صدر مملکت نے قومی احتساب (ترمیمی) بل 2022ء بغیر دستخط کے واپس کر دیا۔
تفصیلات کے مطابق صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے الیکشن ترمیمی بل کے بعد اب قومی احتساب بیورو (نیب) ترمیمی بل بھی بغیر دستخط واپس کردیا۔ قومی اسمبلی اور سینیٹ سے منظوری کے بعد انہیں اس بل کو ایکٹ بنانے کے لیے وزارت پارلیمانی امور نے ارسال کیا تھا تاہم عارف علوی نے بل پر دستخط نہیں کیے۔
صدر مملکت نے کہا کہ دنیا بھر کے ممالک وائٹ کالر کرائم پر قابو پانے کی کوششیں کررہے ہیں، سیاسی عناصر کا کالا دھن جو کہ ٹیکس چوری، جرائم اور بدعنوانی کے دیگر ذرائع سے حاصل کیا جاتا ہے، کوئی ایسا نشان نہیں چھوڑتا کہ جس کا کھوج لگایا جا سکے، ایف اے ٹی ایف بھی ایک ایسی ہی مثال ہے جو کہ منی لانڈرنگ کی روک تھام کے لیے کئی دہائیوں سے کام کررہا ہے اس لیے ہمیں ایسے معاملات پر اسلامی فقہ سے بھی ہدایت لینی چاہیے۔
ڈاکٹر عارف علوی نے کہا کہ ملزم کو ذرائع آمدن کے بارے میں ثبوت پیش کرنا ہوتے ہیں کہ جائیداد یا دولت کہاں سے اور کیسے حاصل کی؟ دولت کی ملکیت ثابت کرنا استغاثہ کی جب کہ دولت کے ذرائع ثابت کرنا ملزم کی ذمہ داری ہے، نامعلوم ذرائع سے دولت کا حصول پاکستان میں ایک جرم تھا مگر ان ترامیم سے اس تصور کو کمزور کرکے اسے کافی حد تک غیر موثر بنا دیا گیا ہے۔
صدر مملکت نے کہا کہ اعلیٰ عدلیہ نے بھی اس عام تاثر کی عکاسی کرتے ہوئے کہا کہ بدقسمتی سے نیب آرڈیننس کے نفاذ میں خامیاں موجود ہیں، یہ قانون بھی دیگر قوانین کی طرح انتظامیہ کو اختیار دیتا ہے کہ اس کا استعمال طاقت ور عناصر کے سیاسی مفادات کے تحفظ کے لیے کیا جاسکے۔
انہوں نے کہا کہ ایک طرف جب عوام کی جانب سے لوٹی ہوئی دولت کی واپسی کا تقاضا کیا جاتا رہا تو دوسری طرف طویل عدالتی کاروائیوں اور غیر موثر استغاثہ نے بدعنوانی کو بے نقاب کرنا، روکنا اور ختم کرنا بہت مشکل بنا دیا، ہمیں گزشتہ چند دہائیوں کے تجربات کی روشنی میں ان قوانین میں موجود واضح سقم دور کرنے، انصاف کی فراہمی مؤثر بنانے کے لیے ترامیم لانی چاہیے تھی۔
صدر مملکت نے بل کو واپس ارسال کرتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ پارلیمنٹ سے منظور شدہ یہ بل رجعت پسندانہ نوعیت کا ہے جس سے قانون کے لمبے ہاتھوں کو مفلوج کرکے بدعنوانی کو فروغ حاصل ہوگا، نیب ترمیمی بل بدعنوان عناصر کے لیے واضح پیغام ہے کہ وہ کسی کو بھی جواب دہ نہیں اور بلاخوف و خطر اپنی لوٹ مار جاری رکھ سکتے ہیں۔
صدر مملکت نے کہا کہ کمزور آدمی معمولی جرائم میں بھی پکڑا جائے گا جب کہ بااثر بدعنوان عناصر کو قوم کا خون چوسنے کے مکروہ عمل کی کھلی آزادی مل جائے گی، احتساب کے عمل کو کمزور کرنا نہ صرف خلاف ِ آئین ہے بلکہ پہلے سے مسائل زدہ پاکستانی عوام کے بنیادی حقوق کےبھی خلاف ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں اس بات کی ہرگز توقع نہ تھی کہ پچھلی حکومتوں کی کاوشوں پر پانی پھیر دیا جائے گا اور احتساب کے عمل کو ناقابل یقین حد تک کمزور بنادیا جائے گا، یہ ایک افسوس ناک امر ہے کہ ادارے کے بنیادی ڈھانچے میں بہتر ی لانے کی بجائے بغیر کسی متبادل نظام کے احتساب کے عمل کو زمین بوس کر دیا گیا۔
صدر مملکت نے کہا کہ اس طرح کے کمزور قوانین انصاف کے لبادے میں بدعنوان اشرافیہ کے جرائم پر پردہ ڈالتے ہیں جو اقوام ایسے قوانین اپناتی ہیں وہ نہ صرف عام آدمی کے استحصال کا موجب بنتی ہیں بلکہ معاشرے میں ناانصافی کے فروغ کا بھی باعث بنتی ہیں، میں ذاتی طور پر پاکستان کے آئین کی تقلید اور پاس داری کرتا ہوں۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہمیں قرآن و سنت کے احکامات پر عمل کرنا چاہیے، میں خود کو اللہ تعالیٰ کے سامنے جواب دہ سمجھتا ہوں اور اس سے معافی کا طلب گار رہتا ہوں، میں اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہوں کہ صدر پاکستان کے بل پر دستخط نہ کرنے کے باوجود یہ بل قانون کی حیثیت اختیار کرلے گا لیکن میرا ضمیر مجھے احتساب ترمیمی بل پر دستخط کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔
واضح رہے کہ ابھی ایک روز قبل ہی صدر مملکت نے الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں اور اوورسیز پاکستانیوں کے ووٹنگ سے متعلق الیکشن ترمیمی بل بغیر دستخط واپس کردیا۔