چند دن پہلے ایبٹ آباد کے پاس حویلیاں کے ایک گاؤں میں ایک تین سالہ بچی فریال کو اغوا کیا گیا اور جنسی زیادتی کرنے کے بعد اسے سخت سردی میں پھینک دیا گیا جس سے اس کی موت واقع ہو گئی۔ اسی طرح آج نوشہرہ میں ایک نو سال کی بچی کی لاش ملی ہے جس کے پوسٹ مارٹم میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ اسے بھی اغوا کرنے کے بعد جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا اور قتل کر دیا گیا۔ گذشتہ سال جنوری میں اسی طرح کے ایک واقعہ میں جب قصور کی چھ سالہ زینب کو اغوا کیا گیا اور اسی طرح جنسی زیادتی کے بعد اسکی لاش ملی تھی تو الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر اس واقعہ کو بہت کوریج دی گئی جس سے ایک طرف تو زینب کے قاتل کو گرفتار کر کے پھانسی دی گئی تو دوسری طرف لوگوں میں بچوں سے جنسی زیادتی جیسے واقعات کے حوالے سے شعور اجاگر کرنے میں مدد ملی۔ اس سے یہ امید پیدا ہوئی تھی کی اب اس طرح کے واقعات میں کمی واقع ہو گی۔ مگر حقائق اس کے بر عکس ہیں۔
اس ضمن میں "ساحل" نامی این جی او نے اپنی رپورٹ مرتب کی جس کے مطابق 2018 کے پہلے چھ ماہ میں زینب واقعہ کے بعد بچوں میں جنسی زیادتی کے واقعات میں 2017 کے مقابلے میں 32 فیصد اضافہ ہوا۔ اس رپورٹ کے مطابق ملک کے چاروں صوبوں، گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر سے سال 2018 کے پہلے چھ ماہ میں بچوں میں جنسی زیادتی کے 2322 واقعات رپورٹ کیے گئے جبکہ سال 2017 کے پہلے چھ ماہ میں ایسے رپورٹ ہونے والے واقعات کی تعداد 1764 تھی۔ اسی رپورٹ کے مطابق اس وقت ہمارے ملک میں روزانہ 12 بچے جنسی زیادتی کا شکار ہوتے ہیں۔ اور پانچ سال سے کم عمر کے بچوں میں جنسی زیادتی کے واقعات میں بھی 2017 کے مقابلے میں اضافہ ہوا ہے۔ اسکی ایک مثال تین دن پہلے رونما ہونے والا تین سالہ فریال کا واقعہ ہے۔ "ساحل" کی اس رپورٹ میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ سال 2018 کے پہلے چھ ماہ میں رونما ہونے والے اس طرح کے واقعات میں 48 فیصد ملوث افراد پچوں کے اپنے رشتہ دار یا جاننے والے تھے جبکہ صرف 14 فیصد افراد اجنبی تھے۔ اس سے اس امر کی بھی نفی ہوتی ہے کہ بچوں میں جنسی زیادتی کے واقعات میں اجنبی لوگ زیادہ ملوث ہوتے ہیں۔
ان حقائق سے اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ گو زینب واقعہ کے بعد لوگوں میں بچوں میں جنسی زیادتی کے واقعات کے حوالے سے شعور بڑھا ہے اور انہیں یہ طاقت بھی ملی ہے کہ وہ اس طرح کے واقعات کو رپورٹ کریں مگر پھر بھی ان واقعات میں اس طرح کا اضافہ تشویش ناک ہے۔ اس اضافے کی بڑی وجہ بہرحال اب بھی ہمارے پولیس اور عدالتی نظام میں موجود سُقم ہیں جن کی وجہ سےاس طرح کے جُرم کرنے والوں کو اس بات کا یقین ہوتا ہے کہ بچوں سے جنسی زیادتی کے متعلق قوانین کے ہوتے ہوئے بھی وہ سزا سے بچ جائیں گے۔ زینب کے واقعہ میں مجرم کو ضرور سزا دی گئی اور اس کی وجہ بھی اس واقعہ کو دی جانے والی میڈیا کی بھرپور کوریج تھی۔ اس واقعہ کے بعد جو 2322 واقعات اس سال کے پہلے چھ ماہ میں رپورٹ ہوئے ہیں اور اب فریال سمیت اگلے چھ ماہ والے واقعات ان سے الگ ہیں، ان میں ملوث کتنے افراد کو سزا ہوئی؟ شائد بہت ہی کم کو ہوئی ہو گی۔ اور ابھی تو یہ وہ واقعات ہیں جو رپورٹ ہوئے ہیں۔ جوواقعات رپورٹ نہیں ہوئے وہ الگ سے ہوں گے۔
اگر ہم اپنے بچوں کو اس طرح کے جرائم کا شکار ہونے سے بچانا چاہتے ہیں تو ہمیں فریال اور باقی ایسے بچوں کے لئے بھی ویسے ہی آواز اٹھانا ہو گی جس طرح زینب کے لئے آواز اٹھائی تھی اور ریاستی اداروں کو بھی اسی تندہی سے کام کر کے ایسے گھناؤنے اور سفاک جرائم میں ملوث افراد کو ویسے ہی سزا دینا ہو گی جس طرح سے زینب کیس میں ملوث عمران کو دی گئی تھی۔ ورنہ ہمارے سماج میں موجود یہ بھیڑیے کبھی رکنے والے نہیں ہیں۔ کیونکہ ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق برطانیہ میں بھی بچوں کے جنسی واقعات میں سب سے زیادہ پاکستانی ہی ملوث پائے گئے ہیں۔
مصنف جامعہ پنجاب سے ابلاغیات میں ماسٹرز کر چکے ہیں، سیکولرازم کے حامی اور سیاست، ادب اور موسیقی سے شغف رکھتے ہیں۔