پارلیمنٹ کے ایوان بالا میں اپوزیشن سینیٹرز 7 بلز کی فوری منظوری کی راہ میں رکاوٹ بن گئے جبکہ وزیر قانون فروغ نسیم نے اپوزیشن پر حکومت سے کیے گئے معاہدے کی خلاف ورزی کا الزام عائد کیا ہے۔
میڈیا رپورٹ کے مطابق حکومت قومی اسمبلی سے پہلے سے منظور شدہ زینب الرٹ بل، آئی سی ٹی حقوق برائے معذور افراد بل، انتظامی لیٹر اینڈ صداقت کے سرٹیفکیٹس کا بل، قانونی معاونت و انصاف اتھارٹی بل، خواتین کے جائیداد کی ملکیت نافذ کرنے کے بل، عدالتی لباس کے حوالے سے بل اور سول پروسیجر ترمیمی بل کو فوری طور پر منظوری کے لیے بحث کا حصہ بنانا چاہتی تھی لیکن اپوزیشن نے اصرار کیا کہ بلز کو پہلے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی بھیجا جانا چاہیے۔ جس پر سینیٹ کے چیئرمین صادق سنجرانی نے بلز کو متعلقہ قائمہ کمیٹیوں کو بھیج دیا ہے۔
وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق ڈاکٹر شیریں مزاری نے زینب الرٹ بل اور آئی سی ٹی حقوق برائے معذور افراد بل کو پیش کیا تھا جبکہ وزیر قانون نے دیگر 5 بل پیش کیے تھے۔
پاکستان مسلم لیگ (ن) کے پارلیمانی رہنما مشاہد اللہ خان نے زینب الرٹ بل کو سینیٹ کی قائمہ کمیٹی بھیجنے پر زور دیا تو وزیر پارلیمانی امور اعظم خان سواتی نے اعتراض کیا کہ بل پر پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی زیر صدارت قومی اسمبلی کی انسانی حقوق کی کمیٹی میں تفصیلی بحث کی جا چکی ہے۔
اس موقع پر اپوزیشن لیڈر راجہ ظفر الحق کا کہنا تھا کہ ایوان بالا کی اپنی ذمہ داریاں ہوتی ہیں۔ جب مشاہداللہ خان نے اپنا موقف تبدیل کرنے سے انکار کیا تو وزیر قانون نے ان سے کہا کہ آپ نے جو کہا ہے مستقبل میں اسے یاد رکھیے گا۔
سینیٹ میں نیا پاکستان ہاؤسنگ اینڈ ڈویلپمنٹ اتھارٹی بل کو مسلم لیگ (ن) کے جاوید عباسی کی جانب سے ان کی ترامیم کی پیشکش سے دستبرداری کے بعد منظور کر لیا گیا۔ جاوید عباسی کا کہنا تھا کہ بل پر ترمیم کو متعلقہ قائمہ کمیٹی سے منظوری کے بعد بھی پیش کیا جا سکتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ صرف 3 دن کے نوٹس کی ضرورت ہوتی ہے جو انہوں نے دے دی تھی تاہم وہ اپنی ترمیم سے دستبردار ہو گئے۔
جماعت اسلامی کے مشتاق احمد کا کہنا تھا کہ انہوں نے 9 ترامیم پیش کی تھی جنہیں نہ ہی کمیٹی نے منظور کیا اور اور نہ ہی ایوان نے۔
راجہ ظفر الحق کا کہنا تھا کہ سود کے حوالے سے کوئی قانون سازی نہیں ہونی چاہیے کیونکہ یہ ریاست مدینہ کے نظریے کے خلاف ہے۔