”زینب الرٹ بل میں سقم موجود ہیں، نظر ثانی کی جائے“، سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کا اظہار تشویش

”زینب الرٹ بل میں سقم موجود ہیں، نظر ثانی کی جائے“، سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کا اظہار تشویش
ایوان بالاء کی فنکشنل کمیٹی برائے انسانی حقوق کا اجلاس چیئرمین کمیٹی سینیٹر مصطفی نواز کھوکھر کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہاؤس میں منعقد ہوا۔ فنکشنل کمیٹی کے اجلاس میں گمشدہ اور اغواء شدہ بچوں کیلئے الرٹ کو بڑھانے، جوابی ردعمل اور بازیابی کیلئے احکامات وضع کرنے کا بل (زارا) اورآئی سی ٹی رائٹس آف پرسنز ڈس ایبلٹی بل 2020  کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا۔

چیئرمین کمیٹی سینیٹر مصطفی نواز کھوکھر نے کہا کہ بچوں کے ساتھ بڑھتے ہوئے زیادتی اور اغواء کے واقعات کو ختم کرنے کیلئے بل کو زیادہ سے زیادہ موثر بنانے کے حوالے سے جو پوائنٹس گزشتہ اجلاس میں اٹھائے گئے تھے حکومت اور وزارت قانون نے اُن سے اتفاق کیا ہے۔ بل میں موجود خامیوں کو دور کر کےاس کو موثر بنایا جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ اراکین کمیٹی طے کریں کہ بچوں سے بڑھتے ہوئے زیادتی کے واقعات کو کنٹرول کرنے کیلئے آیا اس بل کا اطلاق صرف اسلام آباد تک رکھا جائے یا پورے ملک کے لئے قانون بنایا جائے۔ اراکین کمیٹی کی اکثریت کی رائے کے مطابق قانون کا اطلاق پورے ملک تک بنانے کا فیصلہ کیا گیا۔ چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ بل کے سیکشن 8 میں جو دفعہ 182 شامل کی گئی ہے، اُس کا مقصد اور ہے اور دیگر بھی کافی خامیاں ہیں۔

انہوں نے کہا کہ بل میں سقم ہے اس میں متاثرہ کی بجائے ملزم کو فائدہ ہو سکتا ہے ان کو بہتر کر کے رپورٹ تیار کی جائے گی۔

 سینیٹر محمد علی سیف نے کہا کہ برازیل نے بچوں سے متعلقہ اغوا و دیگر جرائم کے حوالے سے بہترین قانون تیار کیا ہے اُس کا بھی جائزہ لے کر اس میں شامل کیا جائے۔ سینیٹر فیصل جاوید نے کہا کہ یہ بل قومی اسمبلی سے پاس ہو چکا ہے اگر اس میں اتنے سقم ہیں تو وزارت قانو ن کو اسکا جائزہ لینا چاہئے تھا، دو سال تک وزارت قانون کیا کرتی رہی ہے، حیرت کی بات ہے کہ وزارت قانون کیسے  اتنے اہم نقاط کو نظر انداز کر سکتے ہیں۔

چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ ملزمان کیلئے کیسز دہشتگری کی عدالت میں ڈالنے کی شق ڈالی جائے گی تاکہ جرائم کو کم کرنے کیلئے لوگوں میں ڈر پیدا ہو۔ اسلام آباد کے معذور افراد کے بل 2020 کے حوالے سے زاہد عبداللہ انفارمیشن کمشنر نے کمیٹی کو بتایا کہ بل میں چار پوائنٹس شامل کئے جائیں۔

انہوں نے کہا کہ نابینا افراد کیلئے بینک اُن کے اکاؤنٹ کھلونے نہیں دیتے، نابینا افراد اہم عہدوں پر کام کر رہے ہیں دیگر شہریوں کی طرح بینک انھیں مساوی سہولیات فراہم کریں اسکو قانون کا حصہ بنایا جائے۔ معذوری کی چاروں حالتوں کو قانون میں شامل کیا جائے۔ کونسل میں مرد اور خواتین کو برابر نمائندگی دی جائے۔ نابینا خواتین کے اپنے مسائل ہوتے ہیں۔ قومی اسمبلی سے تعلق رکھنے والے سلمان (نابینا ملازم) نے کمیٹی کو بتایا کہ میڈیکل آفیسر کی بجائے کونسل کو طے کرنا چاہئے کہ کون معذور ہے اور نابینا افراد کیلئے معذور کوٹہ میں ایک تناسب مقرر کیا جائے جس پر چیئرمین کمیٹی سینیٹر مصطفی نواز کھوکھرنے کہا کہ دیگر اراکین کمیٹی نے بھی اس بل کے حوالے سے کچھ تجاویز تیار کی ہیں آئندہ اجلاس میں اُن سب کا جائزہ لیا جائے گا اور بل کو زیادہ سے زیادہ موثر بنایا جائے گا۔