ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان نے ملک میں انسانی حقوق کی صورتحال پر سال 2020 کی سالا نہ رپورٹ جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ ملک میں اقلیتوں کو جبری مذہبی تبدیلی، تعصب،نفرت آمیز اور توہین رسالت کے جھوٹے الزامات کا سامنا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کمیشن نے ایسے 31 کیسز کی نشاندہی کی ہے جن کو جبری مذہبی تبدیلی کا سامنا کرنا پڑا اور ان میں چھ کم عمر لوگ شامل تھے۔ کمیشن نے کہا ہے کہ گزشتہ سال ملک میں 586 افراد پرتوہین مذہب قوانین کے تخت مقدمات دائر کئے گئے جن میں زیادہ تعداد پنجاب کے شہریوں کی ہے۔
کمیشن نے کہا ہے کہ ملک میں احمدی کمیونٹی کے 24 افراد پر توہین مذہب کے مقدمات دائر کئے گئے جن میں ٹوبہ ٹیگ سنگھ کا ایک سنار بھی شامل ہے جس پر توہین مذہب کا مقدمہ صرف اس وجہ سے دائر کیا گیا کہ اس نے ایک گائے کی قربانی کے بعد گوشت مقامی مسلمانوں میں تقسیم کیا۔
انسانی حقوق کے کمیشن نے اپنے رپورٹ میں کہا ہے کہ ملک میں خواتین کے خلاف جرائم میں اضافہ ہوا لیکن پاکستانی خواتین نے ’ٹو فنگر ٹیسٹ‘ کے متنازع طریقوں کو ’غیر قانونی‘ اور ’آئین کے منافی‘ قرار دینے میں بڑا کردار ادا کیا اور یہ پاکستانی خواتین کے لئے ایک فتح تھی۔
انسانی حقوق کے کمیشن نے گزشتہ سال بچوں کے ساتھ ہونے والے جرائم کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا ہے کہ گزشتہ سال بچوں کے خلاف جرائم کے کل 2،960 واقعات سامنے ائے ہیں۔ کمیشن نے بچوں کے خلاف بڑھتے جرائم پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ سال شیرخوار بچوں سمیت دیگر عمر کے بچوں کو مختلف قسم کے جرائم کا نشانہ بنایا گیا جن میں اغوا سمیت جنسی درندگی اور ریپ جیسے واقعات شامل ہے۔
ملک میں ماحولیات کی صورتحال پر رائے دیتے ہوئے کمیشن نے واضح کیا ہےخیبرپختونخوا میں ماحولیات کو شدید خطرہ ہے۔ ادارے نے لکھا ہے کہ خیبر پختونخوا کے ضلع ہری پور میں بڑے بڑے جنگلات کی کٹائی کرکے ان کو رہائشی اور کاروباری سرگرمیوں میں تبدیل کیا جارہا ہے۔ ادارے نے لکھا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف حکومت کی بنائی گئی اپنی انکوائری کمیٹی نے سفارشات حکومت کو فراہم کی ہے جس میں اس بات کی نشاندہی کی گئی ہے کہ ایک مافیا جنگلات کی غیر قانونی کٹائی میں مصروف ہے اور جنگلات پر محیط ایک بڑے علاقے کو کاروباری اور رہائشی منصوبوں میں تبدیل کیا گیا ہے۔
کمیشن نے اظہار رائے کی آزادیوں پر بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ ملک میں اس وقت میڈیا اور اظہار رائے کو شدید خطرات کا سامنا ہے اور ملک میں صحافیوں کے قتل عام سمیت ڈرانے دھماکنے کا سلسلہ جاری ہے۔ کمیشن نے جنگ گروپ کے مالک میر شکیل الرحمان کی کیس پر تبصرہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ میر شکیل الرحمان کو چونتیس سالہ پرانے مقدمے میں شامل تفشیش کرنا میڈیا کے اداروں پر دباؤ بڑھانے کے لئے علاوہ کچھ نہیں تھا تاکہ میڈیا کو اس بات کا پابند کریں کہ وہ حدود سے باہر نہ نکلے۔ کمیشن نے اپنے سالانہ رپورٹ میں کہا ہے کہ صحافی بلال فاروقی کے خلاف منظم پروپیگنڈا ور ان پر غداری کے مقدمات درج کرنا صحافیوں کو خاموش کرانے کی ایک سازش تھی۔
کمیشن نے سال 2020 کے سالانہ رپورٹ میں آزادانہ نقل و حرکت کی آزادی پر تبصرہ دیتے ہوئے کہا ہے ملک میں آزادانہ نقل وحرکت کو بھی شدید خطرات کا سامنا ہے اور ممبر قومی اسمبلی محسن داؤڑ کو کوئٹہ میں داخل ہونے سے روک کر سیکیورٹی رسک قرار دیا گیا۔ کمیشن نے مزید کہا ہے کہ گوادر کے باسیوں کی نقل و حرکت کو محدود کرانے کے لئے شہر میں باڑ لگانے کی کوشش کی گئی جس پر انسانی حقوق کمیشن تشویش کا اظہار کرتی ہے۔
State-of-Human-Rights-in-2020-20210503-KEY-ISSUES
ؔکمیشن نے حکومت اور ریاست کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے واضح کیا ہے کہ یہ نیو لبرل ہائبرڈ نظام شہریوں کی آئینی اور قانونی حقوق کا تحفظ نہیں کرسکتا۔
کمیشن نے جبری گمشدگیوں پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ہوئے کہا ہے کہ موجودہ حکومت نے تین سال پہلے وعدہ کیا تھا کہ وہ جبری گمشدگیوں کو مجرمانہ فعل بنانے کے لئے قانون پارلیمنٹ میں پیش کریگی لیکن ابھی تک وہ قانون پیش نہیں کیا گیا۔ صوبہ خیبر پختونخوا جبری گمشدگیوں کے واقعات میں سرفہرست رہا ہے اور گزشتہ سال کے دسمبر تک صوبے میں جبری گمشدگیوں کے کیسز 2،942 تک پہنچ گئے ہیں۔
کمیشن نے جبری گمشدگیوں کے لئے بنائے گئے کمیشن کو متنازعہ قرار دیتے ہوئے واضح کیا ہے کہ جبری گمشدگیوں کا کمیشن ملک میں جبری طور پر گمشدہ ہونے والے شہریوں کے صحیح اعداد و شمار سامنے لانے میں ناکام رہا جبکہ کمیشن نے گزشتہ سال ملک میں 177 افراد کو سزائے موت سنانے پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔
انسانی حقوق کے کمیشن نےعدلیہ کی ناکامی پر تشویش کا آظہار کرتے ہوئے واضح کہا ہے کہ ملک میں 21 لاکھ مقدمات تاحال زیر التوا ہیں جن پر کوئی فیصلہ نہیں ہوا اور گزشتہ سال ان مقدمات کی تعداد اٹھارہ لاکھ تھی جو اب بڑھ کر 21 لاکھ ہوگئی ہے۔ کمیشن نے سپریم کورٹ کے جسٹس جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف بنائے گئے صدارتی ریفرنس پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس بنانا کا مقصد تنقیدی اوازوں کو دبانے کے سوا کچھ نہیں تھا۔
کمیشن نے موجودہ حکومت کے زینب الرٹ بل کی پارلیمان سے منظوری کی تعریف کرتے ہوئے کہا ہے کہ انسانی حقوق کے کمیشن کو امید ہے کہ اس قانون سے بچوں کے خلاف جرائم میں کمی واقع ہوگی۔
کمیشن نے موجودہ حکومت کی انسانی حقوق کی ترجیحات کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ نیشنل کمیشن برائے انسانی حقوق مئی 2019 سے غیر فعال ہے اور کیونکہ حکومت نے تاحال ان کے سربراہ کی تعیناتی نہیں کی۔ کمیشن نے مزید کہا ہے کہ نیشنل کمیشن برائے خواتین کی سربراہ کی تعیناتی بھی تاحال نہیں ہوئی اور وہ عہدہ تاحال خالی پڑا ہے۔