نیشنل کمیشن فار ہیومن رائٹس کا پاکستان میں احمدیوں کے انسانی حقوق کے تحفظ کا مطالبہ

کمیشن نے  اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ کمیشن کو جماعت احمدیہ کی جانب سے متعدد تحریری شکایات موصول ہوئیں کہ پاکستان میں احمدیوں کے بنیادی انسانی حقوق کی پامالی کی جا رہی ہے اور عبادت گاہوں پر حملے کیے جا رہے ہیں۔ انسانی حقوق کی پامالی کے  ان واقعات سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ احمدیہ کمیونٹی پاکستان میں سب سے زیادہ امتیازی اور متعصبانہ سلوک کا شکار ہے.

نیشنل کمیشن فار ہیومن رائٹس کا پاکستان میں احمدیوں کے انسانی حقوق کے تحفظ کا مطالبہ

نیشنل کمیشن فار ہیومن رائٹس نے پاکستان میں احمدیوں پر بڑھتے ہوئے حملوں،ان کی عبادتگاہوں اور قبرستانوں کی بے حرمتی ،سماجی سطح پر احمدیوں سے بد سلوکی اور ریاستی سطح پر امتیازی سلوک پر گہر ی تشویش ظاہر کرتے ہوئے وفاقی اور صوبائی حکومتوں سے فوری اور موثر اقدامات کا مطالبہ کیا ہے۔

خیال رہے کہ نیشنل کمیشن فار ہیومن رائٹس ایک خود مختار ادارہ ہے جس کو پاکستان کی پارلیمنٹ میں 2012 میں نیشنل کمیشن فار ہیومن رائٹ ایکٹ کے تحت قائم کیا گیا ہے۔ اس کمیشن کے قیام کا بنیادی مقصد انسانی حقوق کا تحفظ کرنا ہے۔

گزشتہ دنوں کمیشن کی جانب سے جماعت احمدیہ  کے ساتھ ہونے والے امتیازی سلوک  حوالے سے ایک رپورٹ شائع کی گئی۔ رپورٹ کے تعارف میں لکھا ہے کہ کمیشن کو جماعت احمدیہ کی جانب سے متعدد تحریری شکایات موصول ہوئیں   کہ پاکستان میں احمدیوں کے بنیادی انسانی حقوق کی پامالی کی جا رہی ہے اور عبادت گاہوں پر حملے کیے جا رہے ہیں۔ کمیشن نے  اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ انسانی حقوق کی پامالی کے  ان واقعات سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ احمدیہ کمیونٹی پاکستان میں سب سے زیادہ امتیازی اور متعصبانہ سلوک کا شکار ہے.

 گزشتہ سال 17 اور 18 ستمبر کو کمیشن کے تین ارکان نے ربوہ کا دورہ کیا  تھا۔اس دورے کا بنیادی مقصد جماعت احمدیہ کی طرف سے انسانی حقوق کی پامالی کی شکایات  کا جائزہ تھا۔ وفد کو احمدیہ عبادت گاہوں  اور قبرستانوں میں  حملوں کے حوالے سے  آگاہ کیا گیا ۔کمیشن نے  جماعت  احمدیہ کے ذمہ داران سے  میٹنگ کے علاوہ متاثرہ احمدی خواتین و حضرات سے ملاقات کی ۔

مذکورہ رپورٹ 21 صفحات پر مشتمل ہے اس رپورٹ میں جماعت احمدیہ کی پرسیکیوشن کے حوالے سے اعداد و شمار دیے گئے ہیں۔ اسی طرح 2023 میں جماعت احمدیہ کی عبادت گاہوں پر ہونے والے حملوں کی مکمل تفصیل بیان کی گئی ہے۔ نیز جماعت احمدیہ کی جانب سے سال 2022 اور 2023 میں جو شکایات اور پٹیشن فائل کی گئی ان کا بھی مختصر ذکر کیا گیا ہے۔  سال 2023 میں احمدی عبادت گاہوں پر حملوں کی فہرست بھی شائع کی گئی ہے جس کے مطابق متعدد مقامات پر  پولیس نے مینارمسمار کئے۔

رپورٹ کے آخر پر کمیشن نے حکومت پاکستان کو درج ذیل 14 سفارشات پیش کی ہیں۔

 1۔                حکومت کو چاہیے کہ وہ مذہبی آزادی کے ضمن میں آئین کے آرٹیکل  20 کے مطابق ہر ایک کو اپنے مذہب پر عمل کرنے اور اس کی نشر و اشاعت کی آزادی دے۔

2۔               حکومت تمام ممکنہ اقدامات کرے جس کے تحت تمام اقلیتوں بشمول احمدیوں کو بھی وہی بنیادی انسانی حقوق حاصل ہوں جو دوسرے پاکستانی شہریوں کو ہیں۔ اسی طرح حکومت ایک نظام وضع کرے جس کے تحت احمدی کمیونٹی کی حفاظت کو یقینی بنایا جائے۔یہ نظام امن عامہ کے قیام کویقینی بنانے والے  دیگر اداروں کی معاونت سے کام کرے۔

3۔               احمدیوں کے نام اورایڈریسز الگ ووٹر لسٹ میں شامل ہونے سے احمدیوں کی زندگیوں کو سنگین خطرہ لاحق ہے اور ان لسٹوں کے عوامی مقامات پر آویزاں ہونے سے احمدیہ کمیونٹی خطرے میں ہے ۔احمدیوں کے نام الگ ووٹر لسٹ کی بجائے اسی طرح جنرل ووٹر لسٹ میں شامل ہوں جس طرح دیگر اقلیتوں کے نام شامل ہیں۔

4۔               حکومت کو چاہیے کہ وہ ملازمتوں میں تمام اقلیتوں کو برابری کا موقع دے۔

5۔                عالمی انسانی حقوق کے معاہدوں کے مطابق حکومت اپنی ذمہ داریاں پوری کرے اور مذہبی آزادی کو یقینی بنائے جس کی ضمانت آئی سی سی پی آر کے تحت دی گئی ہے۔اس کے علاوہ ایسے قوانین کو وضع کرنا ضروری ہے جو تمام شہریوں کو برابر کے حقوق فراہم کرے اور ان کی حفاظت بلاامتیاز مذہب کرے۔

6۔              حکومت کو احمدیوں کے خلاف نفرت پھیلانے والے عناصر کے خلاف سخت کاروائی کرنی چاہیے۔

7۔               حکومت کو چاہیے کہ وہ تعلیمی اداروں میں نفرت اور انتہا پسندی کی تلقین کرنے والوں کے خلاف موثر کاروائی کرے۔

8۔               وفاقی اور صوبائی وزرائے تعلیم ایسے اقدامات کریں جس کے تحت تعلیمی اداروں  اور ہاسٹلز میں احمدی طلبہ کے ساتھ امتیازی سلوک نہ ہو۔

9۔               تعلیمی شعبے میں جامع اصلاحات کی جائیں اور رواداری کو نصاب کا حصہ بنایا جائے۔ نوجوان نسل کو تعلیم دے کر ایک متنوع معاشرہ تشکیل دیا جا سکتا ہے۔

10۔            حکومت کو چاہیے کہ احمدیوں پر حملہ کرنے والوں اور انہیں دھمکیاں دینے والوں کے خلاف بروقت اور غیر جانبدار قانونی کاروائی کرے۔ بروقت انتظامی اور قانونی اقدامات کے ذریعے امن و عامہ کو یقینی بنایا جائے اور حکومت احمدیوں کی عبادت گاہوں  اور قبرستانوں کی بے حرمتی کرنے والوں کے خلاف موثر کاروائی کرے۔

11۔             اقلیتوں کے معاملات میں موثر کاروائی کرنے کے لیے پولیس کی استطاعت میں اضافہ کیا جائے۔

12۔            سپریم کورٹ کے 2014 کے تصدق جیلانی کیس کی روشنی میں خصوصی پولیس فورس کا قیام یقینی بنایا جائے جو اقلیتوں کی عبادت گاہوں کا تحفظ کرے۔اس فورس کے قیام کا مقصد بالخصوص ان قواعد و ضوابط کے تحت کام کرنا ہو جس سے احمدی افراد  اور احمدی عبادتگاہوں پر ہونے والے حملوں کو روکا جا سکے۔اس فورس  کی تربیت میں بالخصوص مذہبی رواداری، معاشرے کی حساسیت اور دیگر تمام چیلنجز کو فوقیت دی جائے جن کا اقلیتوں کو سامنا ہے۔

13۔            قومی سطح پر ایک آگاہی مہم چلائی جائے جس میں رواداری اور دوسرے مذاہب  کے عزت و احترام پر مبنی کلچر کو فروغ دیا جائے۔ان مہمات کا مقصد عوام کو یہ ترغیب دلانا ہو کہ کس طرح رواداری کے ساتھ رہا جا سکتا ہے۔

14۔            حکومت میں سٹریم میڈیا اور سوشل میڈیا پر احمدیوں کے خلاف نفرت انگیز تحریر و تقریر کے خلاف سخت کاروائی کرے۔