Get Alerts

ایف بی آر کی استعداد کار پر بہت سے سوالیہ نشان ہیں

درحقیقت ایف بی آر کو انکم ٹیکس آرڈیننس 2001 کی دفعات کو پورے طور پر نافذ کرنا چاہیے، بغیر کسی ہچکچاہٹ کے تمام قابل ٹیکس آمدنی رکھنے والے افراد کو ٹیکس ریٹرن فائل کرنے کے لیے مجبور کرنا چاہیے یا ان کو باور کرانا چاہیے کہ وہ سزا کے لیے تیار رہیں۔

ایف بی آر کی استعداد کار پر بہت سے سوالیہ نشان ہیں

'پاکستان کی 90 فیصد آبادی ٹیکس ادا نہیں کرتی۔ ملک کے 43 ملین گھرانوں میں سے صرف 40 لاکھ رجسٹرڈ ٹیکس دہندگان ہیں۔۔۔ ریٹائرڈ افسران نے ٹیکس ریفنڈز کی کارروائی کے لیے رشوت لینے کا اعتراف کیا ہے۔۔۔ جائز معاملات میں، چھوٹی رشوتیں قبول کی جاتی ہیں، جبکہ جعلی رقم کی واپسی کے لیے بڑی رقوم کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔۔۔ ایسے تاجر اور صنعت کار بھی ہیں جو ٹیکس کا ایک روپیہ بھی نہیں بچاتے۔۔۔ فراڈ کرنے اور سیلز ٹیکس سے بچنے والوں کو جوابدہ ہونا چاہیے' — راشد محمود لنگڑیال، چیئرمین ایف بی آر، کراچی میں 16 اکتوبر 2024 کو صنعت و تجارت کے اعلیٰ ادارے سے خطاب کے دوران۔

نااہلی کا مسئلہ خود کو پہچاننے میں ناکامی ہے — اورین ووڈورڈ، L.I.F.E. عمدگی کے لیے جان بوجھ کر رہنا

فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے موجودہ چیئرمین نے گذشتہ کچھ دنوں میں مختلف ٹیلی وژن چینلز پر اور پاکستان کے معروف تاجروں سے خطاب کرتے ہوئے ایسے دعوے کیے ہیں جس سے اس بات کی تصدیق ہوتی ہے کہ انہیں پاکستان میں ٹیکس کی بنیاد اور نظام محصولات کے کاروبار اور عام زندگی پر اثرات کے بارے میں بہت کم اندازہ ہے۔ تاہم، انہوں نے بجا طور پر مشاہدہ کیا کہ کئی دہائیوں کے دوران، ایف بی آر نااہلی، بدعنوانی، بے ضابطگی اور بے حسی کا مظہر ثابت ہوا ہے۔ وفاقی سطح پر اعلیٰ ریونیو اتھارٹی تمام محاذوں پر ناکام ہو چکی ہے: وصولی کے اہداف، ٹیکس کی بنیاد کو وسیع کرنا، ٹیکس چوری اور اجتناب کا انسداد، بقایا جات کی وصولی، رضاکارانہ تعمیل، اصلاحات کا عمل اور کیا نہیں۔

محترم چیئرمین ایف بی آر نے راقم کو ایک برقی پیغام اور پھر ٹیلی فونک گفتگو میں وضاحت بیان کی کہ اِسی موضوع پر اپنے انگریزی کے مضمون میں ان سے منسوب اخباری بیانات کی تصدیق ہونی چاہیے تھی، کیونکہ ان کو اس بارے میں شدید تحفظات ہیں۔ ان کو گوش گزار کروایا کہ اگر ان سے کوئی بات غلط طور پر منسوب کی گئی تھی تو اس کی تردید سرکاری سطح پر ایف بی آر کی ویب سائٹ پر پریس ریلیز کی شکل میں کی جا سکتی تھی۔ تا حال کوئی تردید نہیں کی گئی۔

محترم راشد محمود لنگڑیال کسی بھی وقت اصل حقائق پیش کر سکتے ہیں اور میڈیا سے درستگی کا مطالبہ بھی۔ علمی مباحث میں ذاتیات کا ہرگز دخل نہیں ہونا چاہیے۔ وہ تن دہی سے اصلاحات کے لئے کوشش کر رہے ہیں، جو قابل ستائش ہے، مگر اس ضمن میں ان کو اپنے اردگرد خوشامدی سرکاری ٹولے سے ہوشیار رہنا ہو گا، جو ان کو غلط معلومات فراہم کر رہا ہے۔

یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ ایف بی آر نے ٹیکس ایڈمنسٹریٹو ریفارمز پروگرام (TARP) کے تحت کروڑوں ڈالر کے ادھار فنڈز کو بے رحمی سے ضائع کیا لیکن کم از کم 20 ملین ممکنہ ٹیکس دہندگان کو رضاکارانہ طور پر ٹیکس ڈیکلریشن فائل کرنے پر آمادہ یا مجبور نہیں کر سکا۔

راشد محمود لنگڑیال کے مطابق پاکستان میں کل رجسٹرڈ ٹیکس دہندگان کی تعداد صرف 40 لاکھ ہے۔ اپنے خطاب میں انہوں نے الزام لگایا کہ 'پاکستان کی 90 فیصد آبادی ٹیکس ادا نہیں کرتی'۔ یہ بیان ان حقائق کے خلاف ہے جو ان کالموں میں بار ہا اجاگر کیے گئے ہیں۔

اس پر ایک حالیہ مضمون میں روشنی ڈالی گئی تھی: "۔۔۔ مالی سال 2022-23 کے دوران 120 ملین منفرد موبائل/براڈبینڈ صارفین نے ایڈوانس/ایڈجسٹ ایبل انکم ٹیکس ادا کیا، جس میں سے 100 ملین کی کوئی آمدنی نہیں تھی یا قابل ٹیکس حد سے کم تھی! ایف بی آر تمام قابل ٹیکس افراد کو رجسٹر کرنے میں ناکام رہا۔ مالی سال 2022-23 کے دستیاب ڈیٹا کی بنیاد پر، جس میں ان کے ہینڈ سیٹس کی مالیت، سفری تاریخ اور بلوں کی مقدار وغیرہ شامل ہیں، ان کی تعداد 20 ملین سے کم نہیں ہو سکتی۔ ان تمام کو ٹیکس فائلرز بنا کر 'نان فائلرز' کے خود ساختہ زمرے کو ختم کیا جا سکتا تھا! اس طرح، پوری قابل ٹیکس آبادی کی رجسٹریشن اور انہیں ریٹرن فائلرز بنانے سے، درحقیقت، ایف بی آر کی جانب سے جان بوجھ کر گریز کیا گیا تاکہ غریب ترین موبائل صارفین، جن کی کوئی قابل ٹیکس آمدنی نہیں ہے، سے 75 فیصد جابرانہ ایڈوانس انکم ٹیکس وصول کرنے کے جواز کو برقرار رکھا جا سکے۔

ایف بی آر اس حقیقت سے انکار نہیں کر سکتا کہ یکم جولائی 2024 سے پوری قابل ٹیکس آبادی بطورموبائل/براڈ بینڈ صارفین (پری پیڈ یا پوسٹ پیڈ) اور یہاں تک کہ جن کی کوئی آمدنی نہیں یا قابل ٹیکس حد سے کم ہے بھی ایڈوانس اور ایڈجسٹ ایبل 15 فیصد انکم ٹیکس بطور فائلرز اور 75 فیصد نان فائلرز کے طور پر ادا کر رہے ہیں۔۔ اس ناقابل تردید حقائق پر مبنی مؤقف کے پیش نظر، ایف بی آر اور ان کے ہمنوا کس منطق کے تحت پاکستانیوں کو ٹیکس چور اور دھوکے باز قرار دے رہے ہیں!"

ایف بی آر کی طرف سے انتہائی محدود ٹیکس بنیاد اور عام عوام کو ٹیکس چور قرار دینے کا مسلسل منفی اور بدنیتی پر مبنی پروپیگنڈہ، اور بعض اداروں کی طرف سے میڈیا مہم، غیر ملکی حکومتوں اور غیر سرکاری تنظیموں (این جی اوز) کی طرف سے فنڈنگ کہ پاکستانی آبادی کا صرف 1 فیصد انکم ٹیکس ادا کرتا ہے، انتہائی افسوس ناک ہے۔ ظاہر ہے، وہ جان بوجھ کر 'ادائیگی کرنے والوں' اور ' گوشوارے داخل ' کرنے والوں کے درمیان فرق کو نظرانداز کر دیتے ہیں۔

چیئرمین ایف بی آر اس بات کو اجاگر کرنے میں ناکام رہے کہ گوشوارہ نادہندگان کی اکثریت امیر اور طاقتور طبقات سے تعلق رکھتی ہے، جس میں 50 فیصد قابل ٹیکس آمدنی والے سرکاری ملازمین (بشمول ایف بی آر کے افسران) اور پارلیمنٹ کے سینکڑوں منتخب اراکین شامل ہیں۔

ایف بی آر ناصرف اصل ٹیکس صلاحیت کو حاصل کرنے میں ناکام رہا ہے جو 34 ٹریلین روپے ہے (جی ڈی پی کا 17 فیصد، اگر غیر رسمی معیشت کو بھی شامل کیا جائے)، لیکن ٹیکس کا بوجھ امیروں سے معاشرے کے غریب طبقات پر منتقل کرنے کا بھی قصوروار ہے۔ ہر سال مالیاتی بل ایف بی آر میں ہی تیار کیا جاتا ہے اور اس بات کا پورا اہتمام کیا جاتا ہے کہ ٹیکس نوکر شاہی (Revenuecracy) کی مدد سے حکمران ریاستی اشرافیہ کے مفادات کا تحفظ یقینی بنایا جائے۔ ٹیکس نوکر شاہی عوام کے محصولات سے تنخواہ اور مراعات تو حاصل کرتی ہے مگر خدمت ناقابل تسخیر ملیٹرو-جوڈیشل-سول کمپلیکس ( complex militro-judicial-civil)، کرپٹ سیاست دانوں اور لالچی تاجروں کی بجا لاتی ہے۔

موجودہ ٹیکس نظام کا منظرنامہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ پاکستانیوں کی ایک بڑی اکثریت ماخذ (source) پر انکم ٹیکس ادا کر رہی ہے اور بعض صورتوں میں کٹوتی ذمہ داری کی مکمل ادائیگی ہے (مثال کے طور پر بینکوں سے سود کی آمدنی پر 15 فیصد ٹیکس کٹوتی ہوتی ہے اور گوشوارہ نا جمع کروانے پر شرح 30 فیصد ہے)۔ ایکٹو ٹیکس دہندگان کی فہرست (ATL) میں شامل نہ ہونے والے افراد تاہم، اگر کسی کے پاس آمدنی کا صرف یہی ذریعہ 50 لاکھ روپے تک ہے، تو صرف باقاعدہ ریٹرن فائل کر کے 15 فیصد کی واپسی کا دعویٰ کر سکتے ہیں۔

قابل قدر وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب اور چیئرمین ایف بی آر کو ابھی تک یہ بات سمجھ نہیں آئی کہ لوگ ایسے معاملات میں انکم ٹیکس ریٹرن فائل کرنے سے کیوں ہچکچاتے ہیں جبکہ وہ 50 فیصد اضافی ٹیکس کٹوتی کی واپسی کا باآسانی دعویٰ کر سکتے ہیں! حال ہی میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں اس کی تفصیل سے وضاحت کی گئی ہے کہ وہ ایسا کیوں نہیں کرتے ہیں۔ امید ہے کہ وہ اسے پڑھ کر پاکستان میں 'ٹیکس کی ناقص تعمیل' کے بارے میں اپنا مؤقف بدلیں گے۔

چونکہ پیشگی انکم ٹیکس دہندگان (موبائل/براڈبینڈ صارفین) کی آبادی کا صرف ایک قلیل حصہ سالانہ گوشوارے داخل کرتا ہے، اس وجہ سے عام غلط فہمی یہ ہے کہ ہماری انکم ٹیکس کی بنیاد محدود ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ 100 ملین سے زیادہ افراد مختلف ودہولڈنگ پروویژنز کے تحت انکم ٹیکس ادا کرتے ہیں (یہ اس وقت 65 سے زیادہ ہیں)، لیکن ریٹرن فائل نہیں کرتے، اور اگر وہ ایسا کرتے ہیں تو ایف بی آر کو ان لوگوں کو جو قابل ٹیکس آمدنی کی حد سے کم حاصل کرتے ہیں، اربوں روپے واپس کرنے ہوں گے۔ یہ بیانیہ کسی بھی سرکاری اور آزاد (sic) میڈیا گفتگو میں دستیاب نہیں ہے، کیونکہ سب کا مقصد عام پاکستانیوں کو ٹیکس چوروں کی قوم کے طور پر بدنام کرنا، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ امیر اور طاقتور ریاستی اشرافیہ کے افراد اور ان کے گماشتہ ٹیکس چور ہیں، اور اس کے لیے انہیں ریاستی سرپرستی حاصل ہے۔

زیادہ تر موبائل صارفین کی آمدنی قابل ٹیکس حد سے کم ہے۔ وہ ٹیکس ریٹرن فائل کر کے پیشگی ادا کیے گئے ٹیکس کی واپسی (refund) کا مطالبہ کرنے کی زحمت نہیں کریں گے — بنیادی طور پر اس لیے کہ ریٹرن اور ویلتھ سٹیٹمنٹ (wealth statement) فائل کرنے کیے لئے ٹیکس ماہر (tax adviser) کی خدمات پر ریفنڈ کی رقم سے زیادہ لاگت آئے گی اور دوسری بات یہ کہ ریفنڈ کلیم کے لیے درخواست الیکٹرانک طور پر فائل کرنی پڑتی ہے اور اگر 45 دن میں جواب وصول نا ہو تو اپیل کرنی پڑتی ہے! یہاں جواب تو کبھی وصول ہوتا ہی نہیں ہے کہ آپ کو رقم کی واپسی کر دی گئی ہے!

بہت سے ناخواندہ پاکستانیوں کے لیے ایف بی آر کی جانب سے ایسی شرائط عائد کی جاتی ہیں، جو اس کے عوام کی جانب افسر شاہانہ رویہ کو ظاہر کرتی ہیں، جو کہ انتہائی افسوس ناک ہے۔ اس کے برعکس امیروں اور طاقتور افراد کی اکثریت اپنی بھاری آمدنی پر ودہولڈنگ ٹیکس کے ذریعے انکم ٹیکس کا ایک قلیل حصہ ادا کرتی ہے۔ وہ کبھی بھی ریٹرن اور ویلتھ سٹیٹمنٹس فائل کرنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے۔ ٹیکس سال 2022، 2023 اور 2024 کے لیے یہاں تک کہ ایف بی آر کے بہت سے افسران اور ارکان پارلیمنٹ اب تک ٹیکس ریٹرن اور ویلتھ سٹیٹمنٹس فائل کرنے میں ناکام ہیں!

کیا چیئرمین ایف بی آر قوم کو بتا سکتے ہیں کہ پچھلے 10 سالوں میں کتنے ججوں، جرنیلوں اور اعلیٰ عہدوں پر فائز سرکاری ملازمین نے ٹیکس گوشوارے جمع کرائے اور قابل ٹیکس مراعات پر ٹیکس ادا کیا یا قانون کی کسی مخصوص شق کے تحت اس ضمن میں چھوٹ کا دعویٰ کیا؟

اب وقت آ گیا ہے کہ ایف بی آر قوم کو بتائے کہ گذشتہ 15 سالوں میں پاکستان کا ایک فیصد امیر طبقہ یعنی ججوں، جرنیلوں، بیوروکریٹس، ارکان پارلیمنٹ، سیاست دانوں، پیشہ ور افراد، صنعت کاروں اور تاجروں نے کتنا ٹیکس ادا کیا۔ نئے چیئرمین کو چاہیے کہ وہ اس کی تحقیقات کر کے قوم کو بتائیں کہ کس طرح امیر طبقے نے ٹیکس ادا کیے بغیر بھاری اثاثے جمع کر لیے۔

کیا ایف بی آر عام شہریوں کو بتا سکتا ہے کہ کس چیز نے اسے ان امیروں اور طاقتور افراد، جس میں جج اور جنرلز شامل ہیں، کو نوٹس جاری کرنے سے روکا جنہوں نے بلا یا رعایتی قیمت پر سرکار سے پلاٹ حاصل کیے، اور انکم ٹیکس آرڈیننس 2001 کے سیکشن 13(11) یا سیکشن 39(1)(j) کے تحت کوئی ٹیکس ادا نہیں کیا؟ لوگوں کو یہ پوچھنے کا حق ہے کہ ایف بی آر پارلیمنٹ میں بیٹھے ٹیکس نادہندگان کو نوٹس دینے سے کیوں گریزاں ہے، جو قابل ٹیکس آمدنی رکھتے ہیں، لیکن قانون کے تحت ٹیکس ریٹرنز اور ویلتھ سٹیٹمنٹس فائل کرنے میں ناکام رہتے ہیں، یا صرف ریاست سے ملنے والی تنخواہوں کو اپنی آمدنی کا واحد ذریعہ ظاہر کرتے ہیں جبکہ ان کا طرز زندگی شاہانہ ہے؟

درحقیقت ایف بی آر کو انکم ٹیکس آرڈیننس 2001 کی دفعات کو پورے طور پر نافذ کرنا چاہیے، بغیر کسی ہچکچاہٹ کے تمام قابل ٹیکس آمدنی رکھنے والے افراد کو ٹیکس ریٹرن فائل کرنے کے لیے مجبور کرنا چاہیے یا ان کو باور کرانا چاہیے کہ وہ سزا کے لیے تیار رہیں۔

اوپر اور بہت سے دیگر مضامین میں حوالہ دیا گیا ڈیٹا اور حقائق بلاشبہ ایف بی آر کے غیر مؤثر ہونے اور اس کی نااہلی کی تصدیق کرتے ہیں۔ ہمارے ٹیکس کی بنیاد محدود نہیں ہے کیونکہ تقریباً 120 ملین افراد ذرائع پر پیشگی انکم ٹیکس ادا کر رہے ہیں، لیکن امیر اور طاقتور اپنی بے پناہ آمدنی اور اثاثوں پر ٹیکس ادا نہیں کر رہے۔

بدقسمتی سے ایف بی آر کے اعلیٰ افسران سچ نہیں بول رہے۔ وہ جان بوجھ کر اس حقیقت کو چھپاتے ہیں کہ ہمارا اصل مسئلہ کہاں ہے۔ وہ اپنے امیر سیاسی آقاؤں کو سزا دینے کی بجائے انہیں عام معافی دینے میں زیادہ مشغول رہے ہیں جس نے ہماری ٹیکس کی بنیاد کو مسخ کر دیا ہے — یہ نظام ٹیکس سے بچنے والوں اور قومی دولت لوٹنے والوں کو تحفظ فراہم کرتے ہیں — زیادہ تر وقت ایس آر اوز (قانونی ریگولیٹری آرڈرز) کے شیطانی آلے کا استعمال کرتے ہوئے — اور اس کے ساتھ ہی ریاست، چھوٹ، معافی، رعایتوں اور استثنیٰ کے ذریعے اربوں روپے کے محصولات سے محروم ہو جاتی ہے۔

یہ بات اچھی طرح سے ثابت ہے کہ انکم ٹیکس آرڈیننس 2001 میں بہت سی ودہولڈنگ شقیں بالواسطہ ٹیکسوں کی نوعیت رکھتی ہیں جو ناصرف تنخواہ دار طبقے اور غریبوں پر منفی اثر ڈالتی ہیں بلکہ اعلیٰ مہنگائی کو متحرک کرنے والے عوامل میں سے ہیں جو فروری 2023 میں 31.5 فیصد تک پہنچ گئی تھی۔

وفاقی اور صوبائی دونوں سطحوں پر زیادہ شرح والے ٹیکسوں اور نان ٹیکس لیویز کے نفاذ کے باوجود قومی سطح پر مالی سال 2023-24 میں کل قومی آمدنی 13.27 ٹریلین روپے ہوئی، جبکہ اس کے مقابلے میں کل قومی اخراجات 20.48 ٹریلین روپے تک پہنچ گئے۔ یہ خوفناک رفتار سے بڑھتا ہوا مالیاتی خسارہ ہی دراصل ہماری بنیادی بیماری اور معاشی مخمصہ ہے!

سمری آف کنسولیڈیٹڈ وفاقی اور صوبائی مالیاتی آپریشنز، 2023-24 کے مطابق ایف بی آر نے مالی سال 2023-24 میں براہ راست ٹیکس کے طور پر 4.53 ٹریلین روپے اکٹھے کیے، سیلز ٹیکس کے طور پر 3.99 ٹریلین روپے، کسٹم ڈیوٹی کے طور پر 1.10 ٹریلین روپے اور فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کے طور پر 577.4 بلین روپے۔ دستاویزی معیشت کے تحت بھی انکم ٹیکس کی اصل صلاحیت 12 کھرب روپے سے کم نہیں ہے اور سیلز ٹیکس کی مد میں 8 کھرب روپے۔ اسی طرح کسٹمز ڈیوٹی کی صلاحیت (100 بلین امریکی ڈالر کی بنیاد پر5 فیصد شرح استعمال کرنے سے) 1300 ارب روپے حاصل ہو سکتے ہیں)۔ فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کو موجودہ پوزیشن پر رکھنے پر بھی 700 ارب روپے مل سکتے ہیں۔

مذکورہ بالا اعداد و شمار کے پیش نظر صرف ایف بی آر کی سطح پر ٹیکس کی کل صلاحیت 22 ٹریلین روپے بنتی ہے۔ (انکم ٹیکس؛ 12 ٹریلین روپے، سیلز ٹیکس؛ 8 ٹریلین روپے، کسٹم ڈیوٹی؛ 1300 ارب روپے اور فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی؛ 700 بلین روپے)۔

اگر ٹیکس کے بڑے خلا (tax gap) کو پُر کر لیا جائے یا ماضی میں کر لیا جاتا تو ایف بی آر کی طرف سے پٹرولیم لیوی سمیت، مجموعی ریونیو کی وصولی، موجودہ مالی سال 2024-25 کے لیے بجٹ میں تفویض کیے گئے ہدف 12,970 بلین روپے سے دوگنا ہو سکتی تھی، بغیر کوئی نیا ٹیکس لگائے یا موجودہ ٹیکس کی شرحوں میں اضافہ کیے، جیسا کہ فنانس ایکٹ 2024 میں بلاجواز کیا گیا۔

مضمون نگار وکالت کے شعبے سے وابستہ ہیں اور متعدد کتابوں کے مصنف ہیں۔ وہ لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز (LUMS) میں ایڈجنکٹ فیکلٹی، ممبر ایڈوائزری بورڈ اور پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس (PIDE) کے سینیئر وزٹنگ فیلو ہیں۔