ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (ایچ آر سی پی) نے کہا ہے کہ غزہ کے عوام پر اسرائیل کے ظالمانہ حملے عالمی قانون اور انسانی حقوق کے عالمی اصولوں کی کھلی خلاف ورزی کے زمرے میں آتے ہیں۔ محض گذشتہ ہفتے کے دوران، 60 بچوں سمیت 200 سے زائد افراد مارے جا چکے ہیں۔ اسرائیل کا نہ صرف عام شہریوں، بلکہ بچوں، صحت کے کارکنان اور ذرائع ابلاغ کو نشانہ بنانا اِس تشویشناک حقیقت کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ اِسے قانونی کاروائی سے استثنیٰ حاصل ہے۔ عالمی برادری اس افسوسناک حقیقت کو مسلسل نظرانداز کر کے نقصان سے دوچار ہو سکتی ہے۔ طاقت کے شدید عدمِ توازن، عشروں پر محیط سامراجی آبادکاری اور ستم زدہ عوام کے خلاف ریاستی اعانت سے ہونے والے جرائم کی موجودگی میں صرف یہ کہہ دینا کافی نہیں کہ ریاست کو اپنے 'دفاع' کا حق حاصل ہے۔ایچ آر سی پی غزہ کے عوام کے ساتھ کھڑا ہے اور اقوامِ عالم سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ انسانی حقوق کے اِن اصولوں کی حفاظت کے لیے عزم کا مظاہرہ کریں جن کی ترجمانی کا وہ دعویٰ کرتی ہیں۔
اسرائیلی جارحیت کے بعد سے اب تک فلسطین میں بپا قیامت کی صورتحال
فلسطینی حکام کا کہنا ہے کہ تنازعے کے آغاز کے بعد سے اتواراب تک کا سب سے ہلاکت خیز دن تھا جب اسرائیلی بمباری میں 42 افراد ہلاک ہو گئے۔ اس میں دس بچے اور 16 خواتین شامل ہیں۔ غزہ میں حکام کے مطابق اب تک اسرائیلی بمباری میں کم سے کم 192 فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں۔ اس میں 58 کم سن بچے، 43 خواتین شامل ہیں۔ اس کے علاوہ پندرہ سو کے قریب افراد زخمی ہوئے ہیں۔ ڈاکٹرز وداؤٹ بارڈرز کے مطابق غزہ میں اس وقت طبی ہنگامی صورتحال ہے۔ ہلال احمر کی عمارت کو بھی تباہ کردیا گیا ہے اور ادارے لے مطابق ہسپتال جانے والی تمام سڑکیں اس وقت تباہ کردی گئیں ہیں۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق غزہ کی واحد کرونا ٹیسٹنگ لیب کو بھی تباہ کردیا گیا ہے جس کے بعد اب کرونا کے ٹیسٹ بھی رک چکے ہیں جبکہ غزہ میں کرونا وائرس کے کیسز مسلسل سامنے آرہے تھے۔
صحافیوں کی عالمی تنظیم 'رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز' نے میڈیا اداروں پر اسرائیل کے فضائی حملوں کی عالمی فوجداری عدالت کی مستغیث اعلی فاتو بن سوڈا سے تفتیش کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ اسرائیل نے غزہ کے جلال ٹاور کو بمباری سے منہدم کر دیا تھا جس میں الجزیرہ اور خبر رساں ادارے ایسو سی ایٹیڈ پریس جیسے کئی عالمی میڈیا کے دفاتر تھے۔ ادارے کے سکریٹری جنرل کرسٹوفر ڈیلوری کا اتوار کے روز ایک بیان شائع ہوا ہے جس میں کہا گیا کہ میڈیا اداروں کو دانستہ طور پر نشانہ بنانا جنگی جرائم کے مترادف ہے۔
اقوام متحدہ اب تک اس تازہ ترین جارحیت پر کیا کر چکی ہے؟
خبر رساں ادارے ایسو سی ایٹیڈ پریس کے مطابق چین، ناروے اور تیونس جیسے ممالک کی کوشش تھی کہ اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کم سے ایک بیان جاری کر سکے جس میں جنگ بندی کی اپیل کے ساتھ معاندانہ رویہ ختم کرنے کی بات کہی جا سکے تاہم امریکا نے ایسا بھی کرنے سے باز رکھا اور اسے ویٹو کر دیا۔
پاکستان میں فلسطین سے اظہار یکجہتی کے لیئے مظاہرے
قوق خلق موومنٹ اور پروگریسو سٹوڈنٹس کولیکٹو کے زیر اہتمام فلسطین سے یکجہتی اور اسرائیلی بربریت کے خلاف لبرٹی چوک لاہور پر ایک مظاہرے کا انعقاد کیا گیا۔ مظاہرین نے فلسطین کی آزادی اور اسرائیلی ظلم و جبر کے خلاف شدید نعرے بازی کی۔
مظاہرے سے خطاب کرتے ہوئے حقوق خلق موومنٹ کے رہنما حیدر علی بٹ نے کہا کہ فلسطین کی آزادی کی فیصلہ کن جنگ انسانیت کی بقا کی جنگ ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اسرائیل کی جانب سے فلسطین میں جاری قتل عام نے ثابت کر دیا کہ اسرائیل ایک مذہبی دہشتگرد ریاست ہے۔ افغانستان میں سکول دھماکے میں شہید ہونے ہونے والے بچوں کے متعلق بات کرتے ہوئے کہا کہ ہماری جنگ ہر اس انتہاء پسند سوچ سے ہے جو مذہب کے نام پر عام لوگوں اور معصوم بچوں کو قتل کرتی ہے۔پروگریسو سٹوڈنٹس کولیکٹو کے صدر محسن ابدالی نے کہا کہ فلسطین کی آزادی کے لیے دنیا بھر کی تمام ترقی پسند قوتوں کو یکجا ہو کر امریکی سامراجیت اور اسرائیلی جارحیت کے خلاف اٹھ کھڑا ہونا ہو گا۔ مظاہرے میں شریک افراد سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ دنیا میں جتنے بھی مظالم ہورہے ہیں وہ ان تمام سامراجی طاقتوں کی سرپرستی شامل ہے اسی لئے ان سامراجی قوتوں کے زیر اثر چلنے والا میڈیا ان کی لائن پر رپورٹنگ کرتا ہے۔
بھارتی سول سوسائٹی کی مضبوط آواز: اسرائیل پر فلسطینی سرزمین سے راکٹ پھینکے جانا جارحیت نہیں بلکہ مزاحمت ہے
معروف بھارتی مصنفہ اروندھتی رائےکی قیادت میں بھارتی سول سوسائٹی کے ایک گروپ نے فلسطینی سرزمین سے اسرائیل پر داغے جانے والے راکٹوں کو فلسطینوں کی مزاحمت قرار دیا. بھارتی انگریزی روزنامہ دی ہندو کے مطابق بھارتی مصنفین کی تنظیم ناینترا ساہگل کے اراکین نے موقف اپنایا ہے کہ اسرائیلی آباد کار فلسطینی سرزمین پر قابض ہیں اور اسکی بنیاد پر فلسطین سے اسرائیل پر داغےجانے والے راکٹ دراصل وہ مزاحمت ہیں جسے عالمی قوانین کی حمایت حاصل ہے۔ تنظیم نے مزید کہا کہ اسرائیلی حکومت فلسطینی بچوں کا قتل عام کر رہی ہے اور فلسطینیوں پر الزام تراشی کو بہانہ بنا کر انکی سرزمین پر قابض ہونا چاہتی ہے۔
مصنفین کی تنظیم نے مزید وضاحت کی کہ غزہ سے داغے گئے میزائلوں کو بربریت کے معنی دئیے جا سکتے ہیں نہ انہیں بربریت کا آغازِ کہا جا سکتا ہے کیونکہ یہ راکٹ مزاحمتی حکمت عملی کے تحت فائر کئے گئے ہیں۔ نظیم نے زور دیا کہ عالمی قوانین اسرائیل کے غزہ میں غیر قانونی قبضہ کے خلاف اس مزاحمت کی حمایت کرتے ہیں۔ ارون دتی رائے کی قیادت میں گروپ نے مصر سے بھی مطالبہ کیا ہے کہ وہ غزہ سے گزرنے والی اپنی فضائی حدود کو نو فلائی زون قرار دے دوسری طرف گروپ نے عرب دُنیا پر بھی تنقید کی ہے اور عرب ریاستوں پر مظلوم فلسطینیوں کے حق میں موثر آواز بلند نہ کرنے کا الزام عائد کیا ہے۔
صف اول کے فنکاروں، ادیبوں اداکاروں اور مصنفوں پر مشتمل اس گروپ نے اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کی 1960 کی قراداد نمبر 1514 کا حوالہ بھی دیا ہے جس میں نوآبادیاتی نظام کے خاتمہ کی حمایت کی گئی ہے۔