خیبرپختونخوا اسمبلی نے دوسرے پارلیمانی سال کے آخر حصے میں سب سے زیادہ بل منظور کر کے دیگر صوبائی اسمبلیوں کو پیچھے چھوڑ دیا۔
پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف لیجسلیٹو ڈیولپمنٹ اینڈ ٹرانسپیرنسی کی 'صوبائی اسمبلیوں کے تقابلی تشخیص' کے عنوان سے رپورٹ میں بتایا گیا کہ اجلاسوں کے انعقاد کے معاملے میں کے پی اسمبلی تیسرے نمبر پر رہی جہاں 52 سیشنز ہوئے۔ اس میں سندھ اسمبلی، سب سے زیادہ 68 سیشنز کا انعقاد کرتے ہوئے سرفہرست ہے، اس کے بعد پنجاب اسمبلی کا نمبر ہے جہاں 67 مرتبہ اجلاس ہوا جبکہ بلوچستان اسمبلی کا اجلاس صرف 33 روز ہوا ہے۔
وزیراعلی بلوچستان جام کمال خان نے صوبائی اسمبلی کے 33 فیصد اجلاس میں شرکت کی، اس کے بعد سندھ کے وزیراعلیٰ مراد علی شاہ نے 31 فیصد، پنجاب کے وزیراعلیٰ عثمان بزدار 7 فیصد اور خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ محمود خان 6 فیصد شریک ہوئے۔
رپورٹ کے مطابق کے پی اسمبلی نے 59 قوانین منظور کیے، اس کے بعد پنجاب اسمبلی نے 41، سندھ اسمبلی نے 24 اور بلوچستان اسمبلی نے 8 قوانین منظور کیے۔
بلوچستان اسمبلی میں سب سے زیادہ 2 کروڑ 31 لاکھ روپے فی ممبر بجٹ مختص ہے، اس کے بعد سندھ اسمبلی کے ہر ممبر کو ایک کروڑ 36 لاکھ روپے، کے پی اسمبلی کے ہر ممبر کو 94 لاکھ روپے اور پنجاب اسمبلی کے ہر رکن کو 51 لاکھ روپے بجٹ مختص ہے۔
بلوچستان اسمبلی میں قائد حزب اختلاف ملک سکندر خان نے سب سے زیادہ 70 فیصد اجلاسوں میں شرکت کی ہے جبکہ حمزہ شہباز نے پنجاب اسمبلی میں سب سے کم 10 فیصد حاضری دی ہے۔ اسمبلیوں میں بجٹ کے عمل کو بہتر بنانے اور تقویت دینے کے لیے کوئی اصلاحات نہیں کی گئیں۔
پنجاب اسمبلی کے علاوہ ہر اسمبلی میں بجٹ اجلاس کے لیے مختص دنوں میں کمی واقع ہوئی ہے، پنجاب اسمبلی میں پہلے پارلیمانی سال میں ایام 12 سے بڑھ کر 13 ہو گئے تھے۔ بجٹ کی جانچ پڑتال کے لیے مختص کیے جانے والے وقت کے علاوہ، صوبائی اسمبلیاں بھی پبلک فنانس ایکٹ پاس کرنے میں ناکام رہی ہیں جسے 2019 میں وفاقی قانون کے طور پر منظور کیا گیا تھا۔