پاکستان کو درپیش ایک بڑا معاشی چیلنج " ٹیکس وصولی" ہے۔ پاکستان میں ٹیکسوں کے ناقص نظام کی کئی وجوہات ہیں جیسا کہ ٹیکس وصولی کے دفاتر میں خراب انتظامیہ، ٹیکس حکام کا غیر پیشہ ورانہ اور غیر ذمہ دارانہ رویہ، اور ٹیکس قوانین کے بارے میں عوام میں شعور کا فقدان وغیرہ شامل ہیں۔اس کے علاوہ جب ٹیکس دینے کے متعلق بات کی جاتی ہے تو لوگ گھبراتے ہیں اور ٹیکس انتظامیہ بھی لوگوں کو ہراساں کرتی ہے۔ٹیکسوں کے نظام میں اصلاحات پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
ذیل میں ٹیکسوں کے نظام کو بہتر بنانے کے لیے چند تجاویز پیش کی جارہی ہیں۔
۱- ٹیکس کے نظام کو آسان بنانا:-
پاکستان میں لوگوں کی اکثریت کے لئے ٹیکس کو سمجھنا مشکل ہے اور ٹیکس جمع کروانا ایک پیچیدہ عمل ہے۔ دوسری طرف برطانیہ میں ٹیکس جمع کروانا نہایت ہی آسان ہے۔ وہاں لوگوں کے لئے آن لائن ٹیکس جمع کروانے کی سہولت موجود ہے۔ آپ آن لائن فارم ڈاؤن لوڈ کرکے ڈاک کے ذریعے بھی اپنا ٹیکس ادا کر سکتے ہیں۔ پاکستان اور برطانیہ دونوں ممالک کا ٹیکس نظام خود تشخیصی پر مبنی ہے۔ اس لئے ہم برطانیہ کی طرح ٹیکس ادائیگی کا آسان طریقہ اختیار کر سکتے ہیں۔
موجودہ دور میں پاکستان میں ٹیکس جمع کروانا مشکل ہے کیونکہ یہ ایک سافٹ ویئر IRISکے ذریعے ادا ہوتا ہے۔ ٹیکس جمع کرانے کے سیزن میں IRIS سَرور پر دباؤ بڑھتا ہے اور لوگوں کو ریٹرن فائل کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ علاوہ ازیں صرف وہ لوگ ٹیکس ادا کرتے ہیں جو اس سوفٹ وئیر کو استعمال کرنا جانتے ہیں جبکہ نئے ٹیکس فائلرز کے لیے کسی ماہر کے بغیر اس سافٹ ویئر کے ذریعے ریٹرن فائل کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ سافٹ ویئر کو زیادہ آسان بنا کر اور ٹیکس ادائیگی کے متعلق وسیع پیمانے پر آگاہی فراہم کر کے ہم اپنے ٹیکس کی بنیاد میں خاطر خواہ اضافہ کرسکتے ہیں۔
۲- ٹیکس دہندگان کی تعداد کو بڑھانا:-
پاکستان میں ابھی تک ٹیکس گوشوارے جمع کروانے والوں کی تعداد بہت کم ہے۔ اس بات کو اس حقیقت سے واضح کیا جا سکتا ہے کہ ٹیکس سال 2019 میں 1.8ملین ٹیکس گوشوارے تھے۔ پاکستان کی جہاں آبادی 200 ملین سے تجاوز کر چکی ہے وہاں صرف 1.8ملین گوشوارے اتنی زیادہ آبادی رکھنے والے ملک کے لیے شرمناک ہیں کیوں کہ معیشت کا حجم 237 بلین ڈالر کے قریب ہے۔ ٹیکس فائلر اور ٹیکس جمع کرنے والوں کی حوصلہ افزائی کرکے ٹیکس کی بنیاد کو بڑھایا جا سکتا ہے۔
حکومت کو نئے لوگوں کو ٹیکس نظام میں لانے کے لیے فائلرز کیلئے ٹیکس کی شرح نسبتاً کم اور نان فائلرز کیلئے ٹیکس کی شرح میں اضافہ کرنا ہوگا لیکن اس کام کے لئے صرف یہ اقدام کافی نہیں ہے۔ لوگوں کو ٹیکس نظام کا حصہ بنانے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ ٹیکس دہندگان کے لئے ایک قرعہ اندازی سکیم متعارف کرائی جائے جس کے ذریعے ٹیکس فائلر کو مختلف قسم کے تحائف دیئے جائیں۔
ہم ٹیکس جمع کرنے والوں کو ان کے جمع کردہ ٹیکس کا کچھ حصہ دے کر ٹیکس فائلرز کی تعداد بڑھانے کی کوشش کر سکتے ہیں کیونکہ اس طرح وہ لوگ ممکنہ ٹیکس دہندگان کو ٹیکس نیٹ میں لانے اور فائلر بننے کی ترغیب دیں گے۔ اس کے علاوہ ایف بی آر کو بھی اس امر کی ضرورت ہے کہ وہ فائلر کو اپنا دوست بنائے- ایف-بی- آر کا مخالفانہ رویہ موجودہ اور آنے والی ٹیکس دہندگان کو ٹیکس ادا کرنے کی ترغیب نہیں دے رہا۔
ٹیکس فائلر بننے کے فوائد کی تشہیر کے لیے پرنٹ میڈیا اور سوشل میڈیا دونوں کو استعمال کیا جانا چاہئے۔ لوگوں کو یہ آگاہی فراہم کر کے ایسا کرنے کی ترغیب دی جاسکتی ہے کہ اگر وہ ٹیکس جمع کرواتے ہیں تو کتنی ذمہ داریوں میں خاطرخواہ کمی واقع ہوگی۔ لہٰذا معیشت کی ترقی کا واحد راستہ یہ ہے کہ ٹیکس کی بنیاد کو بڑھایا جائے اور ٹیکس گوشوارے جمع کروانے کے طریقہ کار کو آسان بنا کر، ٹیکس دہندگان کے لئے ٹیکس کی شرح کو کم کرکے اور ایف بی آر کے دوستانہ سلوک کو یقینی بناتے ہوئے کیا جا سکتا ہے۔
۳- کارپوریٹائزیشن:-
معیشت کو دستاویزی شکل دینے اور اس کے ساتھ ساتھ تاجروں کو اپنی ٹیکس مداریوں کو کم کرنے کی اجازت دینے کے لیے تاجروں کو کارپوریٹائزیشن کی طرف گامزن ہونے کی ترغیب دینا بہت ضروری ہے_ یہ امر تاجروں کی ٹیکس ذمہ داریوں کو کم کرنے میں معاون ثابت ہوگا۔ زیادہ سے زیادہ اعداد و شمار اکٹھا ہونے اور مستحکم ہونے کے بعد ڈیجیٹلائزیشن کارپوریٹائزیشن کے لئے آگے کی راہ ہموار کر رہی ہے۔ نادرا اور ایس ای سی پی دونوں نے اپنے ریکارڈ کو ڈیجیٹلائز کیا ہے۔اپنی اور ایف بی آر کی ٹیم کے درمیان موازنہ کرتے ہوئے حکومت کو ٹیکس ادائیگیوں کا اندازہ لگانا بہت آسان ہوجائے گا جبکہ دوسری طرف لوگوں کو ٹیکس سے بچنا مشکل ہو جائے گا۔ نتیجتاً ٹیکس فائلرز کی تعداد میں اضافہ ہو گا اور وہ ٹیکس فائلرز کارپوریٹ آئزیشن کی اجازت سے کی گئی کٹوتیوں کے ذریعے اپنے ٹیکس کی ذمہ داریوں کو کم کر سکتے ہیں۔
اگر متعلقہ حکام قانون کو نافذ کرنے میں سرگرم رہے تو ٹیکس لاگو کرنے کا نظام زیادہ موثر ہوگا۔حکومت کو چاہیے کہ ٹیکس کی ادائیگی کے طریقہ کار پر نظرثانی کریں اور ایک نیا نظام متعارف کروائے۔اس کے علاوہ معاشی بحران سے نمٹنے کے لیے نئی اصلاحات ناگزیر ہیں.