Get Alerts

ایف بی آر چیئرمین کی بار بار تبدیلی ٹیکس نظام میں سدھار لا سکتی ہے؟

پاکستانی عوام، خاص طور پر ٹیکس دہندگان، اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ ایف بی آر میں محض اعلیٰ عہدے کی تبدیلی سے کوئی فرق نہیں پڑتا، جب تک کہ ٹیکس کے نظام میں پوری طرح سے اصلاحات نہ کی جائیں، تاکہ اعلیٰ اور پائیدار نمو میں مدد ملے اور حقیقی صلاحیت کے مطابق ریونیو پیدا کیا جا سکے۔

ایف بی آر چیئرمین کی بار بار تبدیلی ٹیکس نظام میں سدھار لا سکتی ہے؟

'محنت کش طبقے کے معاشی تحفظ کی بحالی کے لیے ہمیں اجارہ داری سے نمٹنے کی خاطر، اپنے ٹیکس، لیبر قوانین، اور تجارت اور ہاؤسنگ پالیسیوں میں مزید بہت کچھ تبدیلیوں اور اصلاحات کی ضرورت ہو گی'۔۔ سٹیفنی کیلٹن کی کتاب دی ڈیفیسٹ متھ

8 اگست 2024 کو گریڈ 21 میں پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروس (PAS) کے جونیئر (23 ویں کامن ٹریننگ پروگرام) افسر راشد محمود نے چیئرمین فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے گریڈ 22 کے عہدے کا چارج سنبھال لیا۔ 12 اگست 2024 کو ایک اور نوٹیفکیشن میں بتایا گیا کہ انہوں نے 'سیکرٹری ریونیو ڈویژن کے عہدے کا اضافی چارج سنبھال لیا ہے۔۔۔ تین ماہ کی مدت کے لیے یا باقاعدہ عہدے دار کی پوسٹنگ تک، جو بھی پہلے ہو'۔

ایف بی آر کی ویب سائٹ پر وفاقی حکومت کے اہم ترین ادارے کی کمان سنبھالنے کے ایک ماہ سے زائد عرصہ گزر جانے کے بعد بھی جناب راشد محمود کا پروفائل دستیاب نہیں ہے۔ ایف بی آر کی ویب سائٹ پر تمام سابقہ ​​چیئرمینوں/چیئرپرسنز کی فہرست میں ان کے نام کے آخر میں لفظ 'لنگڑیال' (یہ پنجاب میں جاٹ اور راجپوت دونوں قبیلوں کی ذات کی نمائندگی کرتا ہے) شامل ہے، جبکہ نوٹیفکیشن میں سرکاری نام راشد محمود ہے۔

سیکرٹری ریونیو ڈویژن کے گریڈ 22 کی پوسٹ پر تین ماہ کے لیے عارضی اضافی چارج وزارت خزانہ میں اتنے طاقتور عہدے کے لیے ان کی اہلیت اور/یا سنیارٹی کے بارے میں کچھ شکوک پیدا کرتا ہے۔ اس طرح کا معاملہ سبکدوش ہونے والے چیئرمین ملک امجد زبیر ٹوانہ کے ساتھ بھی تھا۔ ان کو بھی گریڈ 21 میں گریڈ 22 کے عہدے سے نوازا گیا اور سیکرٹری ریونیو ڈویژن کا عارضی اضافی چارج دیا گیا! یہ پاکستان میں منظور نظر جونیئر افسران کی خاص پہچان بن چکا ہے۔

ملک امجد زبیر ٹوانہ کو وزیر اعظم شہباز شریف کی ناراضگی کے سبب 6 ماہ قبل از وقت ریٹائرمنٹ لینے پر مجبور کیا گیا، جو ان کی طرف انتہائی توہین آمیز رویہ تھا۔ محترم اسحاق ڈار کے پسندیدہ ہونے کے باوجود ان کو گریڈ 22 تو کیا ملتا، نوکری اور عہدے سے جبری رخصتی کا سامنا کرنا پڑا۔ ان کی جگہ کسی سینیئر ایف بی آر افسر کے بجائے گریڈ 21 کے ایک جونیئر پی اے ایس گروپ کے افسر کی تعیناتی نے ایک بار پھر ثابت کر دیا کہ شہباز شریف پسند کے لئے میرٹ کا قتل عام کرنے میں اپنے بڑے بھائی سے کچھ کم نہیں ہیں۔

ایف بی آر کے کئی سینیئر افسران کو نظرانداز کرنے کے عمل کو، ہمیشہ کی طرح، کئی حلقوں کی جانب سے تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ جیسا کہ توقع کی گئی تھی، ان لینڈ ریونیو سروس (IRS) اور پاکستان کسٹمز سروس (PCS) کے افسران میں یہ فیصلہ ناراضگی کا باعث بنا۔ ان کے لیے کوئی بھی شخص جو ان کے متعلقہ کیڈر سے تعلق نہیں رکھتا، قابل قبول نہیں!

پاکستانی عوام، خاص طور پر ٹیکس دہندگان، اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ ایف بی آر میں محض اعلیٰ عہدے کی تبدیلی سے کوئی فرق نہیں پڑتا، جب تک کہ ٹیکس کے نظام میں پوری طرح سے اصلاحات نہ کی جائیں، تاکہ اعلیٰ اور پائیدار نمو میں مدد ملے اور حقیقی صلاحیت کے مطابق ریونیو پیدا کیا جا سکے، جو کہ رسمی اور غیر رسمی معیشت پر 15 فیصد کی شرح سے 30 ٹریلین روپے سے کم نہیں ہے۔

اس بات پر اتفاق رائے ہے کہ ایف بی آر کا نیا کپتان بھی من مانے احکامات اور موجودہ ٹیکس دہندگان کو دبانے کے منفی ہتھکنڈوں سے فیلڈ فارمیشن کو نہیں روکے گا، جیسا کہ ماضی میں ان کے پیشرو کرتے رہے تھے۔ نئے چیئرمین کو 12.913 ٹریلین روپے کا ہدف (بجٹ میں ایف بی آر کے لیے 12.970 ٹریلین روپے کا ہدف مقرر کیا گیا تھا) پورا کرنا ہے، جو کہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (IMF) نے 37 ماہ کے توسیعی سہولت پروگرام کے تحت، رواں مالی سال کے لیے مقرر کیا ہے۔ اس پروگرام کی منظوری 12 جولائی 2024 کو آئی ایم ایف کے عملے کی سطح پر دی گئی، مگر تاحال ایگزیکٹو بورڈ کے ستمبر 2024 کے ٹائم ٹیبل میں اس کو شامل نہیں کیا گیا۔ تاہم، حکومت نے وفاقی بجٹ 2024-25 میں آئی ایم ایف کے نئے بیل آؤٹ سے فائدہ اٹھانے کے لیے سخت پیشگی شرائط میں سے ایک کے طور پر ممکنہ بدترین (جابرانہ) ٹیکس لگائے۔

وزیر اعظم شہباز شریف کے ساتھ قریبی تعلقات کے لیے مشہور نئے چیئرمین کو چارج سنبھالتے ہی فوری طور پر اگست 2024 کے لیے ماہانہ ہدف کے طور پر 898 بلین روپے کی خطیر رقم جمع کرنے کے مشکل کام کا سامنا کرنا پڑا۔ ٹیکس ایڈمنسٹریشن اور پالیسی میں کوئی متعلقہ تجربہ نہ ہونے کے علاوہ راشد محمود لنگڑیال یہ سمجھنے میں بھی ناکام رہے کہ جولائی 2024 میں ان کے پیشرو نے ان کے ساتھ کیا بھیانک کھیل کھیلا۔ علاوہ ازیں ان کے بہت سے دوسرے قابل اعتراض اقدامات کے جن میں IRS اور PCS کے بہت سے قابل افسران کو سرپلس پول میں بھیجنا شامل تھا۔ اس وقت انہوں نے وزیر اعظم کو بھی اندھیرے میں رکھا، جس کی آزادانہ تفتیش ہونی چاہیے۔

سبکدوش ہونے والے ایف بی آر چیئرمین نے غیر معمولی کارکردگی دکھانے کے لیے جان بوجھ کر جولائی 2024 کے لیے کم ہدف مقرر کیا۔ اس سال مجموعی ہدف میں 40 فیصد اضافے کی بنیاد پر جولائی 2024 کا ہدف 735 ارب روپے سے کم نہیں ہونا چاہیے تھا، جبکہ یہ صرف 656 ارب روپے مقرر کیا گیا۔ یہ سب کچھ آئی ایم ایف اور وفاقی وزیر خزانہ ریونیو محمد اورنگزیب کی عقابی نظروں کے نیچے ہوا!

تاریخی طور پر ایف بی آر مالی سال کے پہلے مہینے میں اپنے سالانہ ہدف کا تقریباً 5.7 فیصد اکٹھا کرتا ہے۔ جولائی 2023 میں 534 ارب روپے جمع کیے گئے۔ اس لحاظ سے بھی جولائی 2024 کے لیے ہدف 735 ارب روپے سے کم نہیں ہونا چاہیے تھا۔ ان حقائق/رجحانات کے برعکس جولائی 2024 کا ہدف جان بوجھ کر 656 ارب روپے کی کم سطح پر مقرر کیا گیا اور پھر 3.2 بلین روپے کی اضافی وصولی کا ڈرامہ کیا گیا۔

حیرت کی بات یہ تھی کہ چند منجھے ہوئے کہنہ مشق صحافیوں نے بھی مالی سال کے پہلے ہی ماہ میں ہدف سے زائد وصولی پر ایف بی آر کی تعریف کی۔ وہ بھی نا دیکھ سکے کہ جان بوجھ کر کم ہدف رکھنے کی حرکت کا لازمی نتیجہ آنے والے مہینوں کے لیے ماہانہ اہداف میں اضافہ تھا! اگر مسٹر زبیر ٹوانہ نے جولائی 2024 میں 735 ارب روپے جمع کیے ہوتے تو اگست 2024 کا ہدف صرف 819 ارب روپے ہوتا، نہ کہ 898 ارب روپے۔

آئی ایم ایف نے ایف بی آر کے لیے رواں مالی سال کی پہلی سہ ماہی کا ہدف 2.652 بلین روپے  مقرر کیا ہے جس کے مطابق ستمبر 2024 کے دوران مزید 1.196 ٹریلین روپے جمع کرنے کی ضرورت ہے۔ اگست 2024 کی کارکردگی کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ بہت بڑا ہدف ہے۔ باوجود، اربوں روپے کے ریفنڈز کو روکنے اور ابھی تک واجب الادا نہ ہونے والے پیشگی ٹیکس کی وصولی کے، یہ ہدف ناممکن کے قریب نظر آتا ہے، خاص طور پر جبکہ مجموعی طور پر معیشت اپنی بقا کے لیے جدوجہد کر رہی ہے۔ چونکہ 30 ستمبر مالی سال 2024 کے لیے زیادہ تر افراد اور کمپنیز کے لیے انکم ٹیکس گوشوارے جمع کروانے کی آخری تاریخ ہے، ایف بی آر کو امید ہے کہ ریٹرنز کے ساتھ خاطر خواہ رقم جمع کروائی جائے گی، جس سے پہلی سہ ماہی کا ہدف پورا کر لیا جائے گا۔

ایف بی آر کی پریس ریلیز کے مطابق جولائی اور اگست 2024 کے دوران اس نے 'خالص محصولات میں 1456 بلین روپے جمع کیے اور 132 ارب روپے (گزشتہ سال کے مقابلے میں 44 فیصد زیادہ) روپے بطور ریفنڈز (refunds) برآمد کنندگان کو ان کی لیکویڈیٹی کے مسائل کو حل کرنے کے لیے جاری کیے گئے'۔

مقامی پریس میں یہ اطلاعات بھی ہیں کہ وزیر مملکت برائے محصولات علی پرویز ملک نے حال ہی میں ' ایف بی آر کو ہدایت کی ہے کہ وہ گذشتہ سالوں سے 138 بلین روپے کے مؤخر ریفنڈ کیسز کو حل کرے، جس سے ایکسپورٹرز اور مقامی صنعت کار دونوں متاثر ہو رہے ہیں'۔ انہوں نے ایف بی آر پر مزید زور دیا کہ 'اس بات کو یقینی بنائے کہ تمام برآمد کنندگان کے ریفنڈز مکمل خودکار سیلز ٹیکس ای ریفنڈ (FASTER) سسٹم کے ذریعے پراسیس کیے جائیں'۔

وزیر مملکت برائے محصولات کی ہدایات کے برعکس ایف بی آر مبینہ طور پر حقیقی رقم کی واپسی کے عمل کو 'سست' کر رہا ہے۔ اس دوران ایک حیران کن اقدام میں 'وفاقی حکومت نے ایک کمشنر اور ایک ڈپٹی کمشنر کو 2 بلین روپے کے جائز ریفنڈ کی واپسی پر معطل کر دیا'۔ یہ رقم 'گیس اینڈ آئل پاکستان لمیٹڈ (GO) کو وفاقی وزیر خزانہ کی ہدایت پر جاری کی گئی تھی'۔

ایف بی آر کا ہر نیا سربراہ چارج سنبھالنے کے بعد نا دہندگان سے ٹیکس وصول کرنے کا عہد کرتا ہے لیکن آخرکار امیروں اور طاقتور طبقات جو جائز ٹیکس بھی ادا نہیں کرتے، ان کی حفاظت کرتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ وہ بلاک شدہ رقم کی واپسی (refunds) کی ادائیگی کی بھی یقین دہانی کراتا ہے، مگر بالآخر ان افسران کی حوصلہ شکنی کرتا ہے جو واجب الادا رقوم واپس کرتے ہیں۔ ان میں زیادہ تر پر اس ضمن میں سپیڈ منی ( speed money) لینے کا الزام عائد کیا جاتا ہے۔

پاکستان میں 1977 کے بعد سے امیروں پر ٹیکس کے بوجھ میں زبردست کمی آئی ہے جبکہ غریبوں پر ناقابل برداشت اضافہ ہوا ہے۔ امیر طبقے، خاص طور پر اسمبلیوں میں بیٹھے غیر حاضر زمینداروں، نے کافی آمدنی ہونے کے باوجود زرعی انکم ٹیکس کے طور پر ایک پیسہ بھی ادا نہیں کیا۔ اس طبقے میں وہ طاقتور جرنیل بھی شامل ہیں جنہوں نے زرعی زمینیں بطور گرانٹ اور ایوارڈ حاصل کیں۔

کیا نئے چیئرمین امیروں اور طاقتوروں پر ٹیکس لگا کر قانون نافذ کریں گے یا اپنے پیشروؤں کی طرح ایف بی آر کے 'وژن، مشن اور قدر' کے نعرے کو محض رسماً ادا کریں گے؟ لاطینی محاورہ، قانون کے بغیر جرم کیسا (Nullum tributum sine lege ) اس تقاضے کا اظہار کرتا ہے کہ قانون کی حکمرانی کا اطلاق ٹیکسوں کے تعین اور نفاذ پر ہونا چاہیے۔

ایف بی آر کو نافذ شدہ قوانین کی تعمیل کرنی چاہیے (مثال کے طور پر فوری طور پر تمام جائز ریفنڈز جاری کرنے چاہئیں، یعنی اتنی ہی تیز رفتاری سے جس سے ٹیکس وصول کیا جاتا ہے) اور شہریوں کو اپنے لین دین کے ٹیکس نتائج کی پیشگی پیش گوئی کرنے کے قابل ہونا چاہیے۔ ایف بی آر کے کسی بھی اہلکار کی جانب سے قانون کی حکمرانی کی عدم تعمیل کی صورت میں ٹیکس دہندگان، افراد یا کارپوریٹ، کے لیے مناسب اور فوری چارہ جوئی کے قانون میں کمپنسیشن (compensation) کا حق ہونا چاہیے۔ اس ضمن میں ٹیکس دہندگان کے حقوق کے بل کو فوری طور پر نافذ کرنے کی ضرورت ہے۔ نظام میں اعتماد اور یقین کی بحالی کے لئے ٹیکس مشینری کے ساتھ ساتھ ٹیکس دہندگان دونوں کے لیے قانون کی حکمرانی کا نفاذ ضروری ہے۔

موجودہ ٹیکس کا نظام غریب اور متوسط طبقے کے لوگوں پر غیر ضروری اور ظالمانہ محصولات مسلط کرتا ہے۔ 18 فیصد سیلز ٹیکس (درحقیقت ہر قسم کے ٹیکس لگانے کے بعد بہت سے تیار شدہ درآمدی سامان پر 35 فیصد سے 60 فیصد تک)، اعلیٰ آمدنی والے گروہوں کے مقابلے میں کم آمدنی والے گروہوں کی معمولی آمدن کا بڑا حصہ لیتا ہے۔ امیر اور طاقتور اپنی بھاری آمدنی/اثاثوں پر ٹیکس میں چھوٹ اور رعایتوں سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ وہ سٹاک ایکسچینج اور رئیل اسٹیٹ میں قیاس آرائی پر مبنی لین دین کے ذریعے بہت زیادہ منافع کماتے ہیں لیکن ریاست کو کچھ بھی نہیں دیتے یا بہت کم ٹیکس ادا کرتے ہیں۔ ٹیکس نا دہندگان قوانین کی کھلی خلاف ورزی کرتے ہیں، لیکن ایف بی آر ان کی اصل آمدنی کا تعین کیے بغیر ان سے 'نان فائلرز' کی حیثیت سے تھوڑا سا زیادہ پیشگی ٹیکس وصول کرنے پر مطمئن ہے۔ کیا یہ قانون کی حکمرانی کے اصول کی بدترین مثال نہیں ہے؟

عالمی بینک کے نام نہاد ٹیکس ایڈمنسٹریشن ریفارمز پروگرام (TARP) اور پاکستان ریز ریونیو (PRR) پروجیکٹ کے دنوں سے ہمارے پاس ہر سال بڑھتے ہوئے مالیاتی اور محصولاتی خسارے، ٹیکس ٹو جی ڈی پی کے تناسب میں کمی اور محصولات میں چوری کی داستانیں ہیں۔ ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کی نظروں میں امیروں کے لیے ٹیکسوں میں رعایتیں اور غریبوں، خاص طور پر متوسط تنخواہ دار طبقے، پر بوجھ بڑھانا ہی ٹیکس اصلاحات کی نمایاں خصوصیات رہی ہیں! اس کے نتیجے میں پچھلے 40 سالوں میں غریبوں پر ٹیکس میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے جبکہ غیر حاضر زمینداروں (بشمول طاقتور جرنیل جنہوں نے گرانٹ اور ایوارڈز کے طور پر زمینیں حاصل کی ہیں) نے ایک پیسہ بھی زرعی انکم ٹیکس کے طور پر ادا نہیں کیا۔ عدالت عظمیٰ کے چیف جسٹس بجا طور پر پارلیمان کی بالادستی کے معترف ہیں مگر بنیادی حقوق کے خلاف قانون سازی یا مفاد عامہ سے متعلق قانون سازی نہ کرنے پر خاموشی کے بارے میں کوئی فرمان جاری نہیں کرتے۔ پارلیمان نے آج تک اسلام آباد وفاقی علاقہ جات میں زرعی انکم ٹیکس کا قانون ہی نہیں بنایا جو کہ دستور پاکستان کے آرٹیکل 142 (d) کے مطابق اس کے اختیار میں آتا ہے۔

تاجروں سے سیاست دان بنے ارکان پارلیمان، جن میں سے اکثر قرضے معاف کرانے والے ہیں، بے ایمان تاجر اور بدعنوان سرکاری افسران، وسائل پر قابض 'اصل حکمران' ٹیکس کی ذمہ داریوں کی خلاف ورزی کرتے رہتے ہیں جس کا نتیجہ یہ ہے کہ قوم اس حد تک مقروض ہو چکی ہے کہ صرف سود کی ادائیگی کے لیے مزید قرضوں کی ضرورت ہے۔ قرض کی خدمت اب ہمارے کل قومی محصولات کا تقریباً 75 فیصد حصہ کھا رہی ہے۔ کتنی مضحکہ خیز بات ہے کہ اپنی اصلاح کے لیے بھی ہمیں غیر ملکی قرضوں اور گرانٹس کی ضرورت ہے!

2002 سے 2010 تک TARP (بہت سے ماہرین اس کو TRAP بھی کہتے ہیں) کے دوران ایف بی آر نے ٹیکس کی بنیاد کو وسیع کرنے کے اپنے 'مشن' کے لیے صرف زبانی جمع خرچ کیا۔ طاقتور جرنیل اور سرکاری ملازمین، سیاست دان، تاجر اور بڑے غیر حاضر زمیندار اپنی استطاعت کے مطابق انکم ٹیکس ادا کرنے سے تب بھی اور اب بھی ہچکچا رہے ہیں۔ امیروں پر ٹیکس لگانے کے لیے سیاسی عزم کا فقدان اور حکمرانوں کی جانب سے ٹیکس دہندگان کے پیسے کا ضیاع ٹیکس کلچر کی عدم موجودگی کی بنیادی وجہ ہے۔ لوگ ٹیکس کی عدم ادائیگی کا جواز یہ کہہ کر دیتے ہیں کہ وہ کرپٹ حکمرانوں اور نااہل سرکاری اہلکاروں کی عیاشیوں کا بوجھ کیوں اٹھائیں؟

ہمارا حقیقی بحران بوسیدہ اور جابرانہ ٹیکس نظام ہے جو جائز طور پر عوام کو قبول نہیں ہے۔ ٹیکس کے نظام اور حکام پر عوام کا اعتماد پیدا کرنے کے لیے ہمیں وفاقی اور صوبائی دونوں سطحوں پر ٹیکس انتظامیہ کی بنیادی تنظیم نو کے ساتھ عوام دوست اور حقیت پسندانہ پالیسیوں، سادہ ٹیکس قوانین اور ضابطوں، اور سہل طریقہ کار کی ضرورت ہے۔ بیرون ملک سے نقل کیا گیا بہترین نظام بھی کام نہیں کرے گا، اگر ٹیکس اہلکار کی منفی سوچ برقرار رہی۔ اس طرح نظام اور اس کو کنٹرول کرنے والے انسانی تانے بانے دونوں کو بہتر بنانے کی فوری ضرورت ہے۔

ایف بی آر اور تمام موجودہ صوبائی ٹیکس ادارے کاروبار کو تباہ کر رہے ہیں۔ اب وقت آ گیا ہے کہ وہ تعمیل کرنے والے ٹیکس دہندگان کو ہراساں کرنا بند کریں اور دھوکے بازوں کو تحفظ دینا چھوڑ دیں۔ ٹیکس پالیسیوں کو سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے، خاص طور پر ان تمام لوگوں کے لیے جو سامان اور خدمات پیدا کرتے ہیں، جس سے روزگار کے زیادہ مواقع پیدا ہوتے ہیں۔

ہمارے ٹیکس پالیسی مرتب کرنے والے افراد کو یہ بات ذہن نشین رکھنا ہو گی کہ تیز تر اور پائیدار اقتصادی ترقی خودبخود ٹیکس کے حجم میں اضافہ کرے گی۔ موجودہ جابرانہ ٹیکس نظام جو معاشی اور اقتصادی ترقی کا دشمن ہے، اس کو ختم کرنے اور ریاست پر عوام کا اعتماد بحال کرنے کے لیے اس کی تشکیل نو کی ضرورت ہے۔ اس کا حل ایف بی آر کے سربراہوں کو بدلتے رہنا نہیں بلکہ ایک نئی نیشنل ٹیکس اتھارٹی (این ٹی اے) کا قیام ہے جو پیشہ ور افراد پر مشتمل ہو، نا کہ بیوروکریٹس کے زیر نگرانی ہو۔ وفاقیت کے اصول پر مرکز اور صوبوں کی نمائندہ کے طور پر این ٹی اے ناصرف تمام محصولات قانون کے مطابق اکٹھے کرے گی، بلکہ قومی سطح پر پنشن اور تمام سوشل سکیورٹی کے واجبات ادا کرنے کی بھی ذمہ دار ہو گی۔

مضمون نگار وکالت کے شعبے سے وابستہ ہیں اور متعدد کتابوں کے مصنف ہیں۔ وہ لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز (LUMS) میں ایڈجنکٹ فیکلٹی، ممبر ایڈوائزری بورڈ اور پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس (PIDE) کے سینیئر وزٹنگ فیلو ہیں۔