک سکول کے چھوٹے بچوں کو نشانہ بنایا اور جانوروں کی طرح ان پر گولیاں برسا کر انہیں شہید کر دیا۔ اپنے بچوں کو پیار اور ناز سے صبح سکول بھیجنے والی مائوں کو اس بات کی کہاں خبر تھی کہ آج ان کا لخت جگر آخری دفعہ سکول جا رہا ہے اسکے بعد اسے شہادت کا وہ مقام مل جائیگا جس کا ہر مسلمان خواہش کرتا ہے۔ مگر شہید ہونیوالے بچوں کے ماں باپ یہ کہتے ہوے نظر آئے کہ ہم نے اپنے بچوں کو سکول بھیجا تھا بارڈر پر نہیں کہ شہید ہو جائیں۔ اس حملے میں چند بچے زندہ بچنے میں کامیاب ہوئے جو آج بھی اس وقت کو یاد کر کے تڑپ اٹھتے ہیں۔ ان میں سے ایک بچہ محمد ابو زر جنہوں نے نرسری سے انٹر میڈیٹ تک اے پی ایس سکول میں تعلیم حاصل کی، وہ اس حملے میں زندہ بچ جانیوالوں میں شامل ہے، کہتاہے کہ ”سکول کا انفراسٹرکچر مکمل طور پر تبدیل کر دیا گیا ہے ، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے وہ نہیں چاہتے کہ ہم اس دن رونما ہونیوالے واقعے سے وابستہ کسی بھی چیز کو یاد رکھیں۔ جب میں ایف ایس سی کر رہا تھا تو میں حملے سے پہلے کے پرانے اے پی ایس کو بالکل بھول چکا تھا“۔ حملے کے بعد چند سالوں تک شہید بچوں کی تصاویر مرکزی سکول کے ہال میں آویزاں تھیں لیکن انہیں حال ہی میں اُتار دیا گیا ہے، یہ کہنا تھا عندلیب آفتاب کا جو سکول میں کیمیا پڑھاتی ہیں جبکہ ان میں سے ایک تصویر ان کے بیٹے حذیفہ کی بھی تھی یعنی اس حملے میں انکا اپنا بیٹا بھی شہید ہو گیا تھا۔
16دسمبر کو ہر سال اے پی ایس کے شہدا کو خراج عقیدت پیش کرنے کیلئے تقریب کا انعقاد ہوتا ہے جس میں والدین ، سول سوسائٹی کے اراکین اور حکومتی اور فوجی حکام شرکت کرتے ہیں، والدین اور سکول انتظامیہ یاد گار پر قرآن خوانی کرتے ہیں، شمعیں روشن کرتے ہیں اور پھولوں کی پتیاں نچھاور کرتے ہیں۔ اگرچہ حالیہ برسوں میں حملے کی یاد میں ہونیوالی تقریبات کا سلسلہ کم ہو چکا ہے جس کے حوالے سے کئی خاندانوں نے شکایات کی ہیں اور وہ سکول میں ”اجنبیت“ کے احساس کو بیان کرتے ہیں۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے ہم اتنے بڑے سانحے کو کیسے بھلا سکتے ہیں؟ کیا اس واقعہ کو بھول جانا ان ماں باپ کے یا پاکستانی قوم کے بس میں ہے؟ شاید نہیں یہ وہ زخم ہے جو ہمیشہ تازہ رہے گا اسے یاد رکھ کر ہمیں یہ بھی احساس ہوتا ہے کہ ہمارا دشمن کتنا بزدل اور گھٹیا سوچ رکھتا ہے ۔ دوسری جانب بچوں کے ماں باپ ایک جذبہ رکھتے ہیں کہ انکے بچوں کی قربانیاں رائیگاں نہ جائیں۔
خارجی دہشتگرد آج بھی پاکستان میں داخل ہونے کیلئے سر توڑ کوششیں کر رہے ہیں ،جو پاکستان میں داخل ہونے میں کامیاب ہو جاتے ہیں وہ پاکستان کو نقصان پہنچانے کیلئے آج بھی ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں پاک آرمی کے ان دنوں میں بھی بے شمار آپریشنز چل رہے ہیں جن میں آئے روز خارجی دہشتگرد جہنم واصل ہو رہے ہیں اور ہماری فوج کے جوان اپنی جانوں کے نذرانے پیش کر رہے ہیں۔