گلگت بلتستان میں وفاق جیسے قوانین اپنا کر صحافتی آزادی کو یقینی بنایا جائے

گلگت بلتستان میں وفاق جیسے قوانین اپنا کر صحافتی آزادی کو یقینی بنایا جائے
امجد حسین برچہ گلگت سے تعلق رکھنے والے صحافی ہیں جو روزنامہ اوصاف گلگت بلتستان کے چیف رپورٹر کے طور پر کام کرتے رہے ہیں۔ ان دنوں روزنامہ وطین کے ایڈیٹر کے طور پر اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ انہوں نے اپنے فیس بک پیج پر ایک خبر پوسٹ کی جس کا تعلق اس وقت کے گلگت میں تعینات ڈپٹی انسپکٹر جنرل (ڈی آئی جی) پولیس سے تھا۔ اس خبر کے بعد پولیس نے امجد حسین برچہ کی تلاش شروع کر دی اور ضلع گلگت کی پولیس نے انہیں ضلع ہنزہ میں ان کے گھر سے رات گئے گرفتار کر لیا اور گلگت منتقل کر دیا۔

صحافتی تنظیموں کو اس واقعہ کی اطلاع صبح اس وقت ملی جب رشتہ داروں نے مطلع کیا۔ اس وقت تک امجد حسین برچہ کے خلاف پرچہ بھی نہیں کاٹا گیا تھا جس کے بعد صحافیوں نے وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان سیکرٹریٹ کے سامنے احتجاجی دھرنا دیا اور شام کے وقت مذاکرات کے ذریعے ان کی رہائی عمل میں لائی گئی۔ اس دوران فیس بک پیج سے خبر بھی ڈیلیٹ کرا دی گئی۔

امجد حسین برچہ کہتے ہیں کہ صحافیوں کو دھمکیاں، گرفتاریاں اور صحافتی سرگرمیوں سے روکنے کے واقعات ہوتے رہتے ہیں اور صحافتی تنظیمیں اس حوالے سے اپنی مدد آپ کے تحت کردار ادا کرتی ہیں لیکن کوئی ایسا ادارہ اور قانون نہیں ہے جس کے تحت تحفظ مل جائے۔ پولیس خود ایسے واقعات میں ملوث ہوتی ہے اور پولیس کے ذریعے ہی صحافیوں کو صحافتی سرگرمیوں سے روکا جاتا ہے۔ ان واقعات کی روک تھام کے لئے صحافتی تنظیموں کو مضبوط کرنے اور قانون سازی کی ضرورت ہے۔ صحافیوں کی معلومات تک رسائی کو آسان بنایا جائے تا کہ بروقت درست خبر مل سکے جس سے غلط افواہوں کا قلع قمع ہو سکے۔

امجد حسین برچہ اکیلے صحافی نہیں ہیں جو اس قسم کے ردعمل کا شکار ہوئے۔ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے مطابق گزشتہ 2 سال کے دوران پورے گلگت بلتستان میں 10 واقعات ریکارڈ ہوئے ہیں جن میں صحافیوں کو صحافتی سرگرمیوں سے روکنے کی کوشش کی گئی اور مختلف ہتھکنڈے استعمال کئے گئے۔ صحافی شمس الرحمٰن پر استور میں ایف آئی آر کاٹی گئی۔ گانچھے میں صحافیوں نے احتجاج کیا تو ان پر مقدمہ درج کیا گیا۔ صحافی مہتاب الرحمٰن کو پولیس نے روکا اور انہیں تشدد کا نشانہ بنایا۔ دیامر سے بھی دو صحافیوں کے ساتھ اسی طرح کا سلوک کیا گیا۔ دو صحافیوں کے خلاف سوشل میڈیا پر منظم مہم چلائی گئی۔ صحافی فرمان کریم، جو بول ٹی وی میں کیمرہ مین کے طور پر جبکہ بادشمال اخبار کے لئے رپورٹر کے طور پر بھی کام کرتے ہیں، ریجنل ہیڈ کوارٹرز ہسپتال میں نومبر 2022 میں ایک جھگڑے کے دوران موجود تھے اور ویڈیو بنانے کی کوشش کی جس پر ان کا موبائل توڑ دیا گیا اور تشدد کی کوشش کی گئی تاہم لوگوں نے بیچ بچاؤ کروا کے انہیں مشتعل ہجوم سے بچا لیا۔

اسی طرح غذر میں صحافی فیروز احمد نے ناقص اشیائے خور و نوش پر خبر بنائی تو تاجروں نے ان کو بھی دھمکیاں دیں۔ اس کے علاوہ ایک ویب چینل (Ibex Media Network) سے منسلک علی مجیب پر بھی گلگت میں اکتوبر 2022 میں نامعلوم افراد کی جانب سے اس وقت حملہ کیا گیا جب وہ اپنے میڈیا چینل کے دفتر سے گھر جانے کے لئے نکل رہے تھے۔ اس کی ایف آئی آر تو کٹی ہے لیکن کوئی گرفتاری عمل میں نہیں لائی گئی۔

پولیس کے ہاتھوں تشدد کا نشانہ بننے والے صحافی مہتاب الرحمٰن کہتے ہیں کہ 'گزشتہ سال اگست کے مہینے میں محرم کے دوران دفعہ 144 کا نفاذ کیا گیا اور اسی دوران ڈی آئی جی پولیس نے ہنگامی طور پر پریس کانفرنس طلب کی۔ میں کسی دوست کے ساتھ موٹرسائیکل پر اپنے گھر سے مین شاہراہ قائد اعظم پر پہنچا ہی تھا کہ پولیس کی گشت کرتی گاڑی سامنے کھڑی ہو گئی اور ان کے کہنے پر میں موٹرسائیکل سے اترا اور اپنا تعارف کرایا اور انہیں بتایا کہ ڈی آئی جی صاحب نے پریس کانفرنس کے لئے بلایا ہے۔ یقین نہیں آتا تو میں فون پہ بات کراتا ہوں۔ اتنی سی بات پر ایڈیشنل سپرنٹنڈنٹ آف پولیس (اے ایس پی) نے ہاتھ اٹھایا اور دوسرے جوان بھی حملہ آور ہو گئے اور گاڑی میں ڈال کر تھانے میں حوالات میں رکھا۔ جب اطلاع صحافی دوستوں تک پہنچی تو انہوں نے ڈی آئی جی کے سامنے احتجاج کیا اور پریس کانفرنس کا بائیکاٹ کرنے کا اعلان کر دیا جس کے بعد ڈی آئی جی نے خود تھانہ فون کر کے رہائی کا حکم دیا'۔

بعد ازاں انسپکٹر جنرل آف پولیس (آئی جی) کے کہنے پر انہوں نے معافی بھی مانگ لی لیکن کچھ روز بعد ایک دکان سے کچھ سامان خرید کر باہر آ رہا تھا کہ روکا اور تمام موجود افراد کو لائن میں کھڑا کر لیا کہ رات کو آپ دکان میں کیا کر رہے ہیں جس کا مقصد سوائے ذہنی اذیت دینے کے اور کچھ بھی نہیں تھا۔

مہتاب الرحمٰن سمجھتے ہیں کہ صحافیوں کے تحفظ کے لئے جو قوانین وفاق میں منظور ہوئے ہیں گلگت بلتستان اسمبلی انہیں ایڈاپٹ کر کے یہاں بھی ان کا نفاذ کرے۔ دفعہ 144 و دیگر حادثات میں صحافیوں کو استثنیٰ دے کر باقاعدہ نوٹیفائی کرنا چاہئیے۔

گلگت بلتستان یونین آف جرنلسٹس کے صدر خالد حسین کہتے ہیں کہ اگر کسی ادارے کے خلاف خبر دیں تو عدالت میں ہتک عزت کا کیس کیا جاتا ہے۔ اگر ایسی خبر پولیس یا کسی اور کے خلاف ہو تو وہ جھوٹی ایف آئی آر درج کروا کر بدلہ لیتے ہیں۔ بدتمیزی اور ہتک آمیز رویے کی درجنوں مثالیں موجود ہیں۔ خبروں کی بنیاد پر اس طرح کا ردعمل کوئی نئی بات نہیں ہے۔

خالد حسین کے مطابق اس طرح کا ردعمل صرف اداروں کی جانب سے نہیں آتا بلکہ سیاسی و مذہبی جماعتوں کی جانب سے بھی صحافی حضرات دھمکیوں کا سامنا کرتے رہتے ہیں۔ خود میں نے بی بی سی کے لئے وزیراعلیٰ گلگت بلتستان کا انٹرویو کیا تو میری باقاعدہ جانچ پڑتال کی گئی اور اس بات کا جائزہ لیا گیا کہ اس صحافی کا تعلق کس علاقے اور کس سیاسی جماعت کے ساتھ ہے۔

فریڈم نیٹ ورک کی صحافیوں کے تحفظ سے متعلق جاری رپورٹ 2021-22 کے مطابق پورے ملک بشمول گلگت بلتستان میں مجموعی طور پر 86 کیسز ایسے سامنے آئے ہیں جن میں صحافیوں پر تشدد کیا گیا جو کہ ہر پانچویں روز ایک کیس بنتا ہے۔ ملک بھر میں صحافیوں کو غیر قانونی طور پر حراست میں رکھے جانے میں گلگت بلتستان کا حصہ 9 فیصد ہے۔

پروٹیکشن آف جرنلسٹس اینڈ میڈیا پروفیشنلز ایکٹ 2021 کے مطابق صحافیوں کے ساتھ بدسلوکی، ذرائع کا تحفظ، ذمہ داریاں ادا کرتے ہوئے آزادی، اور گالم گلوچ، ناقابل برداشت رویہ، حراساں کرنے اور تشدد سے بچانے کی ذمہ داری حکومت کی ہے۔

پریس کلب گلگت کے صدر خورشید احمد کہتے ہیں کہ اصولی طور پر صحافیوں کو کوئی یکطرفہ سٹوری کرنی ہی نہیں چاہئیے تاکہ کسی کو جواز نہ ملے تاہم تمام ثبوت کے ساتھ بھی کوئی سٹوری چھاپی جائے تو لوگ اپنا پرتشدد ردعمل دیتے ہیں۔ سب سے بڑا مسئلہ معلومات تک رسائی کے قانون (آر ٹی آئی) کا نہ ہونا ہے جس کی وجہ سے بعض اوقات خبروں کی تصدیق میں مسائل درپیش آتے ہیں۔

منظر شگری جو گزشتہ 25 سالوں سے میڈیا میں کام کر رہے ہیں، سمجھتے ہیں کہ صحافتی تنظیموں کو متعلقہ حکومتی اداروں کے ساتھ مل کر صحافیوں کے تحفظ کے لیے اقدامات کرنے چاہئیں۔ صحافیوں کو خود علم ہوتا ہے کہ کن خبروں پر کہاں سے ردعمل آئے گا۔ ایسی صورت حال میں یہ ضروری ہے کہ پروٹیکشن آف جرنلسٹس کے قانون کو جی بی اسمبلی سے منظور کروایا جائے اور ان کے تحفظ کے لئے اقدامات اٹھائے جائیں۔

ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے صوبائی کوآرڈینیٹر اسرار الدین اسرار کہتے ہیں کہ صحافیوں کے تحفظ کے لئے قانون بنانے کی ضرورت ہے اور جب تک اس حوالے سے قانون و پالیسی موجود نہیں ہو گی تب تک تو تحفظ ممکن نہیں ہے۔

ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن کے ممبر انور زیب ایڈووکیٹ کہتے ہیں کہ صحافیوں کو سب سے پہلے اپنے ضابطہ اخلاق پر پورا اترنا چاہئیے۔ صحافیوں کی خبر پر تشدد پر مبنی ردعمل کی گنجائش نہیں ہے کیونکہ تحقیق کا جواب تحقیق اور خبر کا جواب خبر سے دینا ہوتا ہے۔ ہمارا معاشرہ اب تک بلوغت کی عمر میں نہیں آیا ہے کہ خبر اور پروپیگنڈے میں فرق کر سکے۔ اسی وجہ سے جس کے خلاف خبر لگتی ہے وہ اسے اپنے خلاف پروپیگنڈا سمجھتا ہے۔ معلومات تک رسائی اور صحافیوں کے تحفظ کے قوانین کو فوری منظور کرنا چاہئیے۔

اس حوالے سے سیکرٹری محکمہ اطلاعات گلگت بلتستان ضمیر عباس نے بتایا کہ حکومت اظہار رائے کی آزادی پر مکمل یقین رکھتی ہے اور کوئی ایسا تاثر پیدا نہیں کرنے دے گی کہ جس سے آزادی اظہار رائے کی مخالفت کا شبہ ہو۔ محکمہ اطلاعات اپنا پورا کردار ادا کرنے کو تیار ہے۔ میری یہاں تعیناتی سے لے کر اب تک ایک بھی کیس سامنے نہیں آیا ہے۔ پریس کلب گلگت صحافیوں کے امور کی نگرانی کرتا ہے۔ جب بھی ان کی جانب سے یا کسی صحافی کی جانب سے کسی بھی قسم کی شکایت موصول ہو گی ہم قانونی راستہ اپنائیں گے اور صحافیوں کا تحفظ یقینی بنانے کے لئے ہر ممکن اقدامات کریں گے۔

فہیم اختر کا تعلق گلگت بلتستان سے ہے اور وہ صحافت کے شعبے کے ساتھ منسلک ہیں۔