صوبائی اسمبلیاں بھی زینب الرٹ بل کی طرز پر قانون سازی کریں

صوبائی اسمبلیاں بھی زینب الرٹ بل کی طرز پر قانون سازی کریں
بچوں کے خلاف جرائم میں اضافہ ہونے کے بعد اغوا، زیادتی اور قتل جیسے واقعات کی روک تھام کے لئے قومی اسمبلی نے رینب الرٹ بل متفقہ طور پر منظور کر لیا ہے۔ جمعے کے روز وفاقی وزیر انسانی حقوق شیری مزاری نے بل ایوان میں پیش کیا جسے تمام جماعتوں نے منظور کر لیا۔

اس بل کے مطابق کسی بچے کے اغوا یا زیادتی کے واقعہ کے بعد تین ماہ کے اندر اندر اس کی سماعت مکمل کرنا ہو گی۔ زینب الرٹ رسپانس اینڈ ریکوری بل 2019 کا اطلاق وفاقی دارالحکومت میں ہو گا جبکہ چاروں صوبوں کی صوبائی اسمبلیاں قانون سازی کی ذمہ دار ہوں گی۔

یاد رہے کہ جنوری 2018 میں 6 سالہ زینب کو اغوا کے بعد زیادتی کر کے قتل کیا گیا تھا جس کی جدید سائنسی بنیادوں پر تفتیش کے بعد مجرم عمران علی کو گرفتار کر کے ٹرائل کے بعد 18 فروری کو سزا سنا دی گئی تھی۔ اس کے بعد 17 اکتوبر کو تمام اپیلیں خارج ہونے کے بعد مجرم عمران کو پھانسی دے دی گئی تھی۔

اس دلخراش سانحے کے بعد ضلع قصور کے شہر چونیاں میں 4 بچوں کو اغوا کر کے جنسی زیادتی کے بعد قتل کیا گیا۔ چوتھے بچے کے قتل کے بعد وسیع پیمانے پر تفتیش کی گئی، 1700 افراد کے ڈی این اے کئے گئے۔ بلآخر پولیس نے مرکزی ملزم سہیل شہزاد کو گرفتار کر لیا۔ 17 دسمبر کو انسداد دہشتگردی کی عدالت نے کوٹ لکھپت جیل میں فیصلہ سناتے ہوئے مجرم کو تین دفعہ سزائے موت اور عمر قید سمیت دیگر جرمانے کی سزا سنائی ہیں۔

زینب الرٹ بل کے ذریعے ایسے بچوں کی گمشدگی کی صورت میں باحفاظت بازیابی کو یقینی بنایا جائے گا۔ اس حوالہ سے سانحہ چونیاں کے بعد تیزی سے کام شروع ہوا۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما قمر زماں کائرہ چونیاں آئے تو ان سے بھی مطالبہ کیا گیا کہ چئیرمین پی پی پی بلاول بھٹو زردای سے مطالبہ کریں کہ قائمہ کمیٹی سے زینب بل کو منظور کروا کر جلد از جلد قومی اسمبلی میں پیش کیا جائے۔ چئیرمین پی پی پی بلاول بھٹو زرداری کی سربراہی میں 21 رکنی کمیٹی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق نے 6 جنوری 2020 کو زینب کی دوسری برسی پر اس بل کی منظوری دی جس کے بعد 10 جنوری 2020 کو قومی اسمبلی میں متفقہ طور پر بل کو منظور کر لیا گیا۔

اس حوالہ سے وفاقی وزیر اسد عمر کا کہنا تھا کہ زینب الرٹ بل جو میں نے پچھلی اسمبلی میں پیش کیا تھا لیکن اس اسمبلی کی مدت میں پاس نہ ہو سکا، آج پارلیمان نے متفقہ طور پر منظور کر لیا ہے۔ امید ہے سینیٹ بھی اس قانون کو جلد منظور کرے گی۔ اس ملک کے معصوم بچوں کی حفاظت پارلیمان اور حکومت کی اوّلین ذمہ داری ہونی چاہیے۔

اس حوالہ سے زینب کے والد امین انصاری صاحب نے نجی ٹیلی ویژن سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ مجھے قومی اسمبلی میں شیری مزاری صاحبہ نے بل کی کاپی دی تھی جو ابھی تجرباتی طور پر وفاقی دارالحکومت میں لاگو کیا جائے گا۔ مگر، امید کرتے ہیں کہ دوسری صوبائی اسمبلیاں بھی اس قانون کو رائج کرنے کے لئے قانونی طریقہ اپنائیں گی۔

سوشل میڈیا اور ضلع قصور کی عوام نے مطالبہ کیا ہے کہ پنجاب اسمبلی سمیت تمام صوبائی اسمبلیاں اس بل کو پیش کر کے قانون سازی کریں۔ تاکہ تمام صوبوں میں بچوں کی حفاظت کو یقینی بنایا جا سکے۔

بچوں کی حفاظت کے لئے موثر قانون سازی کے ساتھ ساتھ والدین اور معاشرہ کی اپنی ذمہ داری کا احساس کرنا پڑے گا۔

ضلع قصور میں یکے بعد دیگرے واقعات سے شہری خوف زدہ ہیں۔ قانون نافذ کرنے والوں اداروں کو اس حوالہ سے بہتر حکمت علمی کے ساتھ ایسے جرائم پر قابو پانے کے لئے مزید بہتری کی ضرورت ہے۔ کیونکہ، قانون تو ملک میں بے شمار ہیں مگر قانون کی عمل داری بہت ضروری ہے۔

کامران اشرف صحافت کے طالب علم ہیں۔