Get Alerts

ٹیکس قوانین (ترمیمی) بل 2024 کی غیرآئینی شقوں کو ختم کرنا ہو گا

یہ ترامیم  اگر سینیٹ سے تجاویز کے بعد بھی قومی اسمبلی میں منی بل (Money Bill) کے طور پر منظور کر لی گئیں تو اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین کے آرٹیکلز 9،4، 8 ، 14، 18، 23، 25 کے تحت ان کی آئینی حیثیت پر سنگین سوالات اُٹھائے جائیں گئے

ٹیکس قوانین (ترمیمی) بل 2024 کی غیرآئینی شقوں کو ختم کرنا ہو گا

حکومت نے قومی اسمبلی میں ایک بل پیش کیا جس میں ”نااہل افراد“ کی جانب سے گاڑیوں، جائیدادوں کی خریداری اور بینک اکاؤنٹس کھولنے پر پابندی عائد کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔ تاہم، اس نے اہل افراد کے نان فائلر خاندان کے افراد کو اس طرح کے لین دین کرنے کی اجازت دینے کی تجویز پیش کی۔ ایک ممکنہ متنازع اقدام میں، حکومت نے ٹیکس دہندگان کے خفیہ ڈیٹا کو کمرشل بینکوں اور نجی طور پر رکھے گئے ٹیکس آڈیٹرز کے ساتھ شیئر کرنے کے لیے پارلیمنٹ سے منظوری بھی مانگی ہے۔ ٹیکس قوانین) ترمیمی( بل 2024، پرائیویٹ آڈیٹرز کو انکم ٹیکس قوانین کے تحت دستیاب تمام اختیارات فراہم کرتا ہے۔ وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے پارلیمنٹ کے ایوان زیریں میں بل پیش کیا جس میں بینک اکاؤنٹس کو منجمد کرنے اور سیلز ٹیکس غیر رجسٹرڈ افراد کے کاروبار اور جائیدادوں کو ضبط کرنے کے اختیارات بھی مانگے گئے ہیں ۔ حکومت ٹیکس چوروں کے گرد گھیرا تنگ کر رہی ہے، ایکسپریس ٹریبیون، دسمبر 19، 2024واجب الادا ٹیکس کی وصولی نہ کرنا اتنا ہی نا پسندیدہ عمل ہے، جتنا واجب الادا نہ ہونے کی وصولی۔ جسٹس نسیم سکندر، CIT کمپنیز، لاہور بمقابلہ اسٹیٹ سیمنٹ آف کارپوریشن (پرائیویٹ) لمیٹڈ، لاہور 2002 PTD 1603وفاقی وزیر برائے خزانہ اور محصولات محمد اورنگزیب نے 18 دسمبر 2024 کو قومی اسمبلی میں ٹیکس قوانین (ترمیمی) بل 2024، پیش کیا، جس میں انکم ٹیکس آرڈیننس، 2001 اور سیلز ٹیکس ایکٹ، 1990 میں کچھ آئینی ترامیم کی تجاویز دی گئی ہیں، جن کے استعمال سے پاکستان میں ٹیکس گوشوارے جمع نہ کروانے یا سیلز ٹیکس میں رجسٹر نہ ہونے یہ ماہانہ سٹیٹمنٹ داخل نہ کرنے کی صورت میں، جائیداد کے حصول اور تصرف کے حق ،تجارت اور کاروبار کرنے کی آزادی پر پابندیاں عائد کی جا سکیں گی۔ اس کے علاوہ بنیادی اور نا قابل تنسیخ  ”حق زندگی“ پر بھی بہت سی قد غنوں کی اجازت ہو گی ۔

 یہ ترامیم  اگر سینیٹ سے تجاویز کے بعد بھی قومی اسمبلی میں منی بل (Money Bill) کے طور پر منظور کر لی گئیں تو اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین کے آرٹیکلز 9،4، 8 ، 14، 18، 23، 25 کے تحت ان کی آئینی حیثیت پر سنگین سوالات اُٹھائے جائیں گئے ۔

یہ بات قابل ذکر ہے کہ اسی طرح کی شرط، فنانس ایکٹ، 2018 میں بھی عائد کی گئی تھی، جس کے تحت ریذیڈنٹ اور نان ریذ یڈنٹ (resident & non-resident) ”نان فائلرز کو “5 ملین روپے سے زیادہ کی غیر منقولہ جائیداد خریدنے کے حق سے محروم کیا گیا تھا ۔  اس قانون کو بعد میں واپس لے لیا گیا، کیونکہ یہ کاروبار مخالف اور غیر آئینی تھا۔

2018 کی قومی اسمبلی نے فنانس بل 2018 کو ربڑ سٹیمپ کے طور پر منظور کیا اور ہمیشہ کی طرح یہ بھی دیکھنے کی زحمت تک گوارا نہیں کی کہ آیا ایسی شرط جو آئین کے آرٹیکل 4، 23 اور 25 کی براہ راست خلاف ورزی کر رہی ہو کو کس طرح عائد کیا جا سکتا تھا۔ ایک مرتبہ پھر پاکستان مسلم لیگ (ن) کی مخلوط حکومت (حمایت شدہ بہتر لفظ ہو گا ) نے پھر سے ماضی کی غلطی کو دہرایا ہے۔اس مرتبہ سینیٹ اور قومی اسمبلی میں دوسری حمایتی سیاسی جماعتوں، خاص طور پر پاکستان پیپلز پارٹی، کی تائید حاصل کرنا مشکل ہو سکتا ہے۔

 سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کا اجلاس سینیٹر سلیم مانڈوی والا کی زیر صدارت ٹیکس قوانین (ترمیمی) بل 2024 پر غور کرنے کے لئے 23 دسمبر 2024 کو ہوا ، جس میں پاکستان پیپلزپارٹی ، مسلم لیگ ن ، ایم کیو ایم پاکستان اور دیگر جماعتوں کا کوئی رکن شریک نہیں ہوا۔ سینیٹر شبلی فراز نے مطالبہ کیا کہ ارکان کمیٹی کی عدم شرکت سے کورم پورا نہیں، لہذا اجلاس مؤخر کیا جائے۔

فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے چیئرمین راشد محمود لنگڑیال نے ٹیکس قوانین ترمیمی بل پر بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ فعال ٹیکس گزار نہ ہونے کی صورت میں کاروبار سیل کیا جائیگا اور منقولہ جائیداد قبضے میں لی جائیگی۔ انہوں نے کہا کہ ٹیکس قوانین ترمیمی بل میں کوئی نیا ٹیکس نہیں ہے، صرف نان فائلنگ ( filing۔ non) اور انڈر فائلنگ (filing ۔under) کو ٹھیک کررہے ہیں ، انکم ڈیکلیئریشن اور اخراجات میں فرق بہت زیادہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ زیادہ تر کاروبار غیر رجسٹرڈ ہیں یا کم ٹیکس ادا کرتے ہیں، سیلز ٹیکس رجسٹریشن میں ٹیکنالوجی کا استعمال بڑھایا گیا ہے۔ چیئرمین ایف بی آر کا کہنا تھا کہ نئی تجاویز سے 95 فیصد لوگ متاثر نہیں ہوں گے، ترامیم سے ٹیکس ٹو جی ڈی پی شرح پانچ سال میں 18 فیصد تک جائے گی۔ان کو پاکستان میں ٹیکس ادا کرنے والے تمام افراد کی تعداد کے اندازہ ہی نہیں ہے۔
سینیٹر سلیم مانڈوی والا کا کہنا تھا کہ کاروباری افراد سیلز ٹیکس رجسٹریشن سے خوف زدہ ہیں، کاروباری افراد کو سیلز ٹیکس رجسٹریشن بارے کوئی علم نہیں ۔ وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا کہ ایف بی آر کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے گا  اور ادارے سے جون میں کارکردگی بارے پوچھا جائے گا جب کہ اس بل پر کاروباری افراد سے مشاورت کی گئی ہے۔

سینیٹر شبلی فراز نے کہا کہ عوام چاہتے ہیں جو ٹیکس جمع ہو ان کی بھلائی پر لگے، ٹیکس وصولی کے لیے شکنجہ تنگ، فون بند کردیں گے، اکاونٹ بندکردیں گے جیسی زبان درست نہیں ہے، عوام اور حکومت میں اعتماد کا فقدان ہے، ٹیکس لینےکے لیے اقدامات کیے جاتے ہیں ، پکڑ دھکڑ کی باتیں درست نہیں ہیں۔

وزیر خزانہ نے کہا کہ ٹیکس اتھارٹی اور ٹیکس دہندگان کے درمیان اعتماد بحال کریں گے، کرپشن کا خاتمہ یقینی بنانا ہے، ایف بی آر کی تنظیم نو کی جا رہی ہے۔ انہوں ہے مزید کہا کہ جو لوگ ٹیکس ادا نہیں کررہے، انہیں ٹیکس نیٹ میں لارہے ہیں، ہر شخص کو معیشت میں اپنا کردار ادا کرنا ہوگا، ٹیکس ٹو جی ڈی پی کی شرح 10.3 فیصد ہے جو آئندہ 3 سال میں 13.5 فیصد پر لے جائیں گے۔

 وزیرخزانہ کا کہنا تھا کہ ”حکومت کا سائز کم اورایف بی آر پالیسی یونٹ کو الگ کیا جائے گا ،ہمارے ہمسایہ ملک میں ٹیکس ٹو جی ڈی پی کی شرح 18.5 فیصد ہے، بطور ملک ہمارے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں“۔

بعد ازاں سینیٹ کی قائمہ کمیٹی خزانہ کااجلاس ملتوی کردیا گیا، آئندہ اجلاس میں ٹیکس قوانین (ترمیمی) بل 2024 پر دوبارہ غور ہوگا۔

یہ مسلمہ قائم شدہ قانون ہے کہ مقننہ، چاہے قانون بنانے کا اختیار اور قانون سازی کی اہلیت رکھتی ہو، اسے یہ حق استعمال کرتے ہو ئے شہریوں کے کسی بھی بنیادی حق، جس کی آئین کے تحت ضمانت دی گئی ہے، یا آئین کی کسی بھی شق کی خلاف ورزی نہیں کرنی چاہیے ۔یہ اس بات کی یادہانی ہے کہ پاکستان میں بالادستی آئین کی ہے نہ کہ کسی بھی ادارے کی ۔ پارلیمان ( مقننہ) کا بنایا ہوا کوئی بھی قانون بنیادی حقوق سے متصادم ہونے کی صورت میں، اس حد تک آئین کے خلاف ہو گا، جس کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہو گی، اس کو اول روز یعنی نفاذ کے وقت سے ہی، معطل قرار سمجھا جائے گا ، یہاں تک کہ اس کے مطابق کیے گئے تمام عمل بھی غیر قانونی اور غیر مؤثر سمجھے جائیں گے۔
ٹیکس قوانین (ترمیمی) بل، 2024 کے ساتھ منسلک ” مقصد اور وجوہات کا بیان“ درج ذیل ہے:۔
”اس بل کا مقصد ٹیکس قوانین کی موثر تعمیل کے لیے تجاویز کو عملی جامہ پہنانا اور اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ  ٹیکسز آمدنی اور کھپت کی سطح کے مطابق ادا کیے جائیں، اور کاروبار کی ویلیو چین (value chain) کو مکمل کرنا اور معاشی ترقی کے لیے مالی وسائل پیدا کرنا، جیسا کہ وفاقی حکومت کی طرف سے تجویز کیا گیا ہے“۔ 
یہ بیان ٹیکس کی بہتر تعمیل اور ٹیکس کی بنیاد کو وسیع کرنے کے لیے بظاہر پر کشش ہے ۔ تاہم، بل میں شامل کچھ دفعات کا مطالعہ ظاہر کرتا ہے کہ یہ آئین میں درج بنیادی حقوق کی صریح خلاف ورزی ہیں۔ بدقسمتی سے، بل کو قومی اسمبلی میں پیش کرنے سے پہلے عوامی بحث کے لیے دستیاب نہیں کیا گیا اور نہ ہی ٹیکس کی نمایندہ تنظیموں اور آئینی قانون کے شعبے کے ماہرین سے رائے حاصل کرنے کی کوئی کوشش کی گئی۔ امید ہے کہ قومی اسمبلی کے اراکین اس منی بل کی منظوری سے قبل درج ذیل باتوں پر غور کریں گے:۔
·       سیلز ٹیکس ایکٹ، 1990 میں نئی تجویز کردہ دفعہ AC14اور AD14 "کسی بھی شخص کے ضمن میں جو رجسٹرڈ ہونے میں ناکام رہتا ہے" کے سلسلے میں کمشنر آف ان لینڈ ریونیو کو بااختیار بناتا ہے۔
”براہ راست بینکنگ کمپنیوں، شیڈول بینکوں اور دیگر مالیاتی اداروں کو، تحریری حکم کے ذریعے، بینک اکاؤنٹ کے آپریشن کو روکنے کے لیے“ اور 
  ”غیر منقولہ جائیداد کی منتقلی کو روکنے کے لیے تحریری حکم کے ذریعے جائیداد کی رجسٹریشن اتھارٹی کو ہدایت کریں“۔
ایسے شخص کے خلاف تجویز کردہ دیگر جبر ی اقدامات یہ ہو سکتے ہیں:۔
(a)      کاروباری جگہ کو سیل کرنا
(b)      منقولہ جائیداد پر قبضہ کرنا، یا
(c)      کسی شخص کی قابل ٹیکس سرگرمی کے انتظام کے لیے ایک وصول کنندہ مقرر کریں۔
پوری دنیا میں سیلز ٹیکس،VAT کے قوانین قابل ٹیکس ہونے کی صورت میں لازمی رجسٹریشن فراہم کرتے ہیں، اگر کوئی قابل ٹیکس فرد رضاکارانہ طور پر ایسا کرنے میں ناکام ہو جاتا ہے تو جرمانہ اور جان بوجھ کر ڈیفالٹ کے لیے قانون کے مطابق سزا بھی ہو سکتی ہے اور یہ سب سیلز ٹیکس ایکٹ،1990 میں بھی درج ہے ۔ اس سب کی موجودگی میں ایف بی آر کے ارباب اختیار اور خود ساختہ دانشور کاروباری سرگرمیوں کو روکنے اور لوگوں کی جائیدادوں کو منجمد، ضبط کرنے کے لیے سخت قوانین اور تباہ کن اختیارات کیوں چاہتے ہیں؟ 
اس بات کا فیصلہ کون کرے گا کہ کون شخص قابل ٹیکس ہے یا نہیں ؟ قانون میں قابل ٹیکس کی جو حد مقرر ہے اگر اس کے باوجود جائید کو ضبط کیا گیا یا بنک اکاؤنٹ منجمد ہوا تو ملازمین اور اہل خانہ کو سزا کا ازالہ کیسے ہو گا ۔ کوئی قابل ٹیکس شخص بھی قانون کی خلاف ورزی کرے تو بینک اکاؤنٹ منجمد ہونے پر ملازمین کو تنخواہ کیا کمشنر ادا کرے گا؟ 
 مذکورہ بالا انتہائی تباہ کن اقدامات کے خلاف تجویز کردہ علاج بھی محکمانہ حکام سے رجوع کرنا ہے ، جو کہ آئین کے آرٹیکل اے10 کی سراسر خلاف ورزی ہے۔
انکم ٹیکس آرڈیننس، 2001 میں تجویز کردہ نیا سیکشن C114، ”نااہل شخص“کے معاملے میں اس سیکشن کے مقصد کے لیے بیان کردہ وہ ہے جو ”اہل شخص“ نہیں ہے،مندرجہ ذیل پابندیاں لگاتا ہے۔
1:۔    کسی موٹر گاڑی کی بکنگ، خریداری یا رجسٹریشن حاصل نہیں کر سکتا ، ما سوائے رکشہ، موٹرسائیکل رکشہ یا ٹریکٹر، 800 سی سی تک انجن کی گنجائش والی پک اپ گاڑی اور ٹرک اور بسیں ، بورڈ کی طرف سے وقتا فوقتا مطلع کردہ پابندیوں اور حدود سے مشروط کے مطابق۔
2:۔   کسی بھی غیر منقولہ جائیداد کی رجسٹریشن، ریکارڈنگ یا منتقلی کی تصدیق کے لیے ذمہ دار کسی بھی اتھارٹی سے کوئی درخواست نہیں کر سکتا ، اس قدر مجموعی مالیت سے زیادہ جو کسی ٹیکس سال میں ایف بی آر کی طرف سے وقتاً فوقتاً مطلع کی جائے گی ۔ 
3:۔ سیکیورٹیز، میوچل فنڈز وغیرہ کی فروخت کے لیے اکاؤنٹ نہیں کھول سکتا ۔
4:۔پہلے سے کھلا کرنٹ یا سیونگ بینک یا انویسٹر پورٹ فولیو سیکیورٹیز اکاؤنٹ کھولنے یا برقرار ، رکھنے پر پابندی، سوائے آسان اکاؤنٹ کے۔
5:۔کسی بھی شخص کے کسی بھی بینک اکاؤنٹس سے نقد رقم نکلوانے پر پابندی ، اس رقم سے زیادہ جو کہ ایف بی آر کی طرف سے وقتاً فوقتاً مقرر کی جائے گی۔
”اہل شخص“ کی تعریف ”ایک ایسا شخص ہے، جس نے لین دین کے سال سے فوراً پہلے ٹیکس سال کے لیے آمدنی کا گوشوارہ جمع کرایا ہو“، اور اس کے پاس اس طرح کے لین دین کے لیے جس کا اوپر ذکر کیا گیا ہے ” فرد کے لئے ویلتھ اسٹیٹمنٹ یا کسی کمپنی یا افراد کی انجمن کے معاملے میں مالی سٹیٹمنٹ میں ، جیسا کہ معاملہ ہو، کافی وسائل بھی ہونے چاہئیں“۔ 
جہاں تک ایک فرد کا تعلق ہے،”اہل شخص“ میں اس کے قریبی خاندان کے افراد شامل ہوں گے جو کہ والدین، شریک حیات، بیٹا (پچیس سال سے کم عمر)، بیٹی (جو غیر شادی شدہ، بیوہ، یا طلاق یافتہ ہے) یا کوئی خصوصی بچہ جس میں طویل مدتی جسمانی، ذہنی، فکری یا حسی خرابی ہے جو مختلف رکاوٹوں کے ساتھ تعامل میں اس کی دوسروں کے ساتھ برابری کی بنیاد پر معاشرہ میں مکمل اور موثر شرکت میں رکاوٹ بن سکتی ہے۔ 
ایک خبر  کے مطابق اس بل کا تصور ”ایف بی آر کے چیئرمین راشد لنگڑیال نے لوگوں سے واجب الادا ٹیکس وصول کرنے کے لیے بنایا ہے، چاہے وہ فائلرز ہوں یا نان فائلرز ۔ ایک ”اہل شخص“ کو نقدی کی قیمت کے 130 فیصد تک اثاثے کی خریداری کرنے کی اجازت دی گئی جو کہ آخری ٹیکس ریٹرن اور ویلتھ اسٹیٹمنٹ میں ظاہر کیے گئے ہیں“۔ اس میں مزید کہا گیا ہے:۔” ماضی کے اعلان کے برعکس، حکومت نے قانون سے نان فائلر کیٹیگری کو ختم نہیں کیا ہے اور نہ ہی اس نے انکم ٹیکس آرڈیننس (ITO) کے 10ویں شیڈول کو حذف کیا ہے جو نان فائلرز کے لیے زیادہ شرحیں رکھتا ہے۔ اس کے بجائے، حکومت نے 'اہل شخص' کا ایک نیا زمرہ متعارف کرایا“۔
جیسا کہ اوپر سے ظاہر ہے، بل خود متضادی پر مبنی ہے۔ یہ نان فائلرز کے زمرے کو برقرار رکھنا چاہتا ہے جہاں سے زیادہ شرح پر ود ہولڈنگ ٹیکس وصول کیا جاتا ہے، پھر بھی وہ اس کو فائلر بھی بنانا چاہتا ہے! آسان طریقہ تمام بالغ افراد کے لئے لازمی انکم ٹیکس گوشوارہ داخل کروانے کی قانونی پابندی ہے ۔ موبائل صارفین جو پیشگی انکم ٹیکس ادا کر نے کے پابند ہیں ان کی مجموعی (bulk) رجسٹریشن ، ناپسندیدہ نان فائلر کیٹیگری کو ختم کر سکتی ہے ۔
 کینیڈا کی طرح تمام بالغ افراد کے لئے انکم ٹیکس گوشوارہ داخل کروانے کی قانونی پابندی سے ایف بی آر اپنے مقاصد حل کر سکتا ہے۔ ہر فرد کی مالی حثیت، پیشہ اور کاروبار کا data تو اب بھی ایف بی آر کو حاصل ہے۔اگر ایسا نہیں تمام بالغ افراد کے انکم ٹیکس گوشوارے اور ویلتھ سٹیٹمنٹ آنے کے بعد مختلف ادروں میں موجود database سے جانچ پڑتال کی جا سکتی ہے۔

تاہم، آسان ودہولڈنگ (withholding) کے نظام میں جکڑا ہوا ایف بی آر محنت نہیں کرنا چاہتا! بل میں تجویز کردہ کاروباری سرگرمیوں پر پابندیاں لگانے سے نہ صرف کاروباری ماحول اور کسی بھی نئی سرمایہ کاری، ملکی اور غیر ملکی ، کو شدید نقصان پہنچے گا، بلکہ یہ آئین کے آرٹیکل 18 کی بھی خلاف ورزی ہے، جس میں لکھا ہے۔
تجارت، کاروبار یا پیشے کی آزادی
ایسی شرائط قابلیت کے تابع، اگر کوئی ہوں، جو قانون کے ذریعے مقرر کی جائیں، ہر شہری کو کوئی جائز پیشہ یا مشغلہ اختیار کرنے اور کوئی جائز تجارت یا کاروبار کرنے کا حق ہو گا،مگر شرط یہ ہے کہ اس آرٹیکل میں کوئی امر مانع نہیں ہو گا۔
a             کسی تجارت یا پیشے کو اُجرت نامہ کے طریقہ کار کے ذریعے منضبط کرنے میں،یا
b             تجارت، کاروبار یا صنعت میں آزادانہ مقابلہ کے مفاد کے پیشِ نظر اسے منضبط کرنےمیں،یا
c             وفاقی حکومت یا کسی صوبائی حکومت یا کسی ایسی کارپوریشن کی طرف سے جو مذکورہ حکومت کے زیر نگرانی ہو، دیگر اشخاص کو قطعی یا جزوی طور پر خارج کر کے کسی تجارت، کاروبار، صنعت یا خدمت کا انتظام کرنے میں جائیداد پر لگائی گئی پابندیوں کے حوالے سے، آئین کا آرٹیکل 23 ناقابل تنسیخ بنیادی حق دیتا ہے جسے بل میں نظر انداز کیا گیا ہے۔ یہ کہتا ہے،”دستور اور مفاد عامہ کے پیش نظر قانون کے ذریعے عائد کردہ معقول پابندیوں کے تابع، ہر شہری کو جائیداد حاصل کرنے، قبضہ میں رکھنے اور فروخت کرنے کا حق ہو گا۔“
ایف بی آر جب کسی شہری کے موبائل یا بجلی اور گیس کے کنکشن کو منقطع کرنے کی بات کرتا ہے تو اس کو پاکستان کی سپریم کورٹ کے تاریخی فیصلے ، محترمہ شہلا ضیاء اور دیگر بمقابلہ واپڈا (PLD 1994 سپریم کورٹ 693)، کو ضرور مد نظر رکھنا چاہیے جو بین الاقوامی سطح پر سراہا گیا، اور بڑے پیمانے پر دوسرے ممالک کے فیصلوں میں نقل کیا گیا۔ موبائل، بجلی اور گیس اب ”حق زندگی“ کا حصہ ہیں اور آئین کے آرٹیکل 9 میں درج بنیادی حق کے طور پر ان کا دفاع ضروری ہے ، جو مناسب طور پر درج ذیل ہے:۔
”پاکستان کے آئین کا آرٹیکل 9، جس میں یہ شرط رکھی گئی ہے کہ کسی شخص کو، زندگی یا آزادی سے محروم نہیں کیا جائے گا سوائے جبکہ قانون اس کی اجازت دے۔لفظ ”زندگی“کو حیات اور موت تک محدود نہیں رکھا جا سکتا۔ اس کا ایک وسیع مفہوم دیا جائے جس میں مناسب خوراک، لباس، رہائش، تعلیم، صحت کی دیکھ بھال، صاف ستھری فضا اور غیر آلودہ ماحول شامل ہو سکتا ہے۔“
یہ شرط کہ ”نااہل شخص“ جائیداد نہیں خرید سکتا، نہ تو معقول ہے اور نہ ہی عوامی مفاد میں۔ ایک غیر مقیم شخص ، پاکستان میں ٹیکس کا ذمہ دار نہیں یا ٹیکس قابل آمدنی سے کم رہنے والے کو جائیداد حاصل کرنے کے لیے ریٹرن فائل کرنے پر مجبور کیوں کیا جانا چاہیے؟ کسی بھی صورت میں، ایف بی آر کو ود ہولڈنگ ٹیکس کے طریقہ کار کے ذریعے ایسی جائیدادوں کی خریداری کے بارے میں معلومات ملتی ہیں۔ کمشنر ریٹرن اور ویلتھ سٹیٹمنٹ فائل کرنے کے لیے نوٹس جاری کر سکتا ہے اگر خریدار ٹیکس کا ذمہ دار ہو اور خریداری کے وقت زیادہ ٹیکس ادا کیا ہو۔ آرٹیکل 23 میں درج اس کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کیسے ہو سکتی ہے؟
لاکھوں پاکستانی، قابل ٹیکس آمدنی نہیں کما رہے، ایڈوانس،ایڈجسٹ ایبل انکم ٹیکس ادا کرتے ہیں۔ انہیں انکم ٹیکس ریٹرن فائل کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ انہیں ریٹرن فائل کرنے پر مجبور کیوں کیا جا رہا ہے اور افسران اور ٹیکس مشیروں کے ہاتھوں استحصال کیا جا رہا ہے! یہ آئین کے آرٹیکل (c)4 کی صریح خلاف ورزی ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ ’’کسی شخص کو کوئی ایسا کام کرنے پر مجبور نہیں کیا جائے گا جس کا کرنا اس کے لئے قانوناً ضروری نہ ہو‘‘۔
بدنیتی پر مبنی پروپیگنڈہ مہم، ایک افسوسناک عمل ہےجو کہ لاکھوں پاکستانیوں کے خلاف جو موبائل،انٹرنیٹ صارفین کے طور پر ایڈوانس انکم ٹیکس ادا کرتے ہیں، اگرچہ ٹیکس کے ذمہ دار نہیں ہیں، اسے روکنا چاہیے۔ وہ قومی خزانے میں اربوں کا حصہ ڈال رہے ہیں حالانکہ قانون ان سے ایسا کرنے کا تقاضا نہیں کرتا۔ ان لوگوں کے معاملے میں جو قابل ٹیکس آمدنی نہیں کما رہے ہیں ،ودہولڈنگ کی دفعات غیر آئینی ہیں۔
ان کالموں میں، پچھلے کئی سالوں سے، بوسیدہ اور فرسودہ ٹیکس نظام میں بنیادی اصلاحات کے لیے ٹھوس، عملی اور قابل عمل اقدامات تجویز کیے گئے ہیں تاکہ معیشت کی تیز رفتار ترقی کو آسان بنایا جا سکے جس سے خود بخود زیادہ ٹیکس حاصل ہوں گے۔ ہمیں صرف اپنے نوجوانوں کو ہر سال 30 لاکھ سے زیادہ ملازمتیں فراہم کرنے کے لیے ایک دہائی کے لیے کم از کم 8 فیصد شرح نمو درکار ہے۔
اس ہدف کو حاصل کرنے کے لیے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے ریونیو اینڈ فنانس کے سامنے ایک جامع مطالعہ اور پریزینٹیشن کو اقتصادی منتظمین اور ایف بی آر کے ذمہ داروں نے جان بوجھ کر نظر انداز کیا ہے۔ یہاں تک کہ انہوں نے 2016 میں قائم کردہ ٹیکس ریفارمز کمیشن کی طرف سے دی گئی بہت سی مفید تجاویز اور PIDE اور PRIME کی مشترکہ تحقیق پر غور کرنے کی زحمت نہیں کی۔ وجہ یہ ہے کہ بیوروکریسی،ریونیو کریسی شہریوں پر غاصبانہ کنٹرول قائم کرنا چاہتی ہے، جو پیچیدہ ضابطوں اور بوجھل طریقہ کار سے ہی ممکن ہے۔ مندرجہ بالامطالعہ 34 کھرب روپے کی آمدنی جمع کرنے کا روڈ میپ صرف وفاقی سطح پر دیتا ہے،جو پاکستان کو خود انحصار بنا سکتا ہے۔ ظاہر ہے کہ مفاد پرست حکمران چاہتے ہیں کہ پاکستان قرضوں کی قید میں جکڑا رہے اور خود انحصاری کا حدف حاصل نہ کر سکے۔

مضمون نگار وکالت کے شعبے سے وابستہ ہیں اور متعدد کتابوں کے مصنف ہیں۔ وہ لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز (LUMS) میں ایڈجنکٹ فیکلٹی، ممبر ایڈوائزری بورڈ اور پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس (PIDE) کے سینیئر وزٹنگ فیلو ہیں۔