سانحہ آرمی پبلک سکول کی رپورٹ جسٹس محمد ابراہیم کی سربراہی میں مرتب کی گئی جو 525 صفحات اور چار حصوں پر مشتمل ہے۔ اس رپورٹ میں گواہوں کے بیانات اور کچھ اہم دستاویزات بھی شامل ہیں۔ اس تفصیلی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ نیکٹا الرٹ کے باوجود سانحہ اے پی ایس ہونا سکول میں تعینات سیکیورٹی کی ناکامی ہے۔ حملے کی سنگین دھمکیاں موصول ہونے کے باوجود سیکوریٹی گارڈز کی تعداد میں اضافہ نہیں کیا گیا اور نا ہی انہیں درست مقامات پر مامور کیا گیا۔
رپورٹ میں لکھا گیا ہے کہ اگر عقب گیٹ پر سیکیورٹی گارڈ موجود ہوتے اور دہشتگروں سے مزاحمت کرتے تو بہت بڑے نقصان سے بچا جا سکتا ہے۔ اس غفلت کے باعث سیکیورٹی ناکام ہو گئی اور دہشت گردوں کے مذموم مقاصد کامیاب ہوئے جبکہ غفلت برتنے والے عملے اور متعلقہ یونٹ کے افسران کو سزائیں بھی دی گئیں۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ دہشتگرد افغانستان کے راستے پاکستان میں داخل ہوئے۔ چونکہ پاکستان کا شمال مغربی بارڈر بہت وسیع اور غیر محفوظ ہے جہاں سے مہاجرین کی آمدو رفت آسان ہے۔ یہ دہشتگرد بھی ممکنہ طور پر مہاجرین کی شکل میں پاکستان داخل ہوئے اور انہیں مقامی سہولت کار بھی میسر تھے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جب وسائل کے باوجود جب اندر ہی سہولت کار موجود ہوں تو ایسے واقعات کو کیسے روکا جاسکتا ہے۔
سانحے کی تفصیل پر مبنی رپورٹ کے ایک حصے میں انکشاف کیا گیا ہے کہ 16 دسمبر 2014 ( سانحے کے دن) علی الصبح دہشتگرد سکول کے پچھلے دروازے سے داخل ہوئے سیکیورٹی نا ہونے کے باعث انہیں وہاں سے داخل ہونے میں کسی مزاحمت کا سامنا نا کرنا پڑا۔
قریب موجود سیکیورٹی فراہم کرنے والے تینوں ادارے جن میں گیٹ پر موجود عسکری سکیورٹی گارڈز، علاقے میں گشت کرتی پولیس اور تقریبا دس منٹ کے فاصلے پر موجود کوئیک رسپانس فورس، کی توجہ اس دھویں کی طرف مبذول ہو گئی جو منصوبے کے تحت ایک گاڑی کو آگ لگانے کی وجہ سے اٹھا، نتیجہ یہ نکلا کہ سکیورٹی کی توجہ آرمی پبلک سکول سے ہٹ گئی اور دہشت گرد سکول میں با آسانی داخل ہو گئے۔
تھوڑی دیر بعد جب سیکیورٹی پر مامور عسکری سکیورٹی گارڈز کو صورت حال کا ادراک ہوا تو ان کی دوسری گاڑی نے موقع پر پہنچ کر دہشت گردوں کا مقابلہ کرنے کی کوشش کی لیکن ریپڈ رسپانس فورس اور کوئیک رسپانس فورس کے آنے تک وہ دہشت گردوں کو روکنے میں ناکام رہے کیونکہ سکیورٹی پر مامور گارڈز کی صلاحیت دہشت گردوں کو روکنے کے لیے انتہائی ناکافی تھی۔ کوئیک رسپانس فورس اور ایم وی ٹی - 2 کے نوجوانوں نے بچوں کے بلاک کی طرف بڑھتے ہوئے دہشت گردوں کی پیش رفت کو روکا جبکہ ایم وی ٹی-1 کو غفلت برتنے پر تحقیقات کے بعد سزا دی جا چکی ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اے پی ایس سانحے میں شہید ہونے والے بچوں کے والدین نے یہ سوالات اٹھائے ہیں کہ حملے کے فوری بعد جب ایس ایس جی کمانڈوز پہنچے تو انہوں نے یہ آپریشن جلدی ختم کیوں نہیں کیا گیا بلکہ یہ آپریشن صبح سے دوپہر تک کیوں جاری رہا؟
بچوں کے والدین نے یہ بھی الزام لگایا کہ پولیس قریب ہونے کی وجہ سے کمانڈوز سے پہلے پہنچ چکی تھی لیکن اسے سکول کے اندر جانے کی اجازت نہیں دی گئی جبکہ اس واقعے کے دن بھی ان سے درست اور بروقت معلومات نہیں دی گئیں۔ رپورٹ نے واضع کیا ہے کہ سانحے میں شہید بچوں کے والدین کی فوج سے شکایات، غلط فہمی ، غلط معلومات اور مناسب رابطے نہ ہونے کی وجہ سے پیدا ہوئی۔
یاد رہے کہ 16 دسمبر 2014 کو پشاور وارسک روڈ پر موجود آرمی پبلک سکول پر دہشت گردوں کے حملہ میں سکول ٹیچرز، پرنسپل سمیت 140 بچے ہلاک ہو گئے تھے، جس کی ذمہ داری تحریک طالبان نے قبول کی تھی۔
تاہم تمام شواہد اور گواہوں کے بیانات کے بعد کمیشن نے اپنی رپورٹ میں فائنڈنگ دی ہے کہ نیکٹا الرٹ کے باوجود سانحہ اے پی ایس ہونا سکول میں تعینات سکیورٹی کی ناکامی تھی۔