Get Alerts

آئی ایم ایف اور 'زرعی آمدنی' سے متعلق ٹیکس اصلاحات کا امکان

زرعی آمدنی پر ٹیکس عائد نہ کرنے میں اصل مسئلہ اٹھارویں آئینی ترمیم یا این ایف سی ایوارڈ کا نہیں ہے بلکہ ریونیو سسٹم کی اصلاح میں ناکامی، ایف بی آر کی غیر فعال حالت، غیر فعال صوبائی ٹیکس ایجنسیاں، ٹیکسوں میں چھوٹ اور دولت مند ٹیکس چوروں اور ریاستی چوروں کو معافی دینا مسئلے کی جڑ ہے۔

آئی ایم ایف اور 'زرعی آمدنی' سے متعلق ٹیکس اصلاحات کا امکان

"زراعت پر ٹیکس لگانا پاکستان کے لیے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے نئے پروگرام کا بنیادی جزو ہے اور اس کی کامیابی کے لیے اہم ہے۔ اگر اس وعدے پر عمل نہ کیا گیا تو پروگرام کی کامیابی خطرے میں پڑ جائے گی"—ناتھن پورٹر، پاکستان کے لیے آئی ایم ایف کے چیف آف مشن، اگر زراعت پر ٹیکس نہیں لگایا گیا تو پاکستان کا آئی ایم ایف کا پروگرام ’خطرے میں ہو گا‘، نکی ایشیا، 18 جولائی، 2024

"اس کے ساتھ ساتھ، صوبے ٹیکس جمع کرنے کی اپنی کوششوں کو بڑھانے کے لیے اقدامات کریں گے، بشمول سروسز پر سیلز ٹیکس اور زرعی انکم ٹیکس۔ مؤخر الذکر پر، تمام صوبے وفاقی ذاتی اور کارپوریٹ انکم ٹیکس کے نظام کے ساتھ قانون سازی کے ذریعے اپنے زرعی انکم ٹیکس کے نظام کو مکمل طور پر ہم آہنگ کرنے کے لیے پرعزم ہیں اور یہ یکم جنوری 2025 سے نافذ العمل ہو جائے گا"—آئی ایم ایف کی پریس ریلیز نمبر 24/273، 12 جولائی، 2024

"آج پاکستان میں بڑے زمینداروں میں سے محض 5 فیصد کے پاس کل کھیتی کا 64 فیصد حصہ ہے، جبکہ 65 فیصد چھوٹے کسانوں کے پاس صرف 15 فیصد زمین ہے (نذیر 2015)"—قرض کی معیشت: متبادل پاکستان میں کفایت شعاری اور نو لبرل ازم [صفحہ 19]

"ڈاکٹر پاشا، عدم مساوات پر UNDP کی تازہ ترین قومی انسانی ترقی کی رپورٹ (NHDR) کے مرکزی مصنف کے طور پر، ملک میں موجود مجموعی تفاوت کے بارے میں بات کر رہے تھے۔ مثال کے طور پر، زرعی اور آبادی کی مردم شماری سے پتہ چلتا ہے کہ پاکستان میں 1 فیصد جاگیردار تمام کھیتی کے 22 فیصد رقبے کے مالک ہیں"—ایکویٹی اور خوشی پر: یو این ڈی پی لاہور ادبی میلے میں، فروری 26، 2019

"میرے خیال میں زمینداروں کی لابی اسمبلی میں طاقتور ہے اور وہ شاید غیر قابل ٹیکس آمدنی پر نظرثانی کی اجازت نہ دیں۔ صوبائی حکومتوں کے ساتھ زرعی انکم ٹیکس گوشوارے جمع کرانے کے بجائے، وہی ایف بی آر کے پاس فائل کیے جائیں جو صرف زراعت کے لیے ٹیکس گوشواروں کا تخمینہ/ وصول کرے اور اسے گیس ڈویلپمنٹ سرچارج کی طرح ان کے متعلقہ حصہ کے مطابق صوبوں کو منتقل کرے۔ مساوات کا تقاضا ہے کہ ٹیکس کا بوجھ سب کے لیے یکساں ہونا چاہیے"۔۔ ڈاکٹر قیصر بنگالی۔

پاکستان اور انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) کے درمیان سٹاف لیول (عملے کی سطح) پر تقریباً 7 بلین امریکی ڈالر کا 37 ماہ کی مدت کا توسیعی فنڈ سہولت (ای ایف ایف) معاہدہ 12 جولائی 2024 کو مؤخر الذکر کے ایگزیکٹو بورڈ کی منظوری سے مشروط، طے پا گیا۔ پاکستان کے لئے آئی ایم ایف مشن کے چیف ناتھن پورٹر کا میڈیا میں دیا گیا بیان، 24 ویں ای ای ایف پروگرام کی کامیابی کو "صوبائی زرعی انکم ٹیکس کے مروجہ قوانین میں قانون سازی کے ذریعے وفاقی انکم ٹیکس میں شخصی اور کارپوریٹ انکم ٹیکس کی لاگو شرح کے ساتھ مکمل ہم آہنگی سے مشروط کرتا ہے" اور یہ بھی لازم قرار دیتا ہے کہ "یہ ہر حال میں یکم جنوری 2025 سے نافذ العمل ہو"۔

'زرعی آمدنی' پر اگر موجودہ وفاقی انکم ٹیکس نظام کے مساوی ٹیکس لاگو ہوتا ہے تو 25 ایکڑ تک ملکیت کے حامی چھوٹے اور درمیانے کسانوں کے لیے اس کے انتہائی سنگین معاشی اثرات مرتب ہوں گے۔

'زرعی آمدنی' پر ٹیکس کا اصل مسئلہ یہ ہے کہ امیر غیر حاضر زمیندار اس کے ذریعہ سے ہونے والی اپنی بھاری کمائی پر انکم ٹیکس ادا نہیں کر رہے ہیں، یا نہ ہونے کے برابر حصہ ڈال رہے ہیں، جبکہ چھوٹے کسان، جو شاید ہی کوئی قابل ٹیکس آمدنی حاصل کر رہے ہوں، ابھی تک متعدد وفاقی اور صوبائی بلاواسطہ محصولات کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں۔ جو لوگ معاشی طور پر غیر منافع بخش ملکیت رکھتے ہیں وہ بیج، کھاد، کیڑے مار ادویات، بجلی، ڈیزل وغیرہ کے بے تحاشہ اخراجات کا سامنا کر رہے ہیں۔ توانائی اور پٹرولیم مصنوعات کی مسلسل بڑھتی ہوئی قیمتوں کے ساتھ، موجودہ شخصی/کارپوریٹ انکم ٹیکس کی شرحوں پر، جو وفاقی بجٹ 2024-25 میں انتہائی نامناسب بلکہ ظالمانہ سطح تک بڑھا دی گئی ہیں، کے مساوی زرعی انکم ٹیکس کا چھوٹے اور درمیانے کسانوں پر ناقابل برداشت بوجھ پڑے گا۔ اس سے ان کی مالی حالت مزید ابتر ہو جائے گی اور اس سے بہت سے مزید لوگوں کو خط غربت سے نیچے دھکیل دیا جائے گا۔

فصلوں میں استعمال کی اشیا (inputs) کی موجودہ ہوشربا قیمت اور ناقص معیار، دنیا کے مقابلے میں فی ایکڑ کم پیداواری صلاحیت اور مارکیٹ تک رسائی کی کمی کسانوں کے اہم مسائل ہیں، لیکن کوئی بھی ان کو حل کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ منڈیوں تک رسائی کے ضمن میں یہ قابل ذکر حقیقت ہے کہ موجودہ فروحت کا نظام استحصال کرنے والے آڑھتیوں کے ہاتھ میں ہے۔

'زرعی آمدنی' کی قانونی تشریح اور کل قومی آمدنی (جی ڈی پی) میں زراعت کے شعبے میں اس کے حصہ کے بارے میں بہت سی غلط فہمیاں ہیں۔ اقتصادی سروے 2023-24 کے مطابق، مالی سال 2023-24 میں زراعت کے شعبے کا جی ڈی پی میں 24 فیصد حصہ تھا۔ بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ فصلیں زراعت کے شعبے کی سب سے اہم پیداوار ہیں، مگر حقیقت میں یہ جی ڈی پی کے 10 فیصد سے بھی کم ہیں۔

اقتصادی سروے 2023-24 کے مطابق؛ "مالی سال 2023-24 کے دوران، اہم فصلوں نے زراعت کی ویلیو ایڈیشن میں 20.67 فیصد اور جی ڈی پی میں 4.97 فیصد حصہ ڈالا۔ دیگر فصلوں نے زراعت کی ویلیو ایڈیشن میں 13.51 فیصد اور جی ڈی پی میں 3.25 فیصد حصہ ڈالا"۔ گویا تمام فصلوں کا مجموعی حصہ جی ڈی پی کا 8.22 فیصد تھا۔

اس بات پر زور دینے کی ضرورت ہے کہ دستور پاکستان کے تحت صرف 'زرعی آمدنی' صوبوں کی قانون سازی کی اہلیت میں آتی ہے، جبکہ زراعت کے شعبے کی دیگر تمام سرگرمیاں (لائیو سٹاک، پولٹری، جنگلات، مویشی پالنا، مچھلی کی فارمنگ وغیرہ) فیڈرل بورڈ آف ریونیو ( ایف بی آر) کے دائرہ اختیار میں آتی ہیں۔ ایف بی آر کی جانب سے کبھی بھی انکشاف نہیں کیا گیا کہ ان سرگرمیوں سے کتنا ٹیکس وصول ہوا۔

ہمارے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں سب سے زیادہ باخبر اور نام نہاد ذہین اینکرز بھی اس بات کا ادراک نہیں رکھتے کہ قانون کے مطابق 'زرعی آمدنی' کیا ہے اور اس سے کتنا انکم ٹیکس وصول کیا جا سکتا ہے۔

تازہ ترین خبروں، تجزیوں اور رپورٹس کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں

اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین کے فورتھ شیڈول میں شامل وفاقی قانون سازی کی فہرست کے حصہ اول کے اندراج 47 کے ساتھ آرٹیکل (c) 142 کی روشنی میں صوبائی اسمبلیوں کو اپنے اپنے صوبے کی حدود میں زرعی آمدنی پر ٹیکس لگانے کا خصوصی اختیار حاصل ہے۔ قومی اسمبلی کو یہی ٹیکس لگانے کا اختیار اسلام آباد وفاقی علاقہ جات (ICT) میں ہے، جو آئین کے آرٹیکل (b) 1 کے تحت وفاقی حکومت کے دائرہ کار میں آتے ہیں۔

قومی اسمبلی 'زرعی آمدنی' کے علاوہ ہر قسم کی آمدنی پر انکم ٹیکس عائد کر سکتی ہے جیسا کہ اندراج 47، وفاقی قانون سازی کی فہرست کا حصہ اول کہتا ہے؛ "زرعی آمدنی کے علاوہ آمدنی پر ٹیکس"۔ تاہم، یہ واضح رہے کہ اسلام آباد وفاقی علاقہ جات (ICT) کے اندر، 'زرعی آمدنی' پر انکم ٹیکس لگانے کا خصوصی اختیار قومی اسمبلی کو حاصل ہے، جیسا کہ آئین کے آرٹیکل (d) 142 میں درج ہے؛

"مجلسِ شوریٰ (پارلیمنٹ) کو فیڈریشن میں ایسے علاقوں سے متعلق تمام معاملات کے حوالے سے قانون بنانے کا خصوصی اختیار حاصل ہو گا جو کسی بھی صوبے میں شامل نہیں ہیں"۔

'زرعی آمدنی' جس پر ٹیکس لگانے کا اختیار ہر صوبے کو اپنی حدود میں ہے، کی تشریح انتہائی لازم ہے۔ آئین کے آرٹیکل 260 کے مطابق 'زرعی آمدنی' کا مطلب وہ آمدنی ہے جس کو انکم ٹیکس سے متعلق قانون میں بیان کیا گیا ہے۔ یہ ایک خصوصی تعریف (definition) ہے جس کا مطلب ہے کہ اس کو کوئی دوسرا معنی نہیں دیا جا سکتا۔ اس وقت رائج انکم ٹیکس آرڈیننس 2001 ہے جس کا سیکشن 41 مکمل طور پر اس بات کی وضاحت کرتا ہے کہ 'زرعی آمدنی' کیا ہے۔

یہ چونکا دینے والی بات ہے کہ آئین کی غیر واضح شقوں اور مساوات کے اصول کے باوجود کوئی بھی صوبائی حکومت کبھی بھی دولت مند اور غیر حاضر زمینداروں سے انکم ٹیکس آرڈیننس 2001 کے تحت لاگو شرح پر 'زرعی آمدنی' پر ٹیکس وصول کرنے کی طرف مائل نہیں ہوئی۔ آئی ایم ایف کو اسی وجہ سے یہ شرط عائد کرنے کا موقع ملا ہے کہ وفاقی انکم ٹیکس کی شرحوں کے مطابق صوبے بھی زرعی انکم ٹیکس کی وصولی کرنے کی یقین دہانی کروائیں۔

اس مسئلے کو ایک تحقیقی مقالے اور بہت سے مضامین میں ہماری طرف سے 1996 سے اجاگر کیا گیا مگر جب تک آئی ایم ایف کا حکم صادر نہیں ہوا کسی نے توجہ نہیں دی۔ یہ ہمارے اہل اقتدار کی غلامانہ ذہنیت کا منہ بولا ثبوت ہے۔ اور تو اور، پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس (PIDE) کی طرف سے شائع ہونے والے تازہ ترین مضمون پر ابھی تک آئی ایم ایف نے غور نہیں کیا، جس میں اس بات پر روشنی ڈالی گئی ہے کہ قومی اسمبلی نے ابھی تک اسلام آباد وفاقی علاقہ جات (ICT) میں زرعی انکم ٹیکس کیوں نہیں نافذ کیا!

'زرعی آمدنی' پر انکم ٹیکس فی ایکڑ کی بنیاد پر نہیں لگایا جانا چاہیے، بلکہ خالص آمدنی کی بنیاد پر، جیسا کہ آئین کی منشا ہے۔ کوئی بھی صوبہ ملک کے سپریم قانون کے اس حکم کو نظرانداز نہیں کر سکتا۔ تاہم 1973 سے ایک غیر آئینی عمل جاری ہے اور سپریم کورٹ سمیت تمام ادارے اس اہم معاملے پر خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں جو امیروں کو ریاستی خزانے اور بے زمین کاشت کاروں کی قیمت پر مزید دولت اکٹھا کرنے میں مدد دیتے ہیں۔

وفاقی حکومت کا امیروں کی 'زرعی آمدنی' پر ٹیکس نہ لگانے کا طریقہ اسلام آباد کی وفاقی حدود میں صوبوں سے مختلف نہیں ہے، حالانکہ بہت سے امیر افراد زرعی فارموں کے مالک ہیں اور دیہی علاقوں میں غیر حاضر زمیندار کافی امیر ہیں۔ یہ جاگیردار قومی سیاست، وفاقی اور صوبائی اسمبلیوں میں نمایاں اثر و رسوخ رکھتے ہیں۔

آئین قومی اسمبلی کو وفاقی حدود میں 'زرعی آمدنی' پر انکم ٹیکس لگانے کا اختیار دیتا ہے، لیکن اس مقصد کے لیے آج تک کوئی قانون سازی نہیں کی گئی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اشرافیہ کے بااثر ارکان، جنہیں ریاست کی طرف سے زرعی اراضی بطور انعام دی جاتی ہے، اس کو کرائے پر دے کر بھاری آمدنی حاصل کرتے ہیں۔ یہ خاکی اور مفتی بااثر ارکان، منتخب حکومتوں پر کافی اثر و رسوخ رکھتے ہیں اور غریب کسانوں کی محنت پر خوشحال زندگی گزارتے ہیں۔ صورت حال کو مزید خراب کرتے ہوئے، غریب کسانوں کا ریاست کی طرف سے بھی استحصال کیا جاتا ہے، کیونکہ وہ زرعی آلات، بجلی، کھاد، کیڑے مار ادویات اور دیگر اشیا پر بھاری سیلز ٹیکس کے ساتھ ڈیزل اور پیٹرول پر پیٹرولیم لیوی کا نشانہ بنتے ہیں۔ متعدد دیگر لیویز کے علاوہ انہیں پولیس، پٹوار (لینڈ ریونیو حکام) اور زمینداروں کی جانب سے بدسلوکی کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔ متعدد انکوائری رپورٹس اس بات کی تصدیق کرتی ہیں کہ شوگر بیرن (sugar barons) کسانوں کو ان کے پیدا کردہ گنے کا مناسب معاوضہ فراہم نہیں کرتے۔

ایک سابق وفاقی سیکرٹری کے 6 فروری 2020 کے مضمون کے مطابق؛ "یہ (زرعی) شعبہ معیشت کا تقریباً پانچواں حصہ (18.9 فیصد) ہے اور سالانہ 60 بلین ڈالر یا 9 ٹریلین روپے مالیت کی مجموعی آمدنی پیدا کرتا ہے۔۔۔" ایف بی آر کی ٹیکس اخراجات کی رپورٹ 2020 نے انکشاف کیا ہے کہ ٹیکس سال 2018 میں کارپوریٹ سیکٹر کی طرف سے 'زرعی آمدنی' سے ادا کردہ مستثنیٰ ڈیویڈنڈ 43 ارب روپے تھا۔ ٹیکس سال 2018 میں زرعی انکم ٹیکس کی صوبائی وصولی 1598 ملین روپے تھی۔ پاکستان بیورو آف سٹیٹسٹکس کی زرعی مردم شماری 2010 کی بنیاد پر رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے؛ "اگر فارم کے سائز کی چھ اقسام کے لیے فی فارم اوسط آمدنی پر قانونی سلیب کے حساب سے ٹیکس کی شرحیں لاگو کی جاتی ہیں، تو اس استثنیٰ کی وجہ سے ضائع ہونے والی تخمینی آمدنی 69.5 بلین روپے سالانہ کا اضافہ ہوتا"۔ واضح رہے کہ 7.5 ایکڑ سے چھوٹے فارمز کو ٹیکس سے خارج کر دیا گیا تھا اور فی ایکڑ کی بنیاد پر 50,000 روپے آمدنی فرض کی گئی تھی۔

چاروں صوبوں نے آئین کے مطابق زرعی انکم ٹیکس لگانے اور امیر طبقے پر وراثتی ٹیکس (اسٹیٹ ڈیوٹی)، گفٹ ٹیکس، ویلتھ ٹیکس اور کیپیٹل گین ٹیکس جیسے پروگریسو ٹیکس لگانے کے بجائے، مجموعی طور پر 2 بلین روپے بھی وصول نہیں کیے۔ ساتویں قومی مالیاتی کمیشن (این ایف سی) ایوارڈ کے تحت وفاقی حکومت سے مالی سال 2023-24 میں 7242 ارب روپے صوبوں نے وصول کیے۔ اپنے طور پر انہوں نے صرف 816 بلین جس میں ٹیکس محصولات 650 ارب روپے تھے، کی معمولی رقم جمع کی۔ مجموعی ٹیکس وصولیوں میں زرعی انکم ٹیکس کے تحت وصولی محض 0.3 فیصد تھی۔

مندرجہ بالا حقائق اس بات پر روشنی ڈالتے ہیں کہ اصل مسئلہ اٹھارویں آئینی ترمیم یا این ایف سی ایوارڈ کا نہیں ہے بلکہ ریونیو سسٹم کی اصلاح میں ناکامی، ایف بی آر کی غیر فعال حالت اور غیر فعال صوبائی ٹیکس ایجنسیوں، ٹیکسوں میں چھوٹ کا ہے اور دولت مند ٹیکس چوروں اور ان ریاستی چوروں کو معافی دینا، جنہوں نے بے رحمی سے قوم کی دولت کو بے دریغ لوٹا ہے۔

چاروں صوبے امیروں اور طاقتوروں پر ٹیکس لگانے میں کم دلچسپی رکھتے ہیں۔ مثال کے طور پر سندھ میں سب سے زیادہ ٹیکس وصولی خدمات پر سیلز ٹیکس سے ہے، جو کہ رجعت پسندانہ نوعیت کا ہے، لیکن زمینوں پر مقروض بڑے پیروں سے زرعی انکم ٹیکس وصول کرنے میں ہچکچاتے ہیں۔ یہی طرز پنجاب اور خیبرپختونخوا میں ہے جہاں اسمبلیوں میں غیر حاضر زمینداروں کا غلبہ ہے۔ آئین کے مطابق 'زرعی آمدنی' پر انکم ٹیکس وصول کرنے میں ناکامی کی وجہ سے ریونیو میں نمایاں نقصان ہوا ہے۔ بلوچستان کو اس سے بھی بدتر صورت حال کا سامنا ہے۔ کسی بھی مالی سال کے دوران 50 لاکھ روپے سے زیادہ کی زرعی آمدنی پر کوئی ٹیکس وصول نہیں کیا گیا۔ آئین کے مطابق زرعی انکم ٹیکس لگانے کے لیے تمام صوبوں میں سیاسی جھکاؤ کی واضح کمی ہے، یہ حق ان کو آزادی کے بعد سے حاصل ہے اور اٹھارویں ترمیم سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔

وفاقی بجٹ میں کبھی بھی آئی سی ٹی میں زرعی انکم ٹیکس کا کوئی اعداد و شمار نہیں دکھایا گیا کیونکہ اگرچہ آئین کے مطابق قومی اسمبلی کو یہ ٹیکس لگانے کا خصوصی اختیار حاصل ہے لیکن اس نے اس حق کو کبھی استعمال نہیں کیا۔ ہمارے کسی وزیر اعظم یا وزیر خزانہ نے وفاقی وسائل میں اضافے کے لیے اس کے نفاذ کا کبھی ذکر تک نہیں کیا۔ ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف نے اپنی کسی رپورٹ یا سٹڈی میں اس کوتاہی کا ذکر نہیں کیا۔ یہاں تک کہ IMF کی تازہ ترین پریس ریلیز نمبر 24/273، 12 جولائی 2024 بھی اس معاملے پر خاموش ہے۔

'زرعی آمدنی' پر مناسب ٹیکس لگانے کا ایک قابل عمل حل یہ ہے کہ اسے وفاقی حکومت کو منتقل کیا جائے اور صوبوں کو اشیا پر سیلز ٹیکس کے ان کے آزادی سے پہلے کے حق کو بحال کیا جائے، جسے پہلے فوجی آمر نے ڈھٹائی سے چھین لیا تھا اور ساتھ ہی ایک وفاقی ڈھانچے کا نفاذ ہے اور ٹیکس قوانین کے مؤثر نفاذ کے لیے مؤثر ٹیکس انتظامیہ کا۔

مضمون نگار وکالت کے شعبے سے وابستہ ہیں اور متعدد کتابوں کے مصنف ہیں۔ وہ لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز (LUMS) میں ایڈجنکٹ فیکلٹی، ممبر ایڈوائزری بورڈ اور پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس (PIDE) کے سینیئر وزٹنگ فیلو ہیں۔