پاکستان میں صوبائی سطح پر صحافیوں کے تحفظ کے لئے قانون سازی کھٹائی کا شکار ہے

پاکستان میں صوبائی سطح پر صحافیوں کے تحفظ کے لئے قانون سازی کھٹائی کا شکار ہے
پاکستان کا شمار ان ملکوں میں ہوتا ہے جہاں صحافت کا پیشہ اس لیے بھی خطرناک ہے کیونکہ یہاں صحافیوں پر تشدد کرنے والوں کو سزائیں نہیں دی جاتیں اور ایسے مقدمات پر کوئی فیصلہ نہیں ہو پاتا۔ اسی صورت حال کے پیش نظر صحافیوں اور دیگر میڈیا کارکنوں کے تحفظ اور آزادی اظہار کو یقینی بنانے کے لیے قانون سازی کی گئی ہے۔

28 مئی 2021 کو صوبائی سطح پر سندھ اسمبلی نے دی سندھ پروٹیکشن آف جرنلسٹس اینڈ ادر میڈیا پریکٹیشنرز ایکٹ 2021 متفقہ طور پر منظور کیا تھا۔ اس کے بعد نومبر 2021 میں وفاقی سطح پر پروٹیکشن آف جرنلسٹس اینڈ ادر میڈیا پریکٹیشنرز ایکٹ 2021 بنایا گیا۔ تاہم ایک برس سے زائد عرصہ گزرنے کے بعد بھی تاحال باقی صوبوں میں یہ قانون اب تک نہیں بن سکا۔ پاکستان نے 2013 میں اقوام متحدہ کے 10 سالہ پلان آف ایکشن آن سیفٹی آف جرنلسٹس (عملی منصوبہ برائے صحافتی تحفظ) پر عمل کرنے کا عہد کیا تھا۔

صوبائی سطح پر خیبر پختونخوا، بلوچستان اور پنجاب میں اس بل کے ذریعے صحافی برادری کو ایک قانونی تحفظ کی چھتری فراہم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

زوار حسین سابقہ چیف رپورٹر دی نیوز کراچی اور سابقہ خصوصی نمائندہ برائے ایسوسی ایٹڈ پریس اسلام آباد کا کہنا ہے کہ کسی بھی قانون یا پالیسی کی بنیاد عمومی تجربات، مشاہدات و نتائج پر ہی رکھی جاتی ہے۔ صحافتی تحفظ کا قانون وقت کی اہم ضرورت ہے اس لئے بہترین یہی ہے کہ صحافتی کمیونٹی مل کر اپنے لئے قانون بنائے۔ ان کا کہنا ہے کہ صحافی ہی میدان عمل کی پیچیدگیوں، اونچ نیچ، اور دیگر مسائل سے بخوبی واقف ہو سکتا ہے، اگر غیر صحافتی طبقہ قوانین بنائے گا تو وہ اپنے مفادات اور تحفظات کو اولین ترجیح دے گا۔ اس لئے صحافتی کمیونٹی لیڈرز، کلب اور یونینز کو یکجا ہو کر خود اس بل پر کام کرنا چاہئیے۔

سینیئر صحافی شیر علی خلطی کا کہنا ہے کہ پنجاب میں حکومتی و سیاسی عدم دلچسپی کے باعث میڈیا تحفظ ایکٹ پر ابھی تک کام نہیں ہو پایا۔ سول سوسائٹی تنظیموں، صحافیوں، پریس کلبوں، یونینز آف جرنلسٹس نے سیاسی جماعتوں اور سیاست دانوں سے اس بل کے حوالے سے ملاقاتیں کیں مگر کسی بھی سیاست دان نے اس بل کو پنجاب اسمبلی میں پیش نہیں کیا۔ ان مشاورتی ملاقاتوں میں حالات کی سنگینی، صحافیوں کی جان اور کام کو درپیش مسائل، صحافیوں کے قتل کے علاوہ اغوا برائے تاوان، تشدد، گھر سے اٹھانا جیسے معاملات کی حساسیت پر قائل کرنے کی کوشش کی گئی۔

سیکرٹری جنرل پاکستان پریس فاؤنڈیشن (پی پی ایف) اویس اسلم علی کا کہنا ہے کہ سندھ اور وفاق کے ایکٹ میں صحافیوں کے تحفظ کی اہمیت کو پہچانا گیا ہے اور خبری ذرائع کے تحفظ کو بھی پہچانا گیا۔ قانون کے مطابق کوئی بھی شخص یا ادارہ جرنلسٹ کا فون یا لیپ ٹاپ نہ تو تحویل میں لے سکتا ہے، نہ ان کے فون ٹیپ کر سکتا ہے اور نہ ہی ان پر خبری ذرائع کو افشا کرنے کا دباؤ ڈال سکتا ہے۔ اس حوالے سے اقوام متحدہ کا پلان آف ایکشن بہت واضح ہے۔

صحافتی تحفظ ایکٹ کی غیر رسمی سندھ کمیٹی میں شروع ہی سے پاکستان پریس فاؤنڈیشن شامل رہا۔ سندھ پروٹیکشن آف جرنلسٹس اینڈ ادر میڈیا پریکٹیشنرز ایکٹ 2021 کی خاص بات یہی ہے کہ یہ قانون باقی متصادم قوانین پر حاوی ہو گا اور دوسرے قانون کو نہیں مانا جائے گا تاہم وفاقی قانون کی سب سے بڑی کمزوری یہی ہے کہ باقی قوانین کو اس ایکٹ پر فوقیت حاصل ہے۔ یہ اس کی بہت بڑی کمزوری بن سکتی ہے۔

صحافتی تحفظ ایکٹ کے حوالے سے میڈیا پرسنز کو خود بھی آگاہی حاصل کرنا ہو گی۔ ہر صحافی کو اس قانون کو پڑھنا چاہئیے تا کہ جہاں کہیں اس کی خلاف ورزی ہو اس کو رپورٹ کرے۔ سب سے بڑی بات قانون میں شامل 'پرائیویسی' کی شق ہے جس کے مطابق صحافی اور ان کے خبری ذرائع کا تحفظ ہے۔ اس کے ساتھ صحافی کے مددگار آلات ابلاغ یعنی فون اور لیپ ٹاپ کو سرکاری قبضے میں لینے کے حوالے سے اہم شق شامل ہے۔

صحافیوں کی حالیہ گرفتاریوں میں اس قانون کی خلاف ورزی کی گئی، چاہے وہ مطیع اللہ جان ہو، یا شاہد اسلم یا عماد یوسف ہو۔ ادارے دوران تفتیش صحافیوں سے ان کے ذرائع پوچھتے ہیں اور ان کے ابلاغی آلات بھی قبضے میں لینے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ قانون کی خلاف ورزی ہے اور اس کے مطابق سرکاری اداروں کے افسران کو بھی معلومات نہیں ہیں۔ شاہد اسلم کیس میں وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے آفسر نے خود ہی عدالت میں بتایا کہ 'فون اور کمپیوٹر تحویل میں لے لئے گئے ہیں اور ان کے فرانزک کرانے کے لیے بھیج رہے ہیں تا کہ پاس ورڈ معلوم کیے جا سکیں'۔

سیکرٹری جنرل پی پی ایف کا کہنا ہے کہ دوسری اہم بات میڈیا میں یہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ جب تک کمیشن نہیں بنے گا اس وقت تک قانون پر کام شروع نہیں ہو گا۔ کمیشن بننا ایک شق ہے لیکن قانون کی باقی شقوں کو فوری لاگو کرنا حکومتی اداروں کی ذمہ داری ہے۔

وفاقی قانون پاس ہونے کے بعد بول نیوز لاہور کے صحافی شاہد اسلم کی جنوری 2023 میں بغیر اطلاع گرفتاری کے بعد ان پر خبری ذرائع کو افشا کرنے کے دباؤ اور ان کے ابلاغی آلات فون اور لیپ ٹاپ تحویل میں لینے کی کوشش سے یہ بات تو واضح ہے کہ قانون کے متعلق آگاہی وقت کی اہم ضرورت ہے۔

شاہد اسلم نے کہا کہ وہ شکر گزار ہیں اپنے صحافی ساتھیوں، یونینز، پریس کلبز، صحافتی مددگار اداروں اور تنظیموں کے کہ جن کے بروقت قانون میں ذرائع کی حفاظت کو ہائی لائیٹ کرنے سے معاملات کافی حد تک سُلجھ گئے مگر ان کا کہنا ہے کہ پنجاب میں بھی میڈیا تحفظ قانون کی اشد ضرورت ہے۔

شاہد اسلم کا کہنا تھا کہ بطور ابلاغی طالب علم اور پیشہ ورانہ صحافی وہ اس خبر کے ردعمل کیلئے ذہنی طور پر تیار تھے مگر یہ کوئی فلمی ایکشن صورت حال یا پہلے سے تیار شدہ سکرپٹ نہیں تھا کہ مجھے پتہ ہوتا کہ مجھے میرے گھر میں گھس کر میری فیملی کے سامنے زبردستی لے جایا جائے گا۔ مجھے اس وقت سمجھ نہیں آیا کہ مجھے کیا کرنا ہے، مجھ پر دباؤ ڈالا گیا کہ میں اپنے خبری ذرائع کے بارے میں بتاؤں تو یہ میرے لئے اپنی جان سے بھی زیادہ قیمتی چیز تھی۔ میں اپنے پیشے سے غداری نہیں کر سکتا تھا۔ بہرحال میں تو اس ٹراما سے اپنے دوستوں کے ذریعے باہر آ جاؤں گا مگر میں اپنے گھر والوں کو کیا جواب دوں۔

شاہد اسلم کا مزید کہنا تھا، نہ ہی ہمارے ادارے اور نہ ہی کسی تنظیم نے ذہنی صحت کے لیے کونسلنگ کیلئے مجھ سے رابطہ کیا کیونکہ میرا کیس تو سب کے سامنے بھی آ چکا ہے۔ ہمیں تعلیمی اداروں سے لے کر صحافتی اداروں تک کہیں بھی پوسٹ ٹراما صورت حال سے نمٹنے کے حوالے سے تربیت نہیں دی جاتی۔ میری خواہش ہے کہ پنجاب اور دیگر صوبوں میں جب یہ بل پیش کیا جائے تو صحافیوں کے لئے ایسی تربیت کو لازمی قرار دیا جانا چاہئیے۔

تاہم جیو نیوز سے وابستہ صحافی اور تجزیہ نگار مظہر عباس کے مطابق صحافیوں کی حفاظت سے متعلق قوانین کا قومی اور صوبائی سطح پر پیش ہونا ایک اچھا قدم اور اہم پیش رفت ہے جس سے صحافیوں کے خلاف ہونے والے تشدد کے خلاف کارروائی کی جا سکے گی۔ سندھ کا قانون وفاق کے قانون سے بہتر ہے کیونکہ اس میں کمیشن کو سوموٹو نوٹس لینے کا اختیار ہے جبکہ کمیشن میں دیگر تنظیموں کے نمائندوں کی شمولیت اس کو مزید تقویت دے گی۔ مظہر عباس کا کہنا ہے کہ 'ہو سکتا ہے کہ اس قانون کے بننے سے صحافیوں کے خلاف تشدد ختم نہ ہو لیکن تشدد کرنے والوں کی شاید نشاندہی ہو سکے'۔

لیکن اسد علی طور جنہیں مئی 2021 میں اسلام آباد میں تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا اور صحافی بلال فاروقی جنہیں ستمبر 2020 میں فوج کے خلاف سوشل میڈیا پر مواد شیئر کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا، اس قانون سے زیادہ پر امید نہیں ہیں۔

اسد طور کا کہنا ہے کہ اس قانون کے متعارف ہونے کے چند دن بعد ہی انہیں اس طرح کے تشدد کا نشانہ بنایا جانا اس بات کا ثبوت ہے کہ جو لوگ صحافیوں کے خلاف تشدد میں ملوث ہیں انہیں ان قوانین کی کوئی پروا نہیں اور یہی پیغام وہ حکومت کو دینا چاہتے تھے جس کی وجہ سے انہیں نشانہ بنایا گیا۔

بلال فاروقی کا کہنا ہے کہ حکومت شہریوں کے تحفظ کیلئے یہ قوانین بناتی ہے اور پھر ان قوانین ہی کو صحافیوں کے خلاف استعمال کیا جاتا ہے۔ 'میرے خلاف ایف آئی آر درج کروانے والا کبھی عدالت کے سامنے پیش نہیں ہوا لیکن آج تک اس ایف آئی آر کو ختم نہیں کیا گیا۔ یہ ہم سب جانتے ہیں کہ ایسا کس کے حکم پر کیا گیا تو اس بل سے کچھ فرق نہیں پڑتا۔ جس کی ایک فون کال پر یہ سب ہو رہا ہے وہ ایسے ہی ہوتا رہے گا'۔

سینیئر صحافی، استاد اور تجزیہ نگار مبشر بخاری کا کہنا ہے کہ یہ صحافیوں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ قانون کی افادیت کو بڑھانے کیلئے دھمکی یا ہراسانی کی شکایات کو نظرانداز کرنے کی بجائے انہیں لازمی طور پر رجسٹر کروائیں۔

مبشر بخاری نے قانون کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ حالیہ صحافتی قانون ڈیجیٹل، جسمانی اور ذہنی تحفط کی بات تو کرتا ہے لیکن معاشی تحفظ کے حوالے سے اس قانون میں کہیں ذکر نہیں کیا گیا۔ گزشتہ حکومت کے دور میں بہت سے اداروں کے اشتہارات بند کر دیے گئے جس کی وجہ سے جو ادارے پہلے ہی باقاعدہ تنخواہیں نہیں دے رہے تھے، اشتہارات بند ہونے کے بعد مالکان کو ایک بڑا جواز مل گیا اور انہوں نے ناصرف تنخواہیں کم کیں بلکہ بڑے پیمانے پر ملازمین کو نوکریوں سے بھی نکال دیا۔ اس کے باعث ہزاروں صحافی بے روزگار ہو گئے۔

قانون کے مطابق تمام اداروں پر لازم ہے کہ صحافیوں کی انشورنس کروائیں لیکن محض ہرجانہ کافی نہیں ہوتا۔ مثلاً صدف نعیم کیس میں ساتھی صحافی قذافی بٹ صدف نعیم کی ڈیڈ باڈی لے کر لاہور آئے، سارا وقت باڈی کے ساتھ رہے، جب ان سے میری بات ہوئی تو وہ سسکیاں بھر کر رو رہے تھے۔ وہ صدمے سے گزرے لیکن اس صورت حال کیلئے کسی میڈیا ہاؤس کی کوئی پالیسی نہیں ہے۔ بین الاقوامی ادارے رائٹرز میں کام کرتے ہوئے گامے شاہ بم بلاسٹ سٹوری اور اس کے علاوہ ایک سٹوری میں مجھے شدید خطرناک قسم کی دھمکیاں ملیں تو مجھے لندن سے فون آیا اور میری کونسلنگ کی گئی اور مجھے پریکٹیکل کونسلنگ کے علاوہ کچھ دنوں کیلئے کسی محفوظ جگہ منتقلی کی پیشکش کی گئی۔ اگرچہ میں نے وہ پیشکش قبول نہیں کی لیکن یہ ایک مثال ہے کہ بین الاقوامی میڈیا کے ادارے اپنی پالیسی میں ایسی چیزیں شامل کرتے ہیں اور ان پر عمل درآمد بھی کرتے ہیں۔

پنجاب یونین آف جرنلسٹس کے نائب صدر عامر سہیل کےمطابق پنجاب میں صحافیوں پر حملوں، دھمکیوں، اغوا اور قتل کے واقعات پیش آتے رہتے ہیں جن کی بنیاد پر وہ سمجھتے ہیں کہ صحافتی تحفظ قانون پنجاب کی اہم ضرورت ہے۔ پرانے قوانین صرف پرنٹ میڈٰیا کی حد تک تھے، نئی ٹیکنالوجی، سماجی رابطہ سائٹس اور اب یوٹیوبرز کا دور ہے۔ فری لانس صحافیوں کے حوالے سے قانون میں وضاحت کی ضرورت ہے۔

معاون بانی دی کرنٹ اور نیوز آن لائن کی ایڈیٹر مہمل سرفراز کا کہنا ہے کہ صحافیوں اور میڈیا پروفیشنلز تحفظ ایکٹ 2021 کے مطابق؛ 'کسی بھی جمہوری معاشرے کا تقاضا ہے کہ وہ صحافیوں کی حفاظت اور آزادی کا ایک مضبوط کلچر پیدا کرے لیکن جس طرح سے صحافیوں پر حملے آج بھی جاری ہیں، یہ ہماری جمہوریت میں ایمپیونٹی یعنی جرائم سے مستثنٰی کرنے کے بارے میں بہت کچھ عیاں کرتا ہے۔ اس کی ایک تازہ مثال وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے تحقیقاتی صحافی شاہد اسلم کو جس الزام میں لاہور سے گرفتار کیا، شاہد اسلم اس الزام کی تردید کرتے ہیں۔ یہ عمل صرف ایک وفاقی ایجنسی کی طرف سے ڈرانے اور ہراساں کرنے کا نہیں بلکہ شاہد کو جس طرح سے گرفتار کیا گیا وہ بنیادی انسانی حقوق و آزادی کی بھی خلاف ورزی تھی۔ اس صحافی کے ساتھ ایسا سلوک کیا گیا جیسے وہ ایک مجرم ہو۔ اس جبراً گرفتار صحافی سے اس کے موبائل اور لیپ ٹاپ کے پاس ورڈز بھی مانگے گئے۔

اقبال خٹک، ڈائریکٹر فریڈم نیٹ پاکستان کہتے ہیں کہ سزا سے چھوٹ کا کلچر صحافیوں کے لیے سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ جو لوگ آزاد صحافت پر یقین نہیں رکھتے، صحافیوں پر حملے اور دھمکیاں اور ڈراتے رہے ہیں، قتل کر رہے ہیں ان کو ان سے تقویت مل رہی ہے کہ قانون کے ہاتھ ان کی گردن تک نہیں پہنچ رہے۔ اس نئے قانون کا مقصد صحافیوں کے خلاف ہونے والے جرائم میں پہلے سے موجود قوانین کے مطابق سزا دلائی جائے گی۔

مائرہ عمران، اسلام آباد پریس کلب کی نائب صدر ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ اس قانون کی ایک اہم بات صحافیوں کے تحفظ کا کمیشن بنانا ہے۔ اس میں یونینز کے نمائندے ہیں، ایک جج نے رہنمائی کرنی ہے، وزارت انسانی حقوق، وزارت اطلاعات سے لوگ، کمیشن میں صحافیوں کے کیسز جائیں گے۔

قانون کے مطابق اگر کسی صحافی کو ہراساں کیے جانے یا تشدد کا نشانہ بنائے جانے کا واقعہ پیش آتا ہے تو اس واقعے کی تفصیلات 14 روز کے اندر کمیشن کے سامنے پیش کی جائیں گی اور کمیشن 14 روز میں اس کے متعلق فیصلہ کرے گا۔ کمیشن کو اختیار حاصل ہے کہ وہ واقعے کی تحقیقات کے دوران کسی بھی شخص کو طلب کر سکتا ہے اور کسی بھی ادارے سے اس کے متعلق دستاویزات یا رپورٹ طلب کر سکتا ہے۔

ایسوسی ایٹ پروفیسر شازیہ طور شعبہ ابلاغیات، پنجاب یونیورسٹی لاہور کا صحافتی قانون کے حوالے سے کہنا ہے کہ یہ صحافیوں کے تحفظ کیلئے اچھا قدم ہے۔ صحافیوں کو یہ تربیت لازمی دی جانی چاہئیے کہ صرف ریٹنگ کیلئے خود کو خطرے میں نہیں ڈالنا چاہیئے، نہ ہی صرف مقابلہ بازی میں خود کو خطرے میں ڈالیں۔ یہاں مائند سیٹ کو بدلنے کی اشد ضرورت ہے۔ پاکستانی صحافی جس قسم کی دوڑ میں لگے ہیں، اس کے بجائے نئی مہارتیں سیکھیں۔ ہمارے ہاں آج بھی زمانہ قدیم کا سبق پڑھایا جا رہا ہے۔ ہمارے سلیبس میں بھی اس کو شامل ہونا چاہئیے، کسی بھی پیشہ میں آپ کی جان کا تحفظ آپ کی اولین ترجیح ہونی چاہئیے اور کچھ ایسا طریقہ کار بھی شامل ہونا چاہئیے کہ کمرہ جماعت اور عملی صحافت میں موجود خلیج کو کم کیا جا سکے۔

ربیعہ ارشد گزشتہ 11 سالوں سے شعبہ صحافت کے ساتھ وابستہ ہیں۔ وہ صحافت کی تدریس سے بھی منسلک رہی ہیں اور پچھلے ایک سال سے ڈاکیومنٹری اور ویڈیو میکنگ کی تربیت بھی دیتی ہیں۔