پاکستان میں صحافیوں کا قانونی تحفظ: 'شکریہ جرنلسٹس ڈیفنس کمیٹی'

پاکستان میں صحافیوں کا قانونی تحفظ: 'شکریہ جرنلسٹس ڈیفنس کمیٹی'
صحافت کا آغاز لاہور کے روزنامہ وفاق سے کیا۔ روزنامہ آفتاب ،چٹان،صحافت،اساس ،انصاف ،خبریں،نوائے وقت میں بطور سب ایڈیٹر،فیچررائٹر ،میگزین ایڈیٹر خدمات انجام دی اور ساتھ یونین سیاست میں فعال رہا۔ جرنلسٹس یونینسٹ بخت گیر چودھری،جلیل حسن اختر ،قمرزمان بھٹی سمیت اور کئی سنیئر سے بہت کچھ سیکھا۔پنجاب یونین آف جرنلسٹس کا کردار کارکن صحافیوں کے مسائل کے حوالے شاندار تھا۔یونین لیڈر ہر مسلہ پر کارکنوں کے ساتھ کھڑے ہوتے اور بھر پور طریقے سے کارکنوں کے مفادات کی لڑائی لڑتے اور حقوق کا تحفظ کرتےتھے۔ یہی بات پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے بارے میں کہی جاتی تھی۔ حالات نے پلٹا کھایا اور پنجاب یونین آف جرنلسٹس پر راناعظیم جیسے لوگوں نے قبضہ کرلیا۔ پریس کلب کی سیاست بھی محض پلاٹوں کے حصول تک محدود ہوکر رہ گئی۔مرضی کی ووٹر لسٹیں تیار ہونے لگی۔پسند اور ناپسند پر ممبرشپ کا معیار بن گیا۔

ستمبر 2005 کو لاہور کو خیرآباد کہہ دیا ۔اسلام آباد میں اس وقت روزنامہ جناح کے بارے میں کارکنوں کی رائے اچھی تھی ۔عبدلودود قریشی ایڈیٹر اور تزئین اختر جائنٹ ایڈیٹر تھے۔تزئین اختر سے روزنامہ خبریں لاہور سےصحافتی کام سیکھا تھا۔ تزئین اختر نے روزنامہ جناح میں بھی شفقت جاری رکھی اور تین سال کا سفر خوبصورتی سے جاری رہا۔ اسلام آ باد میں قدم رکھے دوسرا ماہ تھا کہ اسلام آباد یونین آف جرنلسٹس کے سالانہ انتخابات کا اعلان ہوا۔الیکشن میں کاغذات جمع کرادیئے ۔انتخابی سرگرمیوں میں سی آر شمسی اور فوزیہ شاہد ، پرویز شوکت،رانا ابرار اور کئی یونین ازم کرنے والوں سے جڑت بن گئی ۔اس وقت نواز رضا پریس کلب کے مستقل صدر تھے۔مشتاق منہاس جو آجکل وزیر اطلاعات آزاد ریاست جموں وکشمیر ہیں۔پریس کلب میں نئے الیکشن کےلئے جدوجہد میں مصروف تھے۔مشتاق منہاس سے ملک کر جدوجہد کی اور پریس کلب کے انتخابات میں حصہ بھی لیا۔
پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کی قیادت بھی بدل جاتی ہے اور افضل بٹ سامنے آتے ہیں ۔جن کی قیادت میں پریس کلب اور پی ایف یوجے کا کردار بھی بدل جاتا ہے اور صرف ذاتی مفادات کو ترجیح دی جاتی ہے۔مالکان کی لڑائی تو لڑی جاتی ہے مگر کارکنان بے یارومدد گار چھوڑ دیئے جاتے ہیں۔افضل بٹ کو قائد صحافت بنانے والے پی ایف یوجے اور پریس کلب کو محض دکان بنالیتے ہیں اور طرح طرح کے شعبدے کرکے مال پانی بنانے کی دوڑ میں لگ جاتے ہیں۔یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔

گزشتہ دنوں کارکنان ،صحافیوں نے کھلی آنکھوں سے دیکھا کہ مالکان کےلئے پی ایف یوجے نے مظاہرہ کیا ہے۔ مگر ہزاروں کارکنان بے روزگار ہوئے ہیں۔تنخواہیں نہیں مل رہی ہیں۔جبری برطرفیاں ۔صحافیوں کےخلاف مقدمات درج ہورہے ہیں ۔ صحافی اغوا ہوتے ہیں ۔قتل ہوتے ہیں ۔صحافیوں پر تشدد ہوتا ہے ۔صحافیوں کےخلاف پیکا 2016 جیسے قوانین کے تحت اقدام ہورہے ہیں مگریونین اور صحافتی تنظیمیں بالکل خاموش ہیں۔سپانسرز تلاش کر کےمحافل میلاد،سمینارز ،ایوارڈ شو کرائے جارہے ہیں ۔ٹریڈیونین  اور یونین ازم کی ایف ب سے بھی واقف نہیں ہیں۔صحافتی قیادت کی اس بحرانی کیفیت اور فقدان کے عہد میں جب صحافی کارکنان چاروں طرف سے مایوس ہیں۔یونینز کئی حصوں میں تقسیم ہوچکی ہیں۔دھڑے بندیوں کا شکار ہیں۔

وکلاء برادری نے دنیا کی تاریخ میں پہلا قدم اٹھاتے ہوئے جرنلسٹس ڈیفنس کمیٹی قائم کرکے صحافیوں کے ساتھ کھڑے ہوئے ہیں ۔اتفاقیہ راقم کا پہلا کیس جرنلسٹس ڈیفنس کمیٹی کا ٹیسٹ کیس قرار پاتا ۔جس پر ساجد تنولی ایڈووکیٹ ،بابر حیات سومور، حامدعثمان ورڑئچ  اور حیدر امتیاز ایڈووکیٹ سمیت سنیئر صحافی مطیع اللہ جان اور جے ڈی سی کے ممبران نے بھرپور طریقے سے کیس کی پیروی کی اور سرخرو ہوئے ہیں۔

حامد عثمان ورڑئچ ایڈووکیٹ  جرنلسٹس ڈیفنس کمیٹی کے کوارڈینٹر ہیں ۔حامد عثمان ورڑئچ نے بتایا کہ پاکستان بارکونسل جرنلسٹس ڈیفنس کمیٹی کے بیس اکتوبر کے اجلاس میں کمیٹی کو توسیع دی گئی اور صرف اسلام آباد ،راولپنڈی کی بجائے پاکستان بھر میں ضلعی سطح پر بھی جے ڈی سی کو قائم کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ کمیٹی صحافیوں کے حقوق اور صحافیوں پر قائم مقدمات مفت لڑے گی ۔ حامد عثمان ورڑئچ نے بتایا کہ جے ڈی سی صحافیوں کے خلاف مقدمات کا ڈیٹا جمع کررہی ہے اور  جوصحافی قتل ہوئے ہیں ان کے فیصلوں کے حوالے سے بھی مواد جمع کیا جارہا ہے۔
پاکستان بار کونسل کی قیادت اور جرنلسٹس ڈیفنس کمیٹی کو خراج تحسین ہے۔ان کا یہ اقدام تاریخی ہے۔بطور کارکن صحافی تہہ دل سے شکرگزار ہوں کہ جرنلسٹس ڈیفنس کمیٹی نے قانونی تحفظ دیا اور کیس سے نجات دلائی ہے۔شکریہ جرنلسٹس ڈیفنس کمیٹی

مصنف ایک لکھاری اور صحافی ہونے کے ساتھ ساتھ انسانی حقوق کے کارکن بھی ہیں۔